ابھی کل کی بات ہے کہ نئے سال کی آمد پر سبھی شاد تھے اور
ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے ویسے ہم بھی بڑی عجیب قوم ہیں کہ سارا
سال بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ،گندا پانی ، زہریلی سبزیاں اور پھل ،مہنگائی
،ملاوٹ اور دہشت گردی کا عذاب سہتے ہیں پھر بھی نیا سال خوب جوش و خروش اور
ہلڑ بازی سے مناتے ہیں حالانکہ نیا سال ہم سے محاسبہ چاہتا ہے تو طے ہوا کہ
ہم نہیں بدلتے بس وقت بدل جاتا ہے اور آج جنوری کی 23تاریخ ہوچکی ہے یعنی
یہ سال بھی رواں دواں ہے ۔تاہم موسم سرد ہے مگرموسم کوئی بھی ہو پاکستان
میں سیاسی موسم ہمیشہ گرم رہتا ہے کیونکہ برسر اقتدار طبقہ مست مئے پندار
رہتا ہے او راپوزیشن حکمرانوں کی ناکامیوں اور رسوائیوں کو ڈھوندتی رہتی ہے
چونکہ ’’کڑوا کڑوا تھو تھو میٹھا میٹھا ہپ ہپ ‘‘کے مصداق سیاستدانوں کا
وطیرہ بن چکا ہے کہ اپنے لیے سب اچھا ہے مگر وہی کام اگر کوئی دوسرا کرے تو
وہ ملک و قوم کا دشمن قرار پاتا ہے اس سارے تماشے میں اگر کوئی خسارے میں
ہے تو وہ صرف عوام ہیں جوکہ اپنی حالت پر ان سب کو کو ستے رہتے ہیں مگر
کوئی فیصلہ نہیں کرپاتے بلکہ پریشانی کی حالت میں بھٹکتے ہوئے ملک عدم
سدھارجاتے ہیں ۔ یہ ہماری بد نصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم نے آمریت سے
جمہوریت کا سفر تو طے کر لیا مگر یہ جمہوریت تو اس آمریت سے بھی بد تر
ٹھہری کہ آئے روز لاشیں اٹھتی ہیں مگر قانون و انصاف اور حکومت کے کانوں پر
جوں تک نہیں رینگتی بلکہ ان کے جوش و خروش اور رعونت وعنانیت میں مزید
اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اورادارے ہیں کہ احتجاجی عوام اور میڈیا کے شوروغل
سے لرزاں ہو کر شعبدہ بازیاں کر کے دکھاتے ہیں ۔
کہاں پروٹوکول کے چرچے اور اخراجات زبان زد عام تھے اور اب تو حد ہی ہوگئی
ہے کہ ہر ی پور جلسہ گاہ جاتے ہوئے میاں صاحب کے قافلے پر ہیلی کاپٹر کے
ذریعے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں ۔اس منظر کو دیکھ کر عوام شدید قسم
کے دکھ اور مایوسی کا شکار ہوئے کہ ملکی حالت سوالیہ نشان ہے اور معاشی
صورتحال اس قدر خراب ہے کہ اعلانیہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کنگال ہو چکا ہے
اورسابق وزیراعظم کس قدر اصراف کر رہے ہیں مگر عوامی جذبات کو پس پشت ڈالتے
ہوئے اسے عوامی ریفرینڈم اور عوامی محبت قرار دیا گیا کہ جلسے میں عوام کی
تعدادپسندیدگی اور معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ بی بی مریم نے کہا :’’سال
2018 میں ناکامی ہوئی تو دھاندلی کا رونا مت رونا کیونکہ خالی کرسیاں ووٹ
نہیں دیتیں ‘‘۔ووٹ دینا اور لینا بھی ایک وحشت ناک حقیقت ہے جسے سامراجی
قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے جوزف اسٹالن نے کیاخوب
بیان کیا تھا کہ:جوزف اسٹالن ایک دفعہ اپنے ساتھ پارلیمنٹ میں ایک مرغا
لیکر آیا اور سب کے سامنے اس کا ایک ایک پر نوچنے لگا ،مرغا درد سے بلبلاتا
رہا مگر ایک ایک کر کے اسٹالن نے اس کے سارے پر نوچ دئیے ۔پھر مرغے کو فرش
پر پھینک دیااو پھر جیب سے کچھ دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دئیے اور
چلنے لگا ، تو مرغا دانہ کھاتے ہوئے اس کے پیچھے چلنے لگا ،اسٹالن برابر
دانہ پھینکتا گیا اور مرغا دانہ منہ میں ڈالتے ہوئے برابر اس کے پیچھے چلتا
رہا آخرکار وہ مرغا اسٹالن کے پیروں میں آکھڑا ہوا ،اسٹالن نے اپنے کامریڈ
کیطرف دیکھا اور اس کے بعد تاریخی فقرہ بولا :’’جمہوری سرمایہ دارانہ
ریاستوں کی عوام اس مرغے کی طرح ہوتی ہے ا ن کے حکمران پہلے عوام کا سب کچھ
لوٹ کر انھیں اپاہج کر دیتے ہیں اور بعد میں معمولی سی خواراک دیکر خود
انکا مسیحا بن جاتے ہیں ‘‘۔
ادھر ہری پور میں میاں صاحب گرجے تو ادھر بلوچستان میں بلاول نے بھی اپنے
دکھوں پر آنسو بہائے مگر یہ کسی نے نہیں کہا کہ عزتوں کے لٹیروں کو ڈھونڈ
کر سر عام لٹکائیں گے ، جعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے والوں کے مجرموں
کو سزائے موت دیں گے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہر حد تک جائیں گے
۔حالانکہ ہواؤں میں پھیلی چیخیں با آسانی سنی جا سکتی تھیں کہ زینب ، اسماء
، نقیب اﷲ ، انتظار اور ان گنت بے گناہ مارے جانے والوں کے لاشے پوچھ رہے
تھے کہ ہمیں کیوں مارا ؟ ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی ہے ؟سچ ہے ۔۔سیاست بے
حسی کا دوسرانام ہے بقول بعقوب انجم :تیرے سینے میں دل نہیں شاید ۔۔ ورنہ
اب تک تو پھٹ گیا ہوتا
لہذا سبھی اپنی مستی میں مست رہے اور مقررین نے خان صاحب کو آڑے ہاتھوں
لیتے ہوئے مال روڈ جلسہ کوموضوع تقریربنایا ۔عمران خان بھی غلط وقت پر غلط
بات کرتے ہیں اور غلط وقت پر صحیح کام کرتے ہیں اور نتائج کا ادراک ہی نہیں
کر پاتے حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ جمہوری قائدین کی یہ خوبی ہے کہ ایک
مسئلہ ختم نہیں ہوتا اور وہ کوئی نیا فتنہ اٹھا دیتے ہیں بلکہ تلاش میں
رہتے ہیں تاکہ وہ اپنی من مانیاں کرتے رہیں ،عوام سلگتے رہیں اور سب چلتا
رہے ۔کہنے کو تو مال روڈ جلسہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثا ء کو انصاف دلانے کے
لیے رکھا گیا تھا مگر اسے جناب آصف زرداری نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی
راہیں صاف کرنے کے لیے استعمال کیا ۔مولانا طاہر القادری یہ ادراک کرنے میں
ناکام رہے کہ جناب آصف زرداری، جناب نواز شریف سے یارانہ نبھا سکتے ہیں مگر
جناب عمران خان اور جناب طاہرالقادری کو اپنے مد مقابل برداشت نہیں کر سکتے
۔مولانا طاہرالقادری کی تحریک اس قدر جاندار تھی کہ تخت لاہور بھی لرز رہا
تھا مگر اب یہ حال ہے کہ
جل بھی چکے پروانے ،ہو بھی چکی رسوائی
اب خاک اڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی
لگتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی در پردہ ہاتھ ملا چکی ہیں اور اب یہ
دیکھنا ہے کہ دونوں پارٹیاں خان صاحب کو کہاں پہنچاتی ہیں۔ خان صاحب
دیانتداری کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور باقی سب بس چلتے رہنے پر یقین رکھتے
ہیں کیونکہ اسی چل چلاؤ کا نام تو انھوں نے ’’جمہوریت ‘‘ رکھا ہوا ہے ویسے
متحدہ اپوزیشن کاجلسہ کامیاب تو نہیں ہوا مگر خان صاحب کی سیاست پرسوال
چھوڑ گیا ہے ۔سبھی واقف ہیں کہ جناب شیخ رشید لگی لپٹی رکھے بغیر بولتے ہیں
مگر کوئی ان کی باتوں کو زیر بحث نہیں لاتا جبکہ خان صاحب اقتدار کی جنگ لڑ
رہے ہیں اور تبدیلی کا علم اٹھائے ہوئے ہیں ۔انھیں ایسی باتیں زیب نہیں
دیتیں ۔دوران تقریرشیخ صاحب نے پارلیمنٹ پر ’’لعنت ‘‘ ڈال کر زبانی مستعفی
ہونے کا اعلان کیا اور خان صاحب کو بھی دعوت دے ڈالی تو خان صاحب نے انھی
جذبات کے زیر اثر تائید کی کہ جو پارلیمنٹ ختم نبوت شق میں ترمیم کرے ، چور
کو منتخب کرے وہ واقعی لعنت کے قابل ہے بس مخالفین کو عدلیہ اور افواج
پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی بھول گئی بلکہ یہ بھی بھول گیا کہ ختم نبوت شق
کی تبدیلی پر جناب ظفر اﷲ خاں جمالی نے کیا کہا تھا۔؟ زرداری صاحب جو موقع
کی تاک میں تھے خورشید شاہ اور بلاول بھٹوکے ذریعے خان صاحب کے بیان کو
اٹھوا دیا کہ عمران خان کی زبان کی تیزی ماورائے قانون کیوں ہے ؟
حالانکہ زبان درازیوں کی داستان طویل ہے ۔۔ہم زیادہ دور نہیں جاتے چند ماہ
پہلے کی بات ہے کہ جناب خواجہ آصف نے جب پارلیمنٹ میں محترمہ شیریں مزاری
کو نا مناسب نام سے پکارا تھا تو الیکٹرانک میڈیا نے ایسا اچھالا تھا کہ
’’بیچارے ‘‘ خواجہ آصف کو نہ صرف شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ
تحریری معافی بھی مانگنی پڑی تھی مگر انھیں معافی نہیں ملی تھی کیونکہ
شیریں مزاری نے کہا تھا کہ ان سے براہ راست معافی مانگی جائے مگر خواجہ آصف
نے در خور اعتنا نہ سمجھا تھا بدیں وجہ میڈیا توکسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا
مگر اس لفظ کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے ۔ لیکن یہ صرف ایک بازگشت نہیں
ایسی ان گنت غیر اخلاقی مثالوں سے پارلیمنٹ کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ جس میں
خواتین پر فقرے کسنے ، آپس میں چپلوں ،تھپڑوں اور تھڑے باز فقروں سے برا
بھلا کہنا وغیرہ شامل ہے ۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور آج پھر کہتی ہوں کہ بر سرپیکار طبقہ تو زبان
کے وار کیاہی کرتا ہے مگر یہاں تو برسراقتدار طبقے کا آمرانہ ذہنی رویہ اور
ان کی پاکستان کے سب سے زیادہ قابل احترام ادارے عدلیہ اور افواج پاکستان
کے خلاف ہرزہ سرائی نے ہر کس و ناکس کو شش و پنج میں مبتلا کر رکھا ہے یہی
وجہ ہے کہ ملکی دانشور ، مبصرین اور صحافی حضرات روز و شب الیکٹرانک اور
سوشل میڈیا پر یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ میاں صاحب ’’ہتھ ہولا رکھو ‘‘
مگر میاں صاحب نے تو با بانگ دہل پھرکہہ دیا ہے کہ مجھے شیخ مجیب بننے پر
مجبور کیا جا رہا ہے اور وہ محب وطن تھا ۔ میاں صاحب کا یہ بیان سیاسی اور
سماجی حلقوں میں تشویش کا باعث ہے کہ میاں صاحب کے دوست اور آئیڈیل اسلام
دشمنی کا علم اٹھائے پھرتے ہیں اور مسلمانوں کے نا حق خون سے ان کے ہاتھ
رنگے ہیں ۔ایسے میں ملک و قوم کے استحکام کی ضمانت کون دے گا ؟ آج پاکستانی
سیاست اس مقام پر کھڑی ہے کہ کسی بھی قسم کی غلطی کی گنجائش نہیں ہے کہ
دشمنان پاکستان دھاک لگائے بیٹھے ہیں لہذا بہتری اسی میں ہے کہ رنجشیں بھلا
کر ملک و قوم کے لیے سب مل کر کام کریں بہرحال یہ خوش آئند ہے کہ معصوم
زینب سمیت آٹھ بچیوں کی عزتوں سے کھیل کر انھیں اذیت ناک موت دینے والا
سفاک درندہ گرفتار ہوا ہے اور نقیب اﷲ محسود کا قاتل بھی گرفتار ہو چکا ہے
حالانکہ اس کامیابی میں سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا نمایاں کردار ہے۔ یہ
وہ درندے ہیں جو اگر ابتدا میں ہی پکڑے جاتے تو بے شمار جانیں ضائع نہ
ہوتیں ۔اب خدا کرے یہ گنہگار جلد عبرت ناک سزا پائیں اور کیفر کردار تک
پہنچائے جائیں تاکہ ایسے لرزہ خیز واقعات رک سکیں ۔ |