جدید نظام ہے کیا!؟

سب کو جدید نظام چاہیے، سب تبدیلی کے خواہش مند ہیں، تبدیلی اور نئے نظام سے پہلے ہم پرانے نظام کو تو سمجھیں، جب ہم پرانے نظام کو سمجھ سکیں گے تو پھر اس کی جگہ جدید نظام لا سکیں گے۔

سب کو جدید نظام چاہیے، سب تبدیلی کے خواہش مند ہیں، تبدیلی اور نئے نظام سے پہلے ہم پرانے نظام کو تو سمجھیں، جب ہم پرانے نظام کو سمجھ سکیں گے تو پھر اس کی جگہ جدید نظام لا سکیں گے۔

پرانا نظام کیا ہے،!؟کسی طاقتور فرد، قوم ، قبیلےیا گروہ کی کمزور پر حکومت کو پرانا نظام کہتے ہیں، اسے چاہے آپ آمریت کہیں یا جمہوریت ۔اگر انسان ، انسان کو غلام بنا لیتا ہے، ایک قوم دوسری قوم کو دبا کر رکھتی ہے ، ایک قبیلہ دوسرے حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ایک لیڈر دوسرے لیڈر کی اہانت کرنے اور گالیاں دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا تو یقین جانئے یہی فرسودہ اور پرانا نظام ہے۔

جدید نظام وہ ہے جو خدا نے انسانوں کے لئے بھیجا ہے، جس میں کوئی طبقاتی فرق، لسانی تفریق، علاقائی تقسیم اور گروہی جھگڑا نہیں ہے ، اس جدید نظام میں کالے اور گورے، عربی اور عجمی، قریشی اور حبشی، مشرقی اور مغربی کی کوئی تقسیم نہیں ہے، سب کے حقوق مساوی ہیں اور سب کے فرائض مشخص ہیں۔

اس جدید نظام میں اگر بھوک کے مارے لوگوں نے اپنے پیٹ پر ایک ایک پتھر باندھ رکھا ہے تو ان کے امیر و سردارنے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے ہیں، اس جدید نظام میں ریاست کا امیر نمک کے ساتھ کھانا کھاتا ہے اور ریاست کے سب سے غریب شخص کے معیارِ زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے ، اس جدید نظام میں ملک کا سربراہ اپنی سرکاری ڈیوٹی انجام دینے کے بعد کسی یہودی کے باغ میں مزدوری کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔

اس جدید نظام میں پارٹی کا سربراہ کسی کو گالیاں نہیں دیتا بلکہ اس کا حسنِ اخلاق اور کرادر دیکھ کر لوگ اس کے نام کا کلمہ پڑھنے لگتے ہیں۔

جی ہاں یہ ہے فرعونوں، شدادوں، نمرودوں، سامریوں ، بادشاہوں اور لٹیروں کے مقابلے میں جدید نظام ۔

اسی نظام کی خاطر خدا نے انبیا بھیجے اور کتابیں نازل کیں ، اسی نظام کی خاطر انبیا نے جیلیں برداشت کیں، صعوبتیں کاٹیں اور شہادتوں کو گلے لگایا، اسی نظام کی خاطر سرورِ کونینﷺ نے ہجرت کی، پتھر کھائے اور اپنے دانت شہید کروائے۔

یہ ہے انسانی اقداراور الٰہی عدل پراستوا دنیا کا جدید ترین نظام ،جسے ہم اسلام کہتے ہیں۔

آج ہمارے ہاں اسلام کے بجائے فراعین، ملوکیت اور نام نہاد جمہوریت کا قدیمی چربہ حکومت کر رہاہے۔ چنانچہ جب زینب کے والدین بیت اللہ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو پیچھے ایک پانچ وقت کا نمازی اور نعت خوان ننھی زینب کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنا تا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ ملزم نے مزید پانچ بچیوں سے زیادتی کا اعتراف بھی کیا ہے ۔

قارئین کرام! جس سوسائٹی میں امیرِ شریعت اور پیر طریقت کہلانے والے لوگ دوسروں کو ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوں وہاں پر کسی نعت خوان سے بدکرداری کا کیا گلہ کیا جائے!!!

ہمارے معاشرے میں سب لوگ محبت، امن ، اخوت اور رواداری سے رہتے تھے، پاکستان بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ اس میں سب مسلمان آزادانہ زندگی بسر کریں گے لیکن چند اللہ والے اٹھے انہوں نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنایا، دوسروں کی تکفیر شروع کی اور ملک میں جی بھر کر قتلِ عام کیا اور آج نوسو چوہے کھا کر بلی پیغامِ پاکستان کے نام سے حج کرنے چلی گئی ہے۔

قارئین کرام ! جس ملک میں ایک ایس ایس پی اڑھائی سو لوگوں کو آن دی ریکارڈ موت کے گھاٹ اتار دے اس ملک کے حافظوں اور قاریوں سے قانون کی پابندی کا کیا تقاضا کیا جائے!!!

پرانی بات نہیں، ابھی چند دن پہلے کی ہی بات ہے ،علی ٹاﺅن کا رہائشی 15 سالہ زین کام کی غرض سے علاقہ کے مدرسہ میں قاری نوید کے پاس گیا تو قاری اسے بہلا پھسلا کر اپنے حجرے میں لے گیا اور اس کے ساتھ بدفعلی کر ڈالی.[1] تھانہ رضا آباد کے اے ایس آئی علی جواد کا کہنا تھا کہ واقعہ کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ مگر دونوں کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔

قارئین کرام جہاں پر والدین درندوں کے ساتھ صلح کر لیتے ہوں وہاں پر بچوں کے حقوق کے درس کسے دئے جائیں!!!

اب یہ صلح بھی اللہ کے نام پر کی جاتی ہے ، جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ کراچی کے بن قاسم ٹاؤن کے علاقے میں 8 سالہ طالب علم کو تشدد کرکے ہلاک کرنے والے مدرسے کے استاد کو بچے کے والدین نے معاف کردیا۔ تفصیلات کے مطابق طالب علم محمد حسین کو مدرسے کے قاری نجم الدین نے ماضی میں مبینہ طور پر جسمانی سزا دی تھی، جس کے بعد طالب علم مدرسے سے بھاگ گیا تھا۔

تاہم جمعہ کے روز محمد حسین کے والدین اسے دوبارہ مدرسے لے آئے تھے۔

محمد حسین سے جب مدرسے سے دوبارہ فرار ہونے کی کوشش کی تو قاری نجم الدین نے اسے پکڑ کر شدید تشدد کیا، جس سے طالب علم کی موت واقع ہوگئی۔[2]

یہ اس بچے کے ساتھ ہوا ہے جو بچہ حافظ قرآن بننے آیا تھا، کیا کہنے اُن ولدین کے جو اپنے بچے کے درندہ صفت قاتل کو بھی فی سبیل اللہ معاف کر چکے ہیں، اب جو والدین بچوں کو مدرسوں میں بھیجتے ہی خود کُش بننے کے لئے ہیں اُن سے کیا گلہ اور کیا شکوہ کیا جائے!!!

یہ سب کچھ اس لئے ہورہا ہے چونکہ ہم نے جدید نظام کے طور پر قدیم جاہلیت ،پرانے مذہبی پنڈتوں، گالی گلوچ اور غنڈہ گردی کی سیاست کو اپنے اوپر مسلط کر لیا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام حاکم ہو اور اللہ کے بندے سکھ کا سانس لیں تو ہمیں قدیم فرعونی رسومات، خاندانی سیاست ، پارٹیوں کی غلامی ، قبیلوں کی سیاست اور وڈیروں کی چودھراہٹ سے ہٹ کر اللہ کی رضا کے لئے اللہ کے نیک بندوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔
جدید نظام یعنی اللہ کے بندوں پر اللہ کی حکومت

nazar
About the Author: nazar Read More Articles by nazar: 115 Articles with 74848 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.