تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچ رہا تھا کہ جس ملک میں
سیاست دان تاجرز وزرا علمائے دین ڈاکٹرز اور بالخصوص بیوروکریٹس نفسا نفسی
کا شکار ہو کر حرام و حلال کی تمیز کھو بیٹھے ہوں اور جو اپنے خلاف لکھی
جانے والی تحریروں کو پڑھ کر یہ کہتے ہوئے اُن تحریروں کو ردی کی ٹوکری میں
پھینک دیں کہ اگر بد نام نہ ہوئے تو پھر کیا نام نہیں ہو گا تو پھر میں
ایسے ناسوروں کے خلاف کیا لکھوں جو نہ صرف انسانیت بلکہ مذہب اسلام کے نام
پر بھی ایک بد نام داغ ہیں درحقیقت تو یہ ہے کہ یہ وہ ناسور ہیں جو احساس
ذمہ داری اور فرض شناسی سے ناآ شنا ہو کر اقتدار کے نشہ میں بد مست ہو کر
اپنی اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور تو اور یہ اپنے آپ کو چنگیز خان اور
ہلاکو خان سمجھ کر غریب اور بے بس مظلوم افراد سے ایسا رویہ اپنائے ہوئے
ہیں جیسے ہندو برہمن قوم اچھوتوں کے ساتھ بس میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ
اسی دوران چند ایک افراد جن کے چہروں پر مایوسی اور پریشانیوں کے گہرے بادل
چھائے ہوئے تھے مجھ سے مخا طب ہو کر کہنے لگے کہ بھائی توصیف حسین کیا وجہ
ہے کہ آپ کچھ دنوں سے اس ملک کے ناسور افراد کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب
کرنے سے قاصر ہو کر رہ گئے ہیں یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ بھی ہماری
طرح ان ناسوروں کے کالے کرتوتوں کو کو دیکھ کر دلبرداشتہ ہو کر ان کے خلاف
لکھنا چھوڑ گئے ہو اگر ایسا ہے تو یہ سراسر ہم جیسے مظلوم افراد کے ساتھ آپ
ناانصافی کر رہے ہیں اب آپ جیسے افراد ہی تو ہمارا سہارا ہیں جو ہماری آواز
حق کو بلند کر کے ارباب و بااختیار کے ضمیروں کو جھجھوڑنے میں مصروف عمل
ہیں ویسے بھی تم صحافت جیسے مقدس پیشے سے وابستہ ہو جو پیغمبری پیشے کے
ساتھ ساتھ حقوق العباد کے زمرے میں آتا ہے اُن افراد کی ان باتوں کو سننے
کے بعد میں نے اُن کی طرف بڑی مایوسی کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا
کہ بک گیا د وپہر تک اس پرآشوب معاشرے کا ہر ایک جھوٹ
اور میں شام تک یوں ہی ایک سچ کو لیئے کھڑا رہا
بو لو کیا لکھوں ان ناسوروں کے خلاف جو ڈریکو لا کا روپ دھار کر غریب اور
بے بس مظلوم افراد کا خون چوس رہے ہیں انہیں نہ تو اپنی موت یاد ہے اور نہ
ہی خداوندکریم کا قہر یہ تو بس نوٹوں کے غلام ہیں نوٹوں کے بولو کیا لکھوں
کہ ہمار ے ملک کی ضلعی انتظامیہ اپنے اپنے علاقے کی عوام کی جان و مال کی
حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ علاقوں کی تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے
بجائے مفاد پرست سیاست دانوں کے گھر کی لونڈی بن کر اپنے فرائض و منصبی
دہاڑی لگاؤ اور مال کماؤ کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر ادا کرنے میں مصروف عمل
ہیں ان کی لوٹ مار میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ یہ اب حال ہی میں از سر نو
تعمیر ہونے والے ہسپتالوں کی تعمیر و مرمت کے ساتھ ساتھ باقی ماندہ ہر چیز
میں بھی اپنا کمیشن وصول کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئی ہے اگر وزیر اعلی
پنجاب میاں شہباز شریف حال ہی میں تعمیر ہونے والے ہسپتالوں کے علاوہ باقی
ماندہ ہر چیز کا آ ڈٹ کسی فرض شناس اور ایماندار افسران سے کروائے تو دودھ
کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا بولو مذید کیا لکھوں کہ ضلع جھنگ کی
ڈی ایس پی ٹریفک پولیس نسیم اختر ایک عورت ہونے کے باوجود اپنے فرائض و
منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہے جبکہ
دوسری جانب اس کے ماتحت آ فیسرز جس میں ظفر ہراج نامی انسپکٹر سر فہرست ہے
جو کئی سالوں سے یہاں تعنیات رہ کر اپنے فرائض و منصبی دہاڑی لگاؤ اور مال
کماؤ کی سکیم پر عمل پیرا ہو کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہے جس کے نتیجہ میں
شہر بھر میں ناجائز اڈوں کی بھر مار کے نتیجہ میں ٹریفک کا نظام بے لگام
جبکہ آئے روز ایکسیڈنٹ شہریوں کا مقدر بن چکے ہیں یہی کافی نہیں مذکورہ آ
فیسر جس کے متعلق شنید ہے کہ وہ لائسنس برانچ کا انچارج ہونے کی حیثیت سے
اپنے رکھے گئے پرائیویٹ ایجنٹوں کے ذریعے لاکھوں روپے ماہانہ بھتہ وصول کر
کے قانون کی دھجیاں اُڑانے میں مصروف عمل ہے اور ویسے بھی مذکورہ آ فیسر کی
کئی سالوں کی تعنیاتی قانون کی دھجیاں اُڑانے کے متعارف ہے اور بولو میں
کیا لکھوں کہ ضلع جھنگ کے ایم این اے شیخ محمد اکرم اور اُن کے راحت جان
بیٹے شیخ نواز اکرم جو کہ بلدیہ جھنگ کے چیرمین ہیں نے الیکشن کی آ مد سے
چند ماہ قبل مشترکہ طور پر سیٹلائٹ ٹاؤن میں ساڑھے چار کروڑ روپے کی لاگت
سے کلمہ چوک تعمیر کروایا جبکہ ایوب چوک سے لیکر جنرل نس سٹینڈ آدھیوال چوک
تک ساڑھے سولہ کروڑ روپے کی لاگت سے کارپٹ سڑک تعمیر کروانے میں مصروف عمل
ہیں جو کہ مذکورہ شخصیات کا جھنگ کی عوام پر احسان عظیم ہے لیکن اس کے
باوجود افسوس صد افسوس کہ ضلع جھنگ کی عوام اپنے تمام تر بنیادی حقوق سے
محروم ہو کر بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنی ہوئی ہے چونکہ ضلع جھنگ کی
تمام کی تمام سڑکیں کئی سالوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار سیوریج کا نظام مکمل طور
پر تباہ و برباد جس کے نتیجہ میں لا تعداد شہر ی مختلف موذی امراض میں
مبتلا بجلی اور گیس کے دورانیہ میں دن بدن اضافہ ریلوے اسٹیشن ٹوٹ پھوٹ کا
شکا ر ہو کر بھوت بنگلہ کی شکل اختیار کر چکے ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے
کہ ریلوے اسٹیشن جھنگ سٹی میں نہ تو مسافروں کے بیٹھنے کیلئے کوئی معقول
انتظام اور نہ ہی کو ئی لیٹرین و پانی کا انتظام نواز شریف پارک ہاکی
گراؤنڈ اور گرلز کا لج کے گردونواح میں غلاظت کے بڑے بڑے انبار جبکہ شہر
بھر میں کیمیکل ملا پانی جس کے پینے سے متعدد افراد جس میں معصوم بچے سر
فہرست ہیں اذیت ناک موت مر چکے ہیں سرکاری ہسپتالوں میں بر وقت ادویات کے
نہ ملنے اور ڈاکٹروں کی عدم توجہ کا شکار ہو کر متعدد غریب مریض ایڑیا رگڑ
رگڑ کر بے موت مر رہے ہیں یونیورسٹی کے نہ ہونے کے سبب غریب طبقہ کے نوجوان
پریشانی سے دوچار ہو کر رہ گئے ہیں بازاروں میں بااثر قبضہ مافیا کا راج
قائم ہونے سے ناجائز تجازوات کی بھر مار جہاں پر شریف خاندان کی بہو بیٹیوں
کا گزرنا محال اور تو اور محلوں کی گلیوں کی تباہ حالی اور غلاظت کے
انباروں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ضلع جھنگ ایک لا وارث ضلع ہے
کاش ایم این اے شیخ محمد اکرم سابق ایم این اے شیخ وقاص اکرم اور شیخ نواز
اکرم اپنے پندرہ بیس سالہ دور اقتدار میں اپنے علاقے کی مظلوم غریب عوام پر
تعمیر و ترقی کی مد میں ملنے والے فنڈز کا نصف حصہ بھی خرچ کیا ہوتا تو آج
ضلع جھنگ کی بے بس اور مظلوم عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوتی اور
نہ ہی اُن کے چہروں پر مایوسی اور پریشانیوں کے گہرے بادل چھائے ہوتے اور
اب تو ویسے بھی ممکن ہے کہ 2018 کے الیکشن میں مذکورہ شخصیات کے اقتدار کا
سورج ڈوب جائے جس کے اثرات نمایاں نظر آ رہے ہیں 22جنوری 2018 کو ایک
افتتائی تقریب کے دوران شیخ وقاص اکرم نے اپنی سابقہ روایات کے مطا بق جلاؤ
گھیراؤ کی ایک پرانی نظم پڑھی جس کی اطلاع پا کر جمیعت علمائے اسلام ف گروپ
کے سنیٹر حمد اﷲ اور شیعہ سنی بھائیوں کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجہ میں ضمنی
الیکشن میں کامیاب ہونے والے اور وہ بھی بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والے
مسرور نواز جھنگوی نے مشترکہ طور پر اس جلاؤ گھیراؤ نظم کی پرزور مذمت کی
جبکہ دوسری جانب فقہ جعفریہ کے ضلعی صدر حسن شاہ ترمذی اور سٹی صدر میاں
مظفر تھہیم نے اس نظم کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شیخ وقاص اکرم ہم
شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں اور ہم امن کے خواہ ہیں لہذا اب تم ہماری لاوشوں
پر سیاست کرنے سے دریغ کرو ورنہ
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو میں مر جاؤں گا
میں تو ایک دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا |