عمران خان کی سیاست کا یہ شروع سے ہی المیہ رہا ہے کہ وہ
ایک مقبول سیاسی لیڈر ہونے کے باوجود اپنی تقاریر،انٹر ویوز وغیر ہ میں
الفاظ کے استعمال کے چناؤ میں احتیاط نہیں برتتے ۔ایساہی رویہ ایم کیو ایم
لندن کے سربراہ الطاف حسین کا رہا ہے ۔خیر عمران خان اتنی حد تک تو نہیں
گئے جتنی حدیں الفاظ کے چناؤ میں الطاف حسن نے عبور کی ہیں لیکن کیونکہ
عمران خان کا ملک کے بڑے سیاستدانوں میں شمار ہوتا ہے اور خصوصاً نوجوانوں
طبقے میں مقبول ہیں ۔ وہ الطاف حسین کی طرح ایک صوبے کے چند شہروں کے نہیں
بلکہ وہ قومی سطح کے سیاستدان اور کھلاڑی ہیں جنہوں نے 1992 میں پاکستان کو
کرکٹ ورلڈکپ جتوایا ۔ اس لئے ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو نہ صرف میڈیا
بلکہ ان کی مخالف جماعتیں اور عوام بھی سنجید گی سے لیتے ہیں ۔انہوں نے
اپنے تازہ خطاب میں فرمایا کہ مجرم کو پارٹی سربراہ بنانے والی پارلیمنٹ پر
لعنت بھیجتے ہیں ۔میں شیخ رشید کی پارلیمنٹ سے استعفیٰ کی بات کی قدر کرتا
ہوں ۔ہوسکتا ہے کہ ہم بھی یعنی پی ٹی آئی کے اراکین بھی پارلیمنٹ سے استعفے
دے دیں ۔جہاں تک بات ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کی کارکردگی کی تو عوام اسکی
کارکردگی سے قطعی خوش نہیں ہے ۔ہمارے اراکین اسمبلیاں ،اپنی سہولیات
،مراعات ،تنخواہوں میں تو آئے روز اضافہ کرتے ہیں لیکن انہیں عوام کو درپیش
مسائل سے کوئی غرض وغایت نہیں ہے ۔ہمارے نمائندوں کے بارے میں عام شکایت ہے
کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد عوام کی پہنچ سے دور اورمال بٹورنے ،کرپشن
،وزارت لینے ،بیرون ملک دورے کرنے ،عیاشیوں ،کمیشن ،رشوت سے بہت قریب
ہوجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری اسمبلیاں ابتک ڈیلیورنہیں کرپائیں لیکن یہ
بھی نہیں ہے کہ ہم تمام ممبران اسمبلی کو برا قرار دے کر ان پر لعن طعن
کریں ۔ہرطبقہ ،ادارے میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں ۔ہماری
اسمبلیوں میں بھی آٹے میں نمک کے برابر اچھے لوگ موجود ہیں اس لئے
سیاستدانوں ،بشمول عمران خان کی تمام تر جدوجہد ہی پارلیمنٹ میں عددی برتری
لے کر حکومت حاصل کرنا ہوتی ہے تو پھر ان پر کیوں لعنت بھیجتے ہیں آپ
تنخواہیں بھی وصول کرتے ہیں ،مراعات بھی لیتے ہیں لیکن جس تھالی میں کھاتے
ہیں اسی میں چھید بھی کرتے ہیں یہ تو دوغلاپن ہوگیا ۔ہاں اگرآپ کے پا س
پارلیمانی نظام کا کوئی متبادل نظام موجود ہے تو اسے آگے لائیں اپنے منشور
کا حصہ بنائیں جب آپ کسی متبادل نظام سے بھی محروم ہوں اورآپ نے الیکشن
لڑکر آنا بھی پارلیمنٹ میں ہے تو پھراپنے بھائیوں پر طعنہ زنی چہ معنی دارد
،عمران خان ایسے ہی جذباتی الفاظ کے استعمال کے باعث عدالتوں سے بھی معافی
مانگ چکے ہیں اب ان کے خلاف قومی اسمبلی میں قرار داد بھی پیش ہوچکی ہے
وہاں بھی شاید انہیں معافی مانگنی پڑجائے ۔ویسے ہمارے مذہب میں بھی حدیث
پاکؐکے مفہوم کے مطابق فرمایا گیا ہے کہ لعنت بھیجنے والا مومن نہیں ہوسکتا
۔لعنت کے لفظی معنی اﷲ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار کے ہیں جبکہ حدیث کے
واقعہ میں لعنت بھیجنے کا ثبوت موجود ہے ۔اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر
بدچلنی کا الزام لگائے یا کوئی تہمت لگائے اور اسے گواہوں کے ذریعے ثابت نہ
کرسکے تو وہ چار دفعہ خود کہے گا کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اگر
میں اپنی بات پر سچا نہ ہوں تو مجھ پر اﷲ کی لعنت ،قرآن پاک کے اٹھارویں
پارے کے پہلے رکوع میں لعنت کے بارے میں تفصیل موجود ہے ۔عمران خان کے
پارلیمنٹ پر تبرا کی ہر طرف سے مذمت کی جارہی ہے ۔خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ
پارلیمنٹ کو گالی دینا گھٹیا پن ہے ،وفاقی وزیر ایچ ای بلیغ الرحمٰن نے
اسمبلی میں مذمتی قرار داد پیش کی ہے جن پر پی پی پی ،جمعیت علماء اسلام
(ف) ،ایم کیو ایم اور پختونخوا عوامی پارٹی کے اراکین کے دستخط تھے ۔رائے
شماری کے بعد قرارداد کو منظور کرلیاگیا جس کے متن میں کہا گیا کہ عمران نے
بائیس کروڑ عوام کے مینڈنٹ کی توہین کی ہے ۔ویسے پاکستان میں مشکل سے چالیس
فیصد ووٹ پول ہوتے ہیں صرف آٹھ سے دس کروڑ لوگ ووٹ ڈالتے ہیں تویہ کہنا کہ
بائیس کروڑ کی توہیں ہوئی غلط ہے ۔اسمبلیوں میں جو اراکین براجمان ہوتے ہیں
انہیں چالیس فیصد سے بھی کم ووٹرز کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔وزیر اعلی پنجاب
شہباز شریف نے عمران خان کے بیان پر کہا کہ پارلیمنٹ کا تقدس مجروح کیاگیا
ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ عمران خان نے پارلیمنٹ پر
لعنت کرکے اس کی توہین کی ہے ۔انہیں اب یہاں پر سیاست نہیں کرنی چاہئے اور
پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے والوں کے استعفوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔عمران
خان بھی اپنے کہے پر ڈٹے ہوئے ہیں انہوں نے حکومتی ارکان اور حلیفوں کی
جانب سے اپنے لعنت کے بیان کے ردعمل میں داغے گئے گولوں کے جواب میں پریس
کانفرنس کر ڈالی اور خواجہ آصف نواز ،نواز شریف کو اسمبلی کی تباہی کا ذمہ
دار قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ لعنت کا لفظ بہت ہلکا ہے ۔ان کے مطابق
پارلیمنٹ میں چوروں کا مافیہ بیٹھ گیا ہے میں کیسے ایسی پارلیمنٹ کی عزت
کروں جہاں مجرم بیٹھے ہوں ۔ان کے مطابق کونسی ایسی اسمبلی ہے جو تین سو ارب
روپے چوری کرنے والے شخص کے لئے قانون بنا کر اسے پارٹی کا سربراہ بناتی ہے
۔انہوں نے اپنے لعنت کے لفظ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو شک ہے تو
وہ بائیس کروڑ عوام سے پوچھ لیں ۔عمران خان کے اس دعوے میں کوئی شک نہیں ہے
کہ عوام کی رائے پارلیمنٹ کے بارے میں ہمیشہ سے ہی منفی رہی ہے کیونکہ
ہماری اسمبلیاں اب تک عوام کے لئے کچھ کرہی نہیں پائی ہیں ۔ایک دوسروں کی
ٹانگیں کھیچنے اور وزارتوں کے حصول سے انہیں فرصت نہیں ہے دوسرے ڈکٹیٹروں
کی بار بار مداخلت اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی روش نے بھی ہمارے پارلیمانی
نظام کو چلنے نہ دیا ۔مختلف وجوہات جن میں احتساب،عدل ،انصاف ،الیکشن کے
لئے امیدواروں کی اہلیت کا نہ ہونے کے باجود انہیں الیکشن لڑنے دینا
،جاگیرانہ نظام ،شخصیت پرستی ،قومیت ،علاقائیت پر مبنی سیاست ،الیکشن میں
دھاندلی ،جاہلیت ،مذہب سے دوری کے باعث ہماری عوام ،حکومت ،سیاستدان ،ڈکٹیڑ
تمام اس نظام کو فیل کرنے کے ذمہ دارہیں ۔ نظام وہی اچھا ہے جس میں بادشاہ
سے لے کر عام آدمی تک جو ابدہ ہولیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک جانب
اسی نظام کے تحت اقتدار کی جدوجہد کریں اور دوسری جانب اس پر لعن طعن بھی
کریں ہمارے پاس اخلاقی اور مذہبی طور پر ایسا کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں
ہے۔ |