گوادر پاکستان کے انتہائی جنوب مغربی ساحلی پٹی پر خلیج
فارس کے داخلی راستے پر واقع ہے۔جو کہ دنیا کہ سب سے بڑے بحری تجارتی راستے
اور اپنے شان دار محلِ وقوع کے اعتبار سے عالمی دنیا کی توجہ کا مرکز بنا
ہوا ہے۔21 ویں صدی کی جدید سہولیات سے آراستہ گوادر بندر گاہ نہ صرف
پاکستان بلکہ چین ، افغانستان ، اور وسطِ ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا
زیادہ تر انحصار اسی بندر گاہ پر ہوگا۔جہاں دنیا کی آبادی کا ایک تہائی سے
زائد حصہ آباد ہے۔محلِ وقوع کے اعتبار سے مکران کی ساحلی پٹی پر واقع گوادر‘
کراچی کے مغرب میں تقریباً 460 کلومیٹر ، ایران پاکستانی سرحد کے مشرق میں
80 کلومیٹر اور عمان کے شمال مشرق میں 380 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔اپنے
جغرافیائی محلِ وقوع کے پیش نظر سٹریٹیجک اہمیت کی حامل یہ بندرگاہ تین
خطوں مشرقی وسطیٰ ، وسطی ایشیا ، اور جنوبی ایشیا اور مغربی چین کی ضروریات
پوری کرے گا۔ گوادر سے کراچی اور پھر قراقرم ہائی دے تک توسیعی منصوبے پر
تیزی کے ساتھ کام جاری ہے۔جس سے چین کو بحرِ ہند تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔
اس رابطے کی سڑکوں کو سی پیک یعنی ’’پاک چین اقتصادی راہداری ‘‘ کا نام دیا
گیا ہے۔اس راہداری کے ذریعے چین کا دنیا سے فاصلہ کئی ہزار کلومیٹر تک کم
ہوجائے گا۔یعنی سعودی عرب سے تیل بھرے ٹینکرز جو پہلے مہینوں میں سخت اور
بدلتے موسمی اور سیاسی حالات میں شنگھائی پورٹ پہنچا کر تے تھے۔ اَب سی پیک
کی بدولت یہ فاصلہ مہینوں کی بجائے دنوں میں سمٹجائے گا اوریوں چین کو تیل
کی سپلائی سال کے بارہ ماہ جاری رہے گی۔اس کے علاوہ چین کی درآمدات اور
برآمدات دونوں اسی رہداری کو استعمال کریں گی، یعنی چین سے گوادر اور پھر
گوادر سے دنیا کے مختلف حصوں تک۔پاکستان کو اس کے ثمرات میں محصولات کی
صورت میں اربوں ڈالر ملیں گے جو ملکی زرمبادلہ میں مناسب اضافے کا سبب ہوں
گے۔ اس منصوبے کے حوالے سے پاک چین تعاون کمیٹی کا چھٹا مشترکہ اجلاس 29
دسمبر 2016 ء کو بیجنگ میں منعقد ہوا۔ جس میں وفاقی وزراء کے علاوہ سندھ ،
خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی جب کہ صوبہ پنجاب
کی نمائندگی وزیر صنعت نے کی۔اس مشترکہ اجلاس میں جہاں خیبر پختونخوا سے
کراچی تک ریلوے ٹریک کی منظوری دی گئی تو وہیں صوبہ بلوچستان میں بارہ
منصوبوں پر عمل درآمد کا فیصلہ بھی ہوا۔ کیٹی بندر منصوبے کی منظوری سے
صوبہ سندھ کی ترقی کا ایک اور راستہ کھول دیا گیا ہے۔ جب کہ گلگت بلتستان ،
آزاد جموں و کشمیر ، فاٹا اور ملک کے مختلف علاقوں میں صنعتی زونز کی تعمیر
سے یقینی طور پر سی پیک کے ثمرات سے ترقی و خوش حالی کا سفر ہر سمیت یکساں
رفتار سے آگے بڑھ سکے گا۔ یہاں یہ بات بھی قابل تحسین ہے کہ یہ منصوبہ محض
فائلوں اور یاداشتوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عملیبنیادوں پر مشرقی اور
مغربی روٹس پر کام ہو رہا ہے۔اجلاس میں چھوٹے صوبوں کے اندر ڈیڑھ درجن کے
قریب اقتصادی منصوبوں کی منظوری دی گئی جس سے ان کے تحفظات و خدشات دور
ہوگئے ہیں جو قومی یک جہتی اور سی پیک پر اتفاق رائے کے حوالے سے ایک خوش
آئند پیش رفت ہے۔ یاد رہے ابتدائی مراحل میں چھوٹے صوبوں نے نظرانداز ہونے
کی شکایات کی تھیں۔
پاک چین اقتصادی راہداری صرف سڑکوں کی تعمیر اور گوادر میں بندرگاہ کو فعال
بنانے کا نام نہیں ہے بلکہیہ پاکستان کی تاریخ میں سرمایہ کاری کا سب سے
بڑا منصوبہ ہے جس کا مجموعی حجم 46 ارب ڈالرز سے تجاوز کرکے 54 ارب ڈالرز
ہوگیا ہے جب کہ مستقبل قریب میں اس کا حجم ساٹھ ارب ڈالرز ہوجائے گا۔ اس کی
بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ہر آنے والا دن پاکستان کی معاشی اہمیت میں بے
پناہ اضافے کا سبب بنے گا۔ یہ منصوبہ راہداری کے علاوہ ریلوے ٹریکس ، بجلی
گھروں کی تعمیر اور پہلے مرحلے میں دس ہزار میگا واٹ بجلی قومی نظام میں
شامل کرنے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی منصوبہ جات ، صنعتی زونز کی تعمیر ، آبی
ذخائر اور ماس ٹرانزٹ جیسے منصوبوں پر عمل درآمد کا دوسرا نا م بھی ہے۔اس
بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سی پیک کے ذریعے ایک طرف ملک کے اندر
سڑکوں کا جال اور تیز رفتار رابطوں کا نظام تشکیل پائے گا تو دوسری جانب
گوادر کے ذریعے ملک کو عالمی تجارتی منڈیوں اور علاقائی ممالک سے منسلک
کرنے کی ایسی راہیں کھلیں گی جس کی بنیاد پر ملکی معیشت میں استحکام پیدا
ہوگا۔لہٰذا یہ قوی اُمید کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں گوادر کا شہر بین
الاقوامی صنعتی و تجارتی مرکز بن جائے گا جو نہ صرف صوبہ بلوچستان بلکہ
پورے پاکستان میں معاشی ومعاشرتی انقلاب کی جانب پیش قدمی کی علامت بھی بن
جائے گا۔ کیوں کہ مضبوط معیشت ہی دراصل غربت ، جہالت ، بد امنی ، بیماریوں
، بے چینی اور احساس محرومی کو ختم کرنے کا راستہ ہے۔ معیشت میں مثبت
تبدیلی لانے والے منصوبوں پر عمل درآمد کے وقت سب سے اہم ضرورت امن و امان
کے حالات کو بہتر بنانے اور اُن کو قابو میں رکھنے کی ہوتی ہے کیوں کہ اتنے
بڑے منصوبے کے لئے لاکھوں ملکی اور غیر ملکی افراد مصروف عمل ہوں گے اور جن
کی حفاظت کے انتظامات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ سیکورٹی کے لئے
پاکستان بری فوج کا ایک علیٰحدہ خصوصی ٹاسک فورس بنایا گیا ہے جو ایک میجر
جنرل کی قیادت میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے۔ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل
قمر جاوید باجوہ سے پاکستان میں تعینات چینی سفیر نے ملاقات کی جس میں
دوطرفہ باہمی اُمور پر بات کرنے کے علاوہ سی پیک کی سیکورٹی کے انتظامات
بھی زیر بحث آئے، جس پر چینی حکومت کی جانب سے اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ |