'انٹرا کشمیر جرنلسٹس' کا سنگین معاملہ !

آزادکشمیر کے ایک بے باک صحافی شہزاد راٹھور نے لکھا ہے کہ بنکاک میں ریاست جموں و کشمیر کے دو منقسم حصوں کے صحافیوں پرمشتمل جموں وکشمیر جوائنٹ میڈیافورم کے قیام کے پس پردہ حقائق بھی قابل غور ہیں۔ اس فورم کی تشکیل میں اہم کردار کے آئی جی یعنی کشمیر انیشیٹیو گروپ اور کے آئی آئی آر نے ادا کیا ہے یہ وہی دو تنظیمیں ہیں جن کے کریڈٹ پر دبئی میں ہونے والی ایک ایسی کانفرنس ہے جس میں پہلی مرتبہ مقبوضہ کشمیر میں جاری عسکری جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینا ہے اور اسی کانفرنس میں جدوجہد آزادی کشمیر کو دہشتگردی کا نام دینے کے فورا بعد ہی نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے بعد باضابطہ طور پر پہلی مرتبہ کشمیریوں کی تحریک کو دہشتگردی قرار دے کر حزب المجاہدین اور اس کے سربراہ سید صلاح الدین کو بھی دہشتگرد قرار دے دیا گیا تھا اور اس چچکانفرنس کے پیچھے یہی برطانوی این جی او کنسلی ایشن ریسورسز اور اس سے بھی پیچھے ایک اور تنظیم جوزف رون ٹری پائی گئی جس کی اہم رکن بھارتی نژاد سابق برطانوی وزیر پریتھی پٹیل ہیں جنہیں برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے اس وجہ سے اپنی کابینہ سے برطرف کیا تھا کیونکہ ان پر اسرائیل کے ساتھ اختیارات سے زیادہ تعلقات ہونے کا الزام ثابت ہوگیا تھا۔شہزاد راٹھور کا کہنا ہے کہاب یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اس بات کا پتہ نہ چلایا جائے کہ کنسلی ایشن ریسورسز ، کشمیر انیشی ایٹیو گروپ اور کے آئی آئی آر کون سے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور ان کے اصل مقاصد کیا ہیں اور آخر کنسلی ایشن ریسورسز یعنی سی آران تنظیموں پر بغیر حساب کتاب اس قدر دولت کیوں لٹا رہی ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ کشمیر کنفلکٹ پر کام کرنے والی ان تنظیموں نے جب آر پار جوائنٹ میڈیا فورم تشکیل دیا تو گلگت بلتستان جو ریاست کی ایک مسلمہ اکائی ہے اسے کیوں اس ساری ایکٹیویٹی سے خارج کیا گیا ہے کیا یہ تقسیم کشمیر کی کوئی سازش تو نہیں جس کا ہراول دستہ تیار کیا جارہا ہے ۔

2015میںہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے صحافیوں کے ایک وفد نے ایک برطانوی این جی او' کنسیلیشن ریسورسز' کے تعاون اور' کے آئی آئی آر'(کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلشنز)،سی پی ڈی آر(سنٹرفار پریس ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارمز) اور 'کشمیر انشیٹیو گروپ' کے زیر اہتمام اسلام آباد،مظفر آباد اور لاہور کا دورہ کیا تھا۔دو روزہ انٹرا کشمیر ورکشاپ میں مقبوضہ کشمیر سے شجاعت بخاری،افتخار گیلانی راشد مقبول ، عرفان رشید ، شاہانہ بشیر بٹ ، طارق میر،فیصل یسین،ریاض ملک ،محمود الرشید ،رفعت محی الدین ،زینت ذیشان ،عاشق مشتاق جبکہ آزاد کشمیر سے راجہ کفیل احمد ، اعجاز عباسی ، اطہر مسعود وانی،سردار زاہد تبسم ،شہزاد احمد راٹھور،الطاف حمید را ، سید خالد گردیزی ،سردار عابد صدیق ،قمرالزمان ،عابد خورشید،راجہ سرفراز،آمنہ عامر،ثمر عباس،اور راشدہ شعیب شریک ہوئے۔ واضح رہے کہ آزاد کشمیر کے ہم چند صحافیوں کو احتجاج پر اجلاس میں شامل کیا گیا تھا ورنہ ہم منتظمین کی پلاننگ میں شامل نہ تھے۔اس ورکشاپ میں کشمیر کے دونوں حصوں کے صحافیوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل میں میڈیا کے کردار کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس متعلق صحافتی ذمہ داریوں اورامکانات کا احاطہ کیا گیا،پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل میں صحافیوں کے فعال کردار کا جائزہ لیا گیا اور کشمیر کے دونوں حصوں کے میڈیا کے درمیان قریبی تعاون اور پیشہ وارانہ ہم آہنگی کے خطوط تلاش کئے گئے۔ مقبوضہ کشمیر کے اس صحافتی وفد نے مظفر آباد کا دورہ بھی کیا تھا۔ باہمی رابطے کے فروغ اور اشاعتی مواد کے حوالے سے' انٹراکشمیر جرنلسٹس ' کے نام سے ویٹس ایپ گروپ بھی قائم کیا گیا۔ورکشاپ کے آخر میں جاری بارہ نکاتی اعلامیہ میں صحافتی مواد کے تبادلے، مشترکہ سوشل میڈیا گروپ کے قیام، رابطوں میں تسلسل پر اتفاق،مشترکہ وکنگ گروپ کی تشکیل ، جوائنٹ ٹریننگ پروگرام کا انعقاد، دونوں طرف کے صحافیوں کی رکنیت سازی،کشمیر کے دونوں طرف کی صحافتی تاریخ مرتب کرنے، جموں وکشمیر کے حوالے سے ڈیجیٹل لائبریری قائم کرنے،منقسم کشمیریوں کے حوالے سے دستاویزی فلم،سوشل میڈیا کے ذریعے دونوں طرف کے صحافت کے طالب علموں کے لئے لیکچرز،مشترکہ نیوز لیٹر کی اشاعت،کشمیری صحافیوں کے لئے ایوارڈزاور دنیا بھر میں مقیم کشمیری صحافیوں کی ڈائریکٹری مرتب کرنے کے نکات شامل ہیں۔مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے صحافیوں پر مشتمل پندرہ رکنی انٹرا کشمیر جرنلٹس ورکنگ گروپ قائم کیا گیا جس میں مقبوضہ کشمیر سے افتخار گیلانی، محمود الرشید، طارق علی میر، پیرزادہ عاشق، فاروق جاوید خان، شاہانہ بٹ ، محمد اسلم بٹ اور بشیر احمد بشیرجبکہ آزادکشمیر سے الطاف احمد را ئو، سردار عابد خورشید، عابد صدیق، شہزاد احمد راٹھور،، آمنہ عامر ، سید خالد گردیزی اور اطہر مسعود وانی شامل کئے گئے۔اشاعتی مواد کے تبادلے کے لئے مقبوضہ کشمیر سے راشد مقبول،حکیم عرفان جبکہ آزادکشمیر سے ثمر عباس ا ورآصف رضا میر پر مشتمل ایک چار رکنی کونٹینٹ شیئرنگ گروپ بھی قائم کیا گیا ۔مظفر آباد میں ہونے والی تقریب سے خطاب اور کشمیری صحافیوں کے وفد سے ملاقات کرنے والوں میں سید عارف بہار،طارق نقاش،اسلم میر،سردار ذوالفقار،ظہیر جگوال،سید آفاق شاہ،سہیل مغل، سید ابرار حیدر،غلام اللہ کیانی،آصف رضا میر،روشن مغل، ذولفقار بٹ، راجہ وسیم،عامر قریشی،اختر بخاری،شجاعت و دیگر شامل تھے۔مظفر آباد میں دونوں طرف کے کشمیری صحافیوں کی طرف سے کہا گیا کہ لائین آف کنٹرول(سیز فائر لائین) سے کشمیریوں کے لئے آنے جانے کی سہولت میں آسانیاں پیدا کی جائیں،مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل جنوبی ایشا میں امن کے قیام ، پاکستان و بھارت کی ترقی اور خطے سے غربت کے خاتمے کا ضامن ہے،دونوں طرف کے کشمیریوں کو باہم مل بیٹھنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، خطہ میں امن کے قیام کے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں ، دونوں طرف کے کشمیریوں کے باقاعدہ ملاپ سے دوریاں کم ہو نگی اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے کشمیریوں کے لئے جبری پابندی کی لکیر سے کشمیریوں کو آنے جانے کی آزادانہ اجازت ہونی چاہئے، مظفرآباد اور سرینگر کے درمیان روائیتی رابطوں کی بحالی ضروری ہے، دونوں طرف کا میڈیا تنازعہ کشمیر کے حل میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتا ہے ،سرینگر مظفر آباد بس سروس کے ذریعے دونوں طرف کے مختلف شعبوں(صحافی، وکلا، اساتذہ، ڈاکٹرز،پروفیسرز ، قلمکاروں ،شاعروںکے گروپوں کو بھی آنے جانے اور ہنگامی صورتحال میں منقسم کشمیری خاندانوں کو ہنگامی طور پر آنے جانے کی اجازت دی جائے ۔

اس وقت میں نے ' انٹرا کشمیر ورکشاپ' کے حوالے سے اپنے کالم میں لکھا کہ ''تاریخ میںہمارے سامنے ایسے کئی نامور کشمیری صحافیوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے خطہ کشمیر کے لوگوں کی مظلومیت اور لاچارگی کا احساس کرتے ہوئے ،سول سوسائٹی کے ایک اہم جز کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ۔صحافی کے معنی کو محض رپورٹنگ کے تصور میں محدود نہیں کیا جانا چاہئے،بالخصوص کشمیر کے حالات و قعات کے تناظر میں ۔عالمانہ اور دانشورانہ سوچ ا اور اپروچ صحافت کی ایسی بلندی ہے جس کی تمنا تو کئی کرتے ہیں لیکن اس مقام کو کوئی کوئی ہی پہنچتا ہے۔اس طرح کے کردار کی ادائیگی کے لئے کشمیر سے متعلق مائینڈ سیٹ اور کشمیر کی کم از کم ایک سو سالہ تاریخ کواچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔صحافی کسی علاقے کے حالات و واقعات اور وہاں کے لوگوں کے خیالات اور امنگوں کی بہترین عکاسی کرتے ہیں۔متنازعہ ریاست کشمیر کے سیاسی کریکٹر کی کمزوری کی صورتحال میں کشمیر کے صحافیوں پر یہ بڑی ذمہ داری عائید ہو جاتی ہے کہ وہ ریاست کے ان مظلوم،ستم رسیدہ عوام کی بہترین ترجمانی کے لئے اپنا بھرپور متحرک کردار ادا کریں ، جن کے جسم ہی نہیں ان کی روحیں بھی مسئلہ کشمیرکے پرامن،منصفانہ اور مستقل حل نہ ہونے سے گھائل ہیں۔کشمیر کی سول سوسائٹی کے ایک اہم شعبے کے طور پر یہ ان کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔1947-48 کی جنگ کشمیر،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں،پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ سمجھوتے کے باوجود کشمیر کا مسئلہ نہ تو عالمی سطح پر اور ناہی پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی سطح پر حل ہو سکا ہے۔اس وجہ سے سلامتی کونسل کی طرف سے متنازعہ قرار دی گئی ریاست کشمیر کے عوام جس عذاب مسلسل سے گزر رہے ہیں اس کے مختلف مناظر میڈیا میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔مسئلہ کشمیر کے منصفانہ پرامن حل سے گریز کی صورتحال سے کشمیریوں میں اس احساس نے شدت اختیار کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیریوں کو خود متحرک کردار ادا کرنا ہو گا''۔

اب درج بالا این جی اوز سے وابستہ تین افراد نے بنکاک میں دو روزہ انٹرا کشمیر جرنلسٹس ورکشاپ کرائی جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر سے چند صحافیوں کو مدعو کیا گیا مقبوضہ کشمیر سے اکثریت جونیئر صحافیوں کی تھی۔ان تینوں 'این جی اوز' نے2015میں' آرپار' کے صحافیوں کے اعلامیہ اور طے پائے تمام امور کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے نئے خطوط و اہداف پر انٹرا کشمیر جرنلسٹس کے حوالے سے ایک عبوری باڈی کا اعلان کیا ۔بنکاک کے اس اجلاس میں ایسی اکثر صحافتی شخصیات شامل نہیں تھیں جو 2015میں ہونے والے عمل کا حصہ رہے ۔بنکاک کی ورکشاپ اور اجلاس میں صحافیوں کی تربیت،اتعداد کار میں اضافے اور جعلی خبروں کے تدارک ،رپورٹنگ کا معیار بہتر بنانے اور جوائنٹ فورم کی بات کی گئی۔مقبوضہ کشمیر سے شریک ایک صحافی نے اس موقع پر کہا کہ دونوں ممالک کے اشوز میں مس رپورٹنگ کی وجہ سے کنفیوزن پیدا ہوتی ہے ،یہ کنفیوزن ختم کرنے کی ضرورت ہے،اگر صحافی کی رپورٹ میں یہ کنفیوزن دور ہو گئے تو دونوں ممالک کے ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ متوجہ ہوں اور ان اشوز پہ کھلے دل سے آپس میں بات کریں اور جب دل ملیں گے تو سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔عبوری باڈی کے سیکرٹری جنرل پیرزادہ عاشق نے کہا کہ چھ ماہ ممبر شپ ہو گئی اور پھر فورم جمہوری انداز میں قائم کیا جائے گا،ایک لیڈر شپ چنی جائے گی کہ دونوں طرف کشمیرکے صحافیوں میں ایک رابطہ قائم رہے اور مشترکہ پریشانیوں کا حل ڈھونڈا جائے، ایک تجویز کہ آزاد کشمیر کے صحافی مقبوضہ کشمیر جا کر انگریزی اخبارات میں انٹر ن شپ کریں اس کے لئے مقبوضہ کشمیر حکومت سے بات کی جائے گی کہ انہیں اجازت دی جائے اور ان کو ویزہ یا پرمٹ جاری کیا جائے، سیاسی اقدامات بھی اٹھائے جائیں، صحافیوں اور ان کی معلومات کو بڑہانے کے لئے،رپورٹنگ میں شفافیت لائی جائے گی، خبریں ایکد وسرے سے رابطے سے کراس چیک ہو سکیں گی،کوئی غلط خبر شائع ہو گی تو'' فورم بتائے گا ''کہ یہ خبر درست نہیں ہے ،اس کے حقائق درست نہیں ہیں،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں پابندیوں کے حوالے سے کہا کہ مشکلات تو ہیں لیکن یہ بتائوں کہ بہت آزادی بھی ہے ،خود کو بیان کیا جا سکتا ہے ،ایک لائن کھینچ دی گئی ہے جسے پار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔بنکاک میں ' این جی اوز' کی طرف سے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے صحافیوں کو ورکشاپ میں یہ بھی سکھانے کی کوشش کی گئی کہ
"How to avoid escalation ,avoid focusing exclusively on the suffering and grievances of only one party ,INSTEAD treat as equally newswarthy the suffring,fears and grievances of all parties"
یہ ایک سلائیڈ اس تربیت کا حصہ تھی کہ جو یہ کانفرنس منعقد کرنے والوں کے اصل عزائم کو بے نقاب کرتی ہے۔معاملے کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے خاص طور پر ایک فریق کے مصائب،خوف اور دکھ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے فریقین کے مصائب،خوف اور دکھ پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ یعنی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے صرف کشمیریوں کے مصائب،خوف اور دکھ پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے بھارت کے مصائب،خوف اور دکھ کو بھی برابر کی توجہ دی جائے۔کیسی '' شاندار'' نام نہاد غیر جانبداری کی آڑ میں مظلوم کشمیریوں کو انسانیت سوز مظالم کرنے والے بھارت کے برابر درجہ اور کوریج دی جائے۔باقی سب امور کو نظر انداز بھی کر دیںتوبھی تربیتی ورکشاپ کی اس مخصوص تربیت کی اس بات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ صحافتی حربہ کشمیریوں کے لئے کتناخطرناک اور بھارت کے کتنے مفاد میں ہے ۔یوں صحافتی تربیت کا یہ انداز ان ' این جی اوز' کے پس پردہ عزائم ،اہداف کو بے نقاب کر دیتا ہے۔

ہماری رائے میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے صحافیوں کی مشترکہ تنظیم بنانے کا تصور تو بہت اچھا ہے لیکن بنکاک میں اس کا جو طریقہ کار اپنایا گیا وہ سراسرغیر معتبر او ر قابل اعتراض ہے۔غیر ملکی پیسے سے باہمی اتفاق اور مفاد پر کام کرنے والی مزکورہ بالا تین 'این جی اوز' کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ من پسند افراد پر مشتمل اجلاس میں مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی مشترکہ صحافتی تنظیم کی من پسند تشکیل کریں۔چند ہی ماہ قبل انہی تین این جی اوز نے دوبئی میں مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کی ایک کانفرنس کرائی تھی جس کے اعلان کردہ نکات پر کشمیریوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا ۔2015میں ہونے والے انٹرا کشمیر جرنلسٹس اجلاس میں ان ' این جی اوز' کی مرضی و منشا کے برعکس چند صحافتی شخصیات کی شمولیت کے پیش نظر منتظمین نے مشترکہ فورم بنانے کا مطالبہ آئندہ وقت کے لئے ٹال دیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ کشمیریوں صحافیوں کی موثر نمائندگی والی شخصیات کی وجہ سے وہ ' آر پار' کے صحافیوں کے اشتراک کے عمل سے اپنے مخصوص خفیہ اہداف حاصل نہیں کر سکتے تھے۔2015کے مشترکہ اعلامیہ کے نکات حقیقی ضرورتھے لیکن ان تینوں ' این جی اوز' نے اس اعلامیہ کو ہی نہیں بلکہ اس موقع پر قائم 'آر پار' کے صحافیوں پر مشتمل مشترکہ ورکنگ گروپ کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے عضو معطل بنائے رکھا ۔یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ 2015میں باہمی رابطے کے لئے 'انٹرا کشمیر جرنلسٹس ' کے نام سے قائم 'ویٹس ایپ' گروپ میں بھی اتنی سرد مہریرہی کہ خالد گردیزی کو مجبور ہو کر اس گروپ میںکہنا پڑا کہ '' مقبوضہ کشمیر کے صحافی ہم سے بات نہ نہیں کرنا چاہتے،اس سے بہتر ہے کہ یہ گروپ ہی ختم کر دیا جائے''۔دوبئی کانفرنس سے متعلق جب میں نے مضمون لکھا تو ' انٹرا کشمیر جرنلسٹس' کے ویٹس ایپ گروپ پر شجاعت بخاری صاحب نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔انہوں نے اپنا اظہار خیال کیا اور میں نے اپنے دلائل دیئے۔طویل چیٹ کے بعد میں نے گروپ کے ایڈ منسٹریٹر سے درخواست کی کہ شجاعت بخاری صاحب کی شدید برہمی اور میرے اعتراضات و دلائل کی صورتحال کا تقاضہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی چند سینئر صحافتی شخصیات کو بھی گروپ میں شامل کیا جائے تا کہ وہ غیر جانبداری سے اس معاملے پر اپنی رائے دے سکیں ۔اس پر فوری اعتراض کیا گیا کہ وہ ' انٹرا کشمیر جرنلسٹس' عمل کا حصہ نہیں ہیں،اس لئے انہیں گروپ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔جبکہ انٹرا کشمیر جرنلسٹس' کے عمل کا مقصد ہی کشمیر کے دونوں حصوں کے اہم صحافیوں کو اکٹھا کرنا ہے،نہ کہ چند مخصوص،منظور نظر افراد کو اکٹھا کر کے کشمیر کے دونوں حصوں کے صحافتی اشتراک کا اعلان کر دیا جائے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ صحافیوں کو خفیہ اہداف کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دونوں طرف کے صحافیوں کی انجمن بنانے کا ہی مقصد ہوتا تو دونوں طرف سے سنیئر صحافیوں کو اس میں شامل کیا جاتا۔اسلام آباد میں ہونے والی ورکشاپ میں جو صحافی شامل تھے،انہیں اس عمل سے باہر رکھا گیا ۔ وٹس ایپ گروپ میں دونوں طرف کے صحافی ایک دوسرے سے بات نہیں کرنا چاہتے،خاص طور پر مقبوضہ کشمیر کے صحافی، اس گروپ میں مقبوضہ کشمیر کے مزید صحافیوں کو شامل کرنے کی بات کی گئی تو کہا گیا کہ وہ انٹرا کشمیر کے عمل میں شامل نہیں ہیں اس لئے انہیں شامل نہیں کیا جا سکتا، اب ممبر شپ کی بات کی جا رہی ہے،کیا یہ صحافیوں کی انجمن ہے یا کسی مخصوص ایجنڈے کی سیاسی جماعت کہ اس میں منظور نظر افراد ہی شامل کئے جائیں۔ ' این جی اوز چلانا' تو کسی کا ذاتی کاروبار ہو سکتا ہے لیکن کشمیر کے دونوں حصوں کی صحافت اور صحافی کوئی دھندہ نہیں ہیں کہ اعتباریت کی ساکھ سے محروم کوئی بھی اٹھ کر کشمیرکی صحافت اور صحافیوں کا از خود نمائندہ بن جائے یا بنا دیا جائے۔کیا یہ صحافیوں کی انجمن ہے یا کسی مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کا آلہ کار گروپ کہ اس میں منظور نظر افراد ہی شامل کئے جائیں جس سے اہداف کے حصول میں مشکلات کا سامنا نہ رہے۔

بلاشبہ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنا آزاد کشمیر کے صحافیوں کا ایک خواب ہوتا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر یا بیرون ملک دورے کے لئے کشمیریوں کی نسل در نسل جدوجہد آزادی،قربانیوں اور کشمیر کاز پر کمپرومائیز کرنا یا ان مقاصد کے برعکس کسی کے لئے استعمال ہوناکشمیری کے صحافیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی ' این جی او' کا کشمیر کے دونوں حصوں کے صحافیوں کو ایک ساتھ بٹھانا اچھا اقدام ہو سکتا ہے کہ کشمیر کی صحافت کی حقیقی نمائندہ صحافتی شخصیات کشمیر کے دونوں حصوں کے صحافیوں کی مشترکہ انجمن قائم کریں ۔لیکن یہ نہیں ہو سکتا ہے کوئی ' این جی او' منظور نظر صحافیوں کا اجتماع کرتے ہوئے ' انٹرا کشمیر جرنلسٹس' کی تنظیم قائم کرے۔آزاد و مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں کی انجمن کا قیام خوش آئند ہوتا کہ اگر یہ صحافیوں کی باہمی مشاورت اور اتفاق سے عمل میں لایا جاتا جبکہ موجودہ عمل مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے ایسے مخصوص عناصر کی طرف سے تشکیل دیا گیا ہے جو عمومی اعتبارکی ساکھ سے محروم ہے اور اس کے اہداف خفیہ ہیں۔دونوں طرف کے صحافیوں اور مختلف شعبوں کے درمیان اشتراک عمل اچھا عمل ہے لیکن ایسا مخصوص عناصر کی طرف سے مخصوص اور مخفی اہداف کے مطابق کرنا سراسر غلط ہے۔یہ دلچسپ امر ہے کہ بھارت کے نیشنل سیکور ٹی ایڈاوائزر اجیت ڈ وول اور پاکستانی سیکورٹی ایڈ وائیزر کی حال ہی میں ہونے والی خفیہ ملاقاتوں کا مقام بھی بنکاک ہی ہے اور اب کشمیر کے دونوں حصوں کے مخصوص صحافیوں کے لئے بھی اسی مقام کا انتخاب کیا گیا ۔مقام کی یہ ''سہولت کاری'' قابل غور ہے۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609654 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More