پہلے خدا پھر بیٹا، پہلے محمد ﷺ پھر بیٹا ،پہلے قرآن
پھر بیٹا،پہلے اسلام پھر بیٹا۔یہ الفاظ اس عظیم باپ کے تھے جسکے دل میں
جوان بیٹے کی ناگہانی موت کے متوقع صدمے سے شوق شہادت، جذبہ ایمانی اور
توکل علی اﷲ زیادہ نمایاں تھا ۔صرف برھان وانی ہی نہیں ایک طویل فہرست ہے
جو شوق شہادت کے جذبے سے سرشار مسلسل بھارت کے مکروہ چہرے کو دنیا کے سامنے
بے نقاب کرنے اور آزادی کے لیئے جدوجہد کررہی ہے اور چالیس سال سے اپنی عزت
و ناموس اور نسلوں کی قربانی دیتی آ رہی ہے ۔ہر آنے والا دن ایک نئی جدوجہد
اور ہمت و حوصلے کا پیام لیے ہوئے آتا ہے اور کئی بیٹیوں کے سر سے انکی ردا
چھین لیتا ہے ہر نیا دن معصوم جانوں کو بلا امتیاز جنس و عمر خاک و خون میں
نہلا کے شہادت عطا کردیتا ہے ۔وہی کشمیری عوام جن پہ عرصہ حیات تنگ کردیا
گیا ہے ۔جو پندرہ سولہ ہزار فٹ کے بلند وبالا برفانی پہاڑی سلسلے اور بھارت
کی سفاک فوج کے جابجا پھیلے مورچوں کے بیچوں بیچ سربکف ہوکے بھارتی استعمار
کا مقابلہ کرتے چلے آئے ہیں۔اسی بہادر اور جری عوام سے محبت، یگانگت ،حوصلے
،یقین اور یکجہتی کا پیغام دینے کے لیئے پاکستانی عوام5 فروری کے دن کو
پورے جوش و خروش سے مناتی ہے۔ اس موقع پرحکومت اور مختلف سیاسی پارٹیاں ،
کشمیری عوام کی تحریک آزادی سے یک جہتی کے لیے جلسے ، ریلیاں اور دوسرے
پروگرام تشکیل دیتی ہیں۔ اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔ٹی وی پر
دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ اس دن کو منانے کا سب سے پہلا اعلان جماعت
اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد کی طرف سے کیا گیا۔تاکہ عوام کشمیری بھائیوں
سے یکجہتی کے مظاہرے کے لیئے سڑکوں پہ نکل آئے اسکا مقصد بین الاقوامی
قوتوں کو یہ باور کرانا تھا کہ کشمیر اپنے حق کی آواز عالمی سطح پر بلند
کرنے کے لیئے اکیلا نہیں کھڑا بلکہ پاکستانی عوام بھی اسکے شانہ بشانہ کھڑی
ہے ۔عوام نے انکے اس اعلان کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا اور یہ عوامی ردعمل
ہی تھا جس نے یہ دن سیاستدانوں، حکومت کو حکومتی سطح پر منانے کے لیئے
مجبور کردیا۔
5 فروری 1990 کو کشمیریوں کے ساتھ زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ملک گیر
ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیاگیا۔ اس
دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگیں گئیں۔ بعد ازاں
پاکستان پیپلز پارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے
ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو آزاد
کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے اسمبلی اور
کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا،کشمیریوں کو ہر ممکن
تعاون کا یقین دلایااور مہاجرین کشمیر کی آبادکاری کے لیئے بھی وعدہ کیا اس
دن سے پانچ فروری کو سرکاری حیثیت حاصل ہوگئی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ یہ مثبت طرز عمل یہیں تک محدود ہے؟ کیا سیاستدانوں کے جلسے جلوس کرنے
سیمینارز میٹنگز منعقد کرنے اور میڈیا کے سامنے بیانات دینے سے اس دن کے
بھرپور مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں؟اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی قطعی گنجائش
نہیں کہ کشمیر صرف کشمیری عوام کے لیئے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیئے بھی
شہہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور عوامی حلقے بشمول افواج پاکستان میں یہ ایک
نہایت اہم نوعیت کا مسئلہ ہے جسے وہ باہمی تفہیم سے پر امن طور سے مضبوط
سفارتی بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں لیکن اس حوالے سے حکومتی حلقوں اور
سیاسی اکابرین کی کارکردگی قابل ذکر اور اہمیت کی حامل نہیں نظر آتی ۔ہماری
کمزور جمہوریت کے کاندھے اتنی اہم ذمے داری اٹھانے کے حامل نظر نہیں آتے
ایک طرف تو قومی یکجہتی سے بھرپور بیانات دیئے جاتے ہیں دوسری طرف بھارتی
حکمرانوں کا خوش دلی سے خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ خاص طور سے گذشتہ کئی سالوں
سے ہماری کمزور اور ناقص خارجہ پالیسی ہے جو بین الاقوامی سطح پر مسئلہ
کشمیر کو پرزور انداز میں اٹھانے سے مکمل طور پر قاصر رہی ہے ۔
آخر کب تک عوام ہر قسم کے مسائل کے تدارک کے لیے افواج پاکستان کی راہ تکتے
رہیں گے اگر ہمیشہ ایسے ہی ہونا ہے تو بوٹوں کی سیاست اور ڈکٹیٹر شپ کا
طعنہ کیوں ؟مسئلہ کشمیر کا حل صرف جلسے جلوسوں اور لمبے چوڑے حب الوطنی کے
بیانات سے نہیں نکل سکتا جب تک ہمارے سیاستدان آپسی جھگڑوں سے بالاتر
ہوکربین الاقوامی سطح پر یکجا ہوکر آواز بلند نہیں کرتے۔ دوسری طرف بھارت
شدت کے ساتھ منفی پروپگینڈہ کررہا ہے اور اس پروپیگنڈے میں صرف بھارت ہی
ملوث نہیں ہے بلکہ تمام اسلام دشمن طاقتیں اسکی پشت پناہی کررہی ہیں۔ اسلام
دشمن ممالک اس خطے کے لوگوں کو الجھائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے مزموم
مقاصد میں کامیاب ہوسکیں۔ہمارے سیاستدانوں کی اس ڈپلومیٹ پالیسی نے کئی
سوال کھڑے کردیئے ہیں۔اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کئی دھڑے ایسے بھی ہیں جو نہ
بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں نہ پاکستان کے ساتھ بلکہ ایک علیحدہ
خودمختار ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں وہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں
اپنے کمزور وکیل کی حیثیت سے دیکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔خودمختار کشمیر کی
حامی ایک اہم تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ یعنی جے کے ایل ایف کے اپنے
دھڑے کے سربراہ امان اﷲ خان نے ایک بیان میں یہ کہا کہ پانچ فروری کی اپنی
کوئی تاریخی یا سیاسی اہمیت نہیں ہے اور یہ کہ یہ دن منائے جانے سے نہ تو
کشمیر میں جاری علیحدگی کی تحریک یا عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں
کی پوزیشن پر کوئی مثبت اثر پڑا ہے۔انھوں نے کہا کہ یوم یکجہتی کشمیر منانا
وقت اور پیسے کا ضیاع ہے اور اس کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے۔
پاکستان کی مجموعی سیاست کو باہمی تفہیم کے ساتھ ایک ٹیبل پر اکٹھا ہوکر
سنجیدگی کے ساتھ اس پر دھیان دینا ہوگا مباحثوں اور اسکے تدارک کامؤثر
حل،الزامات، دشنام طرازی ،نفرت اور دوری کے اس ماحول سے نکل کر سوچنا
ہوگا۔ابھی بھی لاکھوں کشمیری عوام پاکستان کی طرف امید افزا نگاہوں سے دیکھ
رہے ہیں۔ایک دوسرے سے بات کریں ایک دوسرے کو سمجھیں سمجھائیں ایک دوسرے کو
سنیں آپ کو اختلاف کا حق ہے مگر احترام سے خدارا یکجا ہوکر داخلی اور خارجی
مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں۔برہان وانی کے جنازے میں لہرانے والے پاکستانی
جھنڈے اس بات کی عکاسی کرتے تھے کشمیری عوام کے دل آج بھی پاکستانی عوام کے
ساتھ دھڑکتے ہیں۔کاش اس دن کو ہمیشہ کی طرح منانے کے بجائے ہم سب مل کر
طاغوتی قوتوں کو بھرپور سبق دینے کا عہد کریں اور ایک نئی اور مؤثر جدوجہد
کا آغاز کریں۔
تحریر : ڈاکٹر رابعہ اختر |