ڈرامے شہریوں کی تفریح کا ایک ذریعہ ہیں کام کاج کی تھکن
کے بعد یا پھر چھٹی والے دن اکثر لوگ فلم یا تھیٹر کا رخ کرتے ہیں ایک
زمانہ تھا کہ پاکستان میں بامقصد ڈرامے پیش کئے جاتے تھے اور ان کو دیکھنے
کے لئے لوگ اپنی فیملی کے ساتھ آتے تھے اس وقت ان ڈراموں میں منجھے ہوئے
اداکار جن میں سہیل احمد،قوی خان،خالد عباس ڈار،عرفان کھوسٹ ،فردوس
جمال،ڈاکٹر انور سجاد اور مسعود اختر شامل ہیں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے
اور لوگوں کے دل جیت لیتے تھے پہلے جو ڈرامے پیش کئے جاتے تھے ان کا
باقائدہ سکرپٹ لکھا جاتا تھا اور تمام اداکار اس سکرپٹ میں رہتے ہوئے
اداکاری کے جوہر دکھانے کے پاپند ہوتے تھے لیکن بد قسمتی سے تھیٹر میں کچھ
غیر تعلیم یافتہ لوگ آ گئے جنہوں نے بغیر سکرپٹ کے ڈرامے بنانے شروع کر
دیئے جن میں ڈرامہ کی نسبت گانوں کا رواج پیدا ہو گیا رفتہ رفتہ ڈرامہ
سکرپٹ کی بجائے جگت بازی میں بدل گیا اور یوں بازاری زبان اور ذومعنی الفاظ
عام ہونے لگے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی نے سٹیج کی طرف رخ کرنا چھوڑ دیا
جب سے یہ فحش ڈانس اور جگت بازی شروع کی گئی ہے تب سے فیملیوں نے ڈرامہ
دیکھنا چھوڑ دیا ہے اگر غلطی سے کوئی فیملی آ بھی جائے تو ڈرامہ کے شروع
میں ہی ماحول دیکھ کر ڈرامہ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں پہلے ایک ہی ڈرامہ کئی
کئی ماہ چلتا تھا لیکن اب ہر پندرہ دن کے بعد نیا ڈرامہ آ جاتا ہے جس کا
صرف نام بدل دیا جاتا ہے جب کہ کہانی میں وہی جگت بازی اور فحش ڈانس دکھایا
جاتا ہے جو پہلے بھی کئی ڈراموں میں پیش کیا جا چکا ہوتا ہے ملک میں بے
شمار ایسے مسائل ہیں جن کو موضوع بنا کر ڈرامہ پیش کیا جا سکتا ہے جس میں
عام آدمی کو تفریح کے ساتھ ساتھ اس کی اصلاح بھی کی جا سکتی ہے لیکن افسوس
سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا سکرپٹ لکھا ہی نہیں جاتا بلکہ ابھی جو ڈرامے پیش
کئے جا رہے ہیں ان میں کوئی بھی اصلاحی پہلو شامل نہیں ہے بلکہ یہ ہماری
نوجوان نسل میں فحاشی کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں ان کی وجہ سے نوجوان
نسل بربادی اور تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے یقین کریں کہ ان ڈراموں کو شہر کی
اکثریت پسند نہیں کرتی چند لوگ ہی ایسے ہیں جو اس طرح کی بے مقصد تفریح کا
لطف اٹھاتے ہیں۔
یقیناً جو سٹیج ڈرامہ پر دکھایا جا رہاہے اس کی ذمہ دار مقامی حکومت ہے اس
کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان پر نظر رکھے تا کہ ملک میں فحاشی کو فروغ نہ مل
سکے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا فنکار خود سے ایسی جگت بازی کرتے ہیں یا ان سے
کروائی جاتی ہے کسی بھی صورت میں ان کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے
اور جو بھی اس میں ملوث ہے اسے واقعی قرار سزا دی جائے۔ابھی میں ایک خبر
پڑھ رہا تھا کہ ڈراموں کے حوالے سے ایکٹ 2010 میں ترمیم کی گئی ہے اس
ترامیم کے پیش نظر سٹیج ڈرامہ میں غیر معیاری گفتگو اور فحش ڈانس کرنے
والوں کو سزا دی جا سکے گی ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے صوبہ بھر میں جہاں یہ سٹیج
ڈرامے منعقد کئے جاتے ہیں ان کی مانیٹرنگ کے ذمہ دار ہوں گے وہ ایسی خفیہ
ٹیمیں تشکیل دیں گے جو ڈراموں کی مانیٹرنگ کریں گی اور ان ٹیموں میں شامل
اراکین کو وقتاً فواقتاً تبدیل کرتے رہیں گے۔اور تما م ڈی سی حضرات اپنی ر
پوٹیں ماہانہ بنیاد پر محکمہ داخلہ کو ارسال کرنے کے بھی پابند ہوں گے مذید
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عوام کو صحت مند تفریح مہیا کرنے کی آڑ میں
فحاشی پھیلانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی اس سلسلے میں کئی تھیٹر پر
چھاپے مارے گئے اور لاہور کے ایک مقامی تھیٹر کو سیل بھی کر دیا گیا۔ خبر
کے مطابق کہا گیا ہے کہ اگر ضلعی حکومتیں ڈرامہ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں گی
یا اس پر عمل نہیں کریں گی تو ان کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گی یہ ایک
اچھا قدم ہے اگر اس پر پوری ایمانداری کے ساتھ عمل کیا جائے تب ہی لوگوں کو
صحت مندانہ تفریح کے مواقع مل سکیں گے اور لوگ پہلے کی طرح اپنی فیملی کے
ساتھ سٹیج ڈرامہ کا رخ دوبارہ کر سکیں گے حکومت کو چاہیئے کہ وہ ان تمام
پروڈیوسروں کو پابندکرے جو سٹیج ڈرامہ بناتے ہیں کہ وہ ایسے ڈرامے تخلیق
کریں جو ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف نہ ہوں تا کہ معاشرے کو ایک مثبت سبق
مل سکے اور جو پروڈیوسر ،فنکار یا اس انڈسٹری سے منسلک ہیں اگر وہ اس فحاشی
کو پھیلانے میں ان کا کوئی کردار ہو تو انھیں سخت سے سخت سزا اور بھاری
جرمانے کئے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کے بارے میں نہ سوچے اب
دیکھتے ہیں کہ حکومت کس حد تک اس ایکٹ پر کام کرتی ہے اور کیا تھیٹر سے
مکمل طور پر فحاشی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر اس ایکٹ کو بھی
ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔ خدا کرے کہ میرا وطن ہر طرح کی فحاشی
سے پاک ہو اور یہاں رسول اﷲ ﷺ کی سنت کے مطابق قانون کا راج ہو یہاں خدا
تعالی کے بتائے ہوئے قوانین کی پاسداری ہو۔آمین |