پاکستان پر ایک گھنی ڈاڑھی اور سبز آنکھوں والے کی حکومت
ہو گی
اُردو کے مشہور ادیب اور افسانہ نگار ممتاز مفتی نے اپنی آپ بیتی ’’الکھ
نگری ‘‘ میں کراچی کی ایک پڑھی لکھی خاتون محترمہ عطیہ موجود نامی کا ذکر
کیا ہے جس سے ان کا تعارف ایوب خان کی حکومت کے ابتدائی دور( جب کراچی
پاکستان کا دارالحکومت ہوتا تھا ) میں قدرت اللہ شہاب کے ذریعے ہوا تھا ۔
عطیہ ایک مستقبل بین (Seer) خاتون تھیں ۔ عطیہ کی مستقبل بینی کے متعلق
الکھ نگری سے چند اقتباس ملاحظہ ہوں ۔’’میں (ممتاز مفتی) نے کہا کہ محترمہ
‘آپ کو مستقبل کی جھلکیاں کیسے نظر آتی ہیں۔ وہ مسکرائی اور کہنے لگی
کبھی محسوسات کے ذریعے جھلکی نظر آتی ہے کبھی آنکھوں کے سامنے تصویر
آجاتی ہے کبھی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور کبھی دیوار پر فلم چلنے لگتی
ہے۔میں ایک سیر ہوں ‘معالج نہیں ہوں‘ مجھے جو دِکھائی دیتا ہے وہ بتا دیتی
ہوں ۔ یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ جو دِکھائی دیتاہے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔
پھر وقت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی ۔ ایک چیز مجھے دکھائی جا تی ہے کہ
مستقبل میں یہ ہوگا یوں ہو گا ۔ لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ کب ہوگا ‘کل ہو
گا یا ایک سال کے بعد ہو گا ‘‘۔عطیہ نے قدرت اللہ شہاب کو بتایا تھا کہ صدر
ایوب خان کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔ انہوں نے ان لوگوں کی نشاندہی کی جنہوں
نے صدر ایوب خان کوزہر دیکر قتل کرنا تھا ۔ یہ افراد پکڑے گئے اور انہوں نے
اپنے منصوبے کا اعتراف کیا۔
ایک اور اقتباس:’’عطیہ کہتی ہیں کئی ایک باتیں میں دیر سے دیکھ رہی ہوں
‘مسلسل دیکھ رہی ہوں ‘لیکن وقوع پذیر نہیں ہوتیں ۔ مثلًا ؟ میں (ممتاز مفتی)
نے پوچھا ۔ مثلاًوہ کیا ہیں تو عطیہ نے کہا ‘میں کب سے دیکھ رہی ہوں کہ
سہروردی کو گرفتار کر لیا گیا ہے (بعد میں ایسا ہی ہوا تھا) ۔ میں دیکھتی
ہوں کہ ایک گھنی ڈاڑھی والا شخص جس کی آنکھیں سبز ہیں ‘ڈکٹیٹر بن کر آ
رہا ہے جو بہت سخت گیر ہے اور ہمارے معاشرے کو سدھار کر رکھ دے گا ۔۔۔۔۔۔
میں دیکھ رہی ہوں کہ ایک خونی جنگ ہو گی ۔ ایسٹ پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل
جائے گا ۔ کشمیر ہمیں مل جائے گا ۔پاکستان کے علاقے میں وسعت ہوگی ۔ ہم دلی
پر قابض ہو جائیں گے ‘‘۔ عطیہ کی پیشگوئیوں کا وہ حصہ جو پاکستان کے لئے
خوشخبری نہیں رکھتا وہ تو اب پورا ہو چکا ہے ۔ یعنی جنگ بھی ہوگئی اور
مشرقی پاکستان کا سقوط بھی ہوگیا۔خونریزی بھی ہو گئی۔یہ پیش گوئی مشرقی
پاکستان کے المیہ سے دس بارہ برس پہلے کی گئی تھی۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی
کے متعلق پیشگوئی ‘بلکہ ٹھیک ٹھیک پیشگوئی علامہ مشرقی ؒنے بھی کی تھی اور
واضح الفاظ میں بتایا تھا کہ1970ء کے اردگرد زمانے میں مشرقی پاکستان جدا
ہو جائے گا ۔ بعض علماء کو اللہ کی طرف سے ایسی فراست عطا کی جاتی ہے کہ وہ
کم از کم مستقبل قریب کے حالا ت کے متعلق بہت ٹھیک اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
علامہ مشرقی ؒمیں بھی یہ فراست موجود تھی۔کراچی کی عطیہ نے یہ پیشگوئی کی
تھی ‘بلکہ باطنی آنکھ سے دیکھا تھا کہ پاکستان پر ایک گھنی داڑھی اور سبز
آنکھوں والے ڈکٹیٹر کی حکومت قائم ہوگی جو حالات کو درست کرے گا اور کشمیر
کے علاوہ دہلی بھی فتح ہو گا ۔ یہ پیشگوئی کسی حد تک حضرت نعمت اللہ شاہ کی
پیشگوئی سے ملتی جلتی ہے اور ابھی تک پوری نہیں ہوئی ۔
ایک دن کراچی شہر میں کئی لوگ مارے گئے۔ سندھ کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا
غلغلہ بلند ہواافسر نے جناح پور کے نقشوں کا شور مچایا وہ آنٹی (عطیہ
موجود)کے پاس پہنچا تو وہ خلاف معمول بہت سجی بنی بیٹھی تھیں ۔ایسا لگ
رہاتھا کہ کہیں کسی تقریب میں جانے کے لئے تیار بیٹھی ہیں ۔ اس کو دیکھ کر
کہنے لگیں ۔آپ کچھ اُجڑے اُجڑے سے لگتےہیں ؟!۔
اس نے جب کہا کہ آنٹی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا تو وہ بہت زور
سے ہنسیںاور پھر ایک دم سنجیدہ ہو کر کہنے لگیں۔ انہوں نے آںحضرت ﷺ کو کچھ
عرصے پہلے خواب میں دیکھا تھا سفیدگھوڑے پر سوار پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں
لئے ۔ پہلے انہوں نے سندھ کراس کیا اور چلتے چلے گئے اور پھر جہاں
حیدرآباد دکن یعنی آندھر اپر دیش کی سرحد مہارا شٹرا کی سرحد سےملتی ہے
وہاں کوئی اسٹیشن پوسوان ہے۔ وہ جھنڈا آپ نے وہاں زمین پر گاڑدیا اور کہنے
لگے پاکستان کی نئی سرحد یہاں تک ہوگی۔
اس نے کہا کہ ایسا کب ہو گا َ تو فرمانے لگیں کہ اللہ کا ٹائم فریم اور
ہماراوقت کا شعور علیحدہ ہے ۔ وقت کیا ہے ؟!!!ہم اس کی تخلیق کردہ کا ئنات
میں ہی وقت کو ناپنے کے معاملے میں صحیح طرح سے کامیاب نہیں ۔ مثلاً کا
ئنات میں ایسے کئی سیارے موجود ہیں ۔جوزمین سے برسوں کی مسافت پر ہیں وہاں
سےاگر کوئی پیغام بھیجاجائے تو یہاں پہنچتے وقت اے کئی برس لگ جائیںگے تو
ہمارا اور وہاں کا وقت تو ایک نہ ہوا ۔ اب آپ اذان ہی لے لیں ۔ جس کی صدا
ہر وقت دنیا میں بغیر رُکے بلند ہورہی ہوتی ہے۔ ہم جب فجر کی اذان سن رہے
ہوتے ہیں تو کہیں ظہر کی اذان ہورہی ہوتی تو کہیں مغرب کی۔ آپ اصحاب کہف
کا قصہ سورۃ الکہف آیت نمبر 19میں قرآن کریم میں پڑھیں گے توبیدار ہونے
پر ایک نے باقی ساتھیوں سے پوچھا ہم اس غار میں کتنا عرصہ سوئے رہے ۔ تو
جواب ملا ایک دن یا ا س سے کم۔ جب کہ وہ اس غار میں 309برس تک سوئے رہے
تھے۔
بہت بعد میں ان کرنل صاحب جنہوں نے اسے آنٹی کے پاس بغرض تربیت بھیجا تھا
وہ کہنے لگے آپ کی آنٹی ٹھیک کہتی ہیں ۔ پاکستان پر ایک ایسا برا وقت
آئے گا کہ اس کے شہر مثل گائوں کے ہو جائیں گے اور گائوں میں دس دس کوس تک
دِیا نہیں جلے گا ۔ اس کے بعد ہاکستان کا ایک ایسا سنہری دور ہوگا کہ لوگ
جس طرح امریکہ کے گرین کارڈ کے لئے تڑپتے ہیں اس طرح پاکستان کی شہریت کے
لئے تڑپا کریں گے۔ (اسی طرح کی بات جناب واصف علی واصف ؒ بھی کہتے ہیں)۔
|