مخبر روز خبریں لا رھے تھے کہ دشمن فوج درالخلافہ سے قریب
سے قریب ھو رہی ھے. بس حملہ ھوا چاہتا ھے. خلیفہ وقت اور امراء بہت پریشان
تھے روز قصر شاہی میں اجلاس ھو رہے تھے کہ خلیفہ وقت اور حرم کی سکیورٹی کو
اور زیادہ سخت کیسے بنایا جاے. امراء کو یہ فکر کھاے جا رہی تھی کہ اتنا
مال و دولت جو اکھٹی کی ھے کیسے محفوظ کئ جاے.
علماء سلطنت بحث و مبحاثوں میں مصروف تھے کہ کون سا پرندہ حلال ھے کون سا
حرام.روز فتوے جاری ھوتے اور اگلی دن دوبارہ اسی طرح بحث و مباحثے ھوتے.
عوام روز علماء کے بحث و مبحاثوں میں شرکت کرتے اور اپنے اپنے گروپ کے
علماء کی باتوں پر واہ واہ کرتے.
اور پھر ایک دن دشمن فوج اس عظیم شہر کے دروازے پر دستک دے رھی تھی تاریخ
جس کو بغداد کے نام سے جانتی ھے . دیکھتے ہی دیکھتے دشمن فوج کے سردار
ہلاکو خان نے پورے بغداد کو فتع کر لیا اور جب خلیفہ وقت کو گرفتار کر کے
اس کے سامنے پیش کیا گیا تو ہلاکو نے حکم دیا کہ خلیفہ کا خزانہ پیش کیا
جاے جب پیش کیا گیا تو اس نے خلیفہ کو حکم دیا کہ وہ سونا چاندی اور ہیرے
جواہرات ہیں جو تم نے عوام کی دولت اکھٹی کی تھی ایسے کھاو . اس کے بعد
ہلاکو خان نے حکم دیا کہ خلیفہ کو گھوڑوں تلے روند دیا جاے اور تمام بغداد
کو زمین کے برابر کر دیا جاے. تمام انسانوں کو قتل کردیا جاے اور سر کاٹ کر
ان کے مینار بناے جاہیں. پھر تاریخ بتاتی ہے کہ دجلہ و فرات کا پانی بغداد
والوں کے خون سے سرخ ہو گیا. اور اگلے حکم کے تحت بغداد کی تمام کتب کو
دریا برد کر دیا گیا اور دریا کا پانی کافی دن تک کالے رنگ کا رھا .ہلاکو
خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی. بغداد ایک شہر نہیں ایک عظیم مسلم
سلطنت کا نام تھا. اور پھر بغداد کو وہ عروج حاصل نہ ھوسکا.
آج اگر ھم مملکت خداد پاکستان کے حالات دیکھیں تو وہ اس وقت کے بغداد سے
مختلف نہیں ہیں. اج مقتدر طبقے کا طرز عمل مختلف نہیں ہے. علماء اپنے دنیا
میں گم ھیں . اور عوام سوشل میڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز میں مست ہیں.
وقاراحمد بلھتی
|