ایک بچہ آتا ہے جو تقریباً دس سے گیارہ سال کا ہوتا ہے جو
مجھ سے پیسے مانگتا ہے یعنی کے بھیک مانگ رہا ہوتا ہے میں اسے دس روپے دیتا
ہوں اسکے جانے کے دو منٹ بعد ایک لڑکی آتی ہے جس کی عمر لگ بھگ اسی لڑکے کے
برابر ہوگی۔اس لڑکی میں مجھے اپنی بہن نظر آنے لگی۔میرا دل یقین کرو اندر
سے رونے لگا۔اس بچی کو میں نے کچھ رقم دی اور وہ چلی گئی۔وہ تو چلی گئی
لیکن مجھے جو دکھ اس بچی نے دیا وہ شاید ہی کبھی بھولے گا۔وہ جب جا رہی تھی
تو اتنا خوشی کے ساتھ جیسے سارا جہاں اس کے قدموں میں ہو۔تھوڑی دیر بعد جب
میں ایک گلی سے گزا ہوں تو دیکھتا ہوں وہی لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ کچھ کھا
رہے ہوتے ہیں ان کے ساتھ دو مزید عورتیں بھی ہوتی ہیں میرے خیال میں ایک ان
کی ماں ہوگی اور دوسری بہن۔
آخر اس ماں کی کچھ تو مجبوری ہوگی جو اپنے ان بچوں سے بھیک منگوا رہی ہوتی
ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ایک ماں اپنے لال سے کتنا پیار کرتی ہے۔وہ دن میں کتنی
بار مرتی ہوگی جو اپنے بچوں کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا دیکھتی ہوگی۔
ان بچوں کا کیا قصور ہے؟اس ماں کا کیا قصور ہے؟ صرف اتنا کہ وہ پاکستان میں
پیدا ہوے۔پاکستانی ہیں اور مسلمان ہیں۔نا جانے آج پاکستان میں کتنی مائیں
ایسی ہیں جو اپنے بچے کو بھیک مانگتا دیکھتی ہونگی۔کچھ بچے تو ایسے ہونگے
جن کی تو ماں بھی نہیں ہوگی اور کچھ مائیں ایسی ہونگی جو خود بھیک مانگ کر
اپنے بچوں کو کھلاتی ہونگی۔
ہمارے ملک میں جمہوری نظام ہے جس میں ہر پانچھ سال بعد نئی حکومت آتی ہے
جسے ہم منتخب کرتے ہیں کئی جماعتیں ہیں ہمارے ملک میں جیسے پیپل پارٹی،مسلم
لیگ (ن) تحریک انصاف وغیرہ۔اور ہماری کچھ عوام پیپل پارٹی کے ساتھ کچھ مسلم
لیگ کے ساتھ ایسے کچھ کچھ کر کے باقی جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔مجھے آپ
لوگوں سے ایک سوال پوچھنا ہے کہ وہ کون سا سیاست دان ہے جس نے یہ کہا ہو کہ
ہماری حکومت آنے کے بعد بچے بھیک نہیں مانگے گے ایک ماں اپنے بچے کو
کھیلانے کے لیے بھیک نہیں مانگے گی ایک ماں اپنے لال کو بھیک مانگتا نہیں
دیکھے گی؟
کیا زرداری نے یہ وعدہ کیا تھا؟ نوز شریف نے یہ وعدہ کیا تھا؟ کیا عمران
خان یہ وعدہ کر رکھا ہے؟ یا پھر مشرف نے یہ وعدہ کیا تھا؟ میرے خیال میں
کسی نے نہیں کیا۔کیوں نہیں کیا بھائی؟ کیا یہ کو مسئلہ نہیں ہے؟ یہ ایک
مسئلہ ہے لیکن اسے سمجھا نہیں جاتا۔میں تو سیاست دانوں کی بات کر رہا ہو
مجھے یہ بتانا کیا کسی عام آدمی نے کبھی اس مسئلہ پر آواز اٹھائی ہے۔آپ نے
یا آپ کے کسی دوست نے آپ سے اس مسئلہ کو ختم کرنے کے بارے میں بات کی ہے
میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں نہیں کی ہوگی۔جس کی عمر پچاس سال ہوگی اس نے اگر
اس مسئلہ کے بارے میں سوچا ہی نہیں ہو گا تو کیا خاق ہمارا ملک ترقی کرے
گا۔
لاھور میٹرو بس کی تعمیر کی گئ اس منصوبے کی لاگت تقریبا 30 بلین پاکستانی
روپے ہے یعنی کہ 30 ارب روپے۔یہی نہیں میٹرو بس چلانے کے لئے اتھارٹی کو ہر
ماہ 18 سے 20 کروڑ روپے کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں جبکہ یہاں سے
ریونیو صرف پونے 8 کروڑ حاصل ہوتا ہے، یعنی تقریباً 12 کروڑ روپے کا ماہانہ
بنیادوں پر خسارہ ہو رہا ہے۔اس حساب سے سالانہ 1 ارب 44 کروڑ روپے یہ تو
صرف لاھور میٹرو بس کی بات ہورہی تھی۔کئی اور شہروں میں بھی یہ بن چکی ہے
یا تعمیر ہو رہی ہے۔ابھ مجھے یہ بتاو کہ میٹرو بس ضروری تھی یا پھر ان بچوں
کا مستقبل بنانا جو بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔اگر یہی رقم ان بچوں پر خرچ کی
جاتی تو آج کوئی ماں اپنے بچے کو بھیک مانگتا نہں بلکہ سکول جاتا دیکھ رہی
ہوتی۔جو پیسہ ان پرجیکٹ پر لگایا جارہا ہے اگر وہی پیسہ ان مسکین اور
غریبوں پر لگا یا جائے تو ان سے پاکستان کو کئی ڈاکٹر،فوجی،اور انجینئر مل
سکتے ہیں۔
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے گداگری
کو ایک پیشہ بنا لیا ہے۔اور ان کی وجہ سے حقدار کو بھی شق کی نظر سے دیکھا
جاتا ہے۔
میری آپ تمام لوگوں سے اپیل ہے کہ اگر کوئی بچہ آپ سے بھیک مانگے تو اسے
خالی ہاتھ مت جانے دینا۔بے شک اسے آپ پیسے نا دو اسے وہ کھلا دو جو آپ اپنے
بچوں کو کھلاتے ہو۔اسے پیار دینا اگر ہوسکے تو اس سے بھیک کی وجہ پوچھ لو
اور اسے حل کرنے کی کوشش کرو۔ |