کشمیر کی ابتدائی تاریخ اور جھیل ستی سر

کشمیرکی تاریخ کے حوالے سے اغیار کی منتشر الخیال اور پریشان کن مبالغہ آراء تحریر پڑھنے کے بعد دل ہی دل میں حقیقت کے قریب جانے اور صحیح تاریخ کی تلاش کا اضطراب بڑھنے کے ساتھ کچھ اشتیاق بھی بڑھتاجاتا ہے۔ کہ اس گلستان کی رعنائیوں،قدرتی حسن، بل کھاتی ندیوں ، دریاؤں اور خوبصورت جھیلوں کے ناز و انداز کو ایک وقت میں حسد کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ باغبان کی عدم توجہی اور عندلیبان سخن کی لاپرواہی کے باعث اس قدر و منزلت کو نئی نسل پر منتقل نہیں کیا جا سکا۔ اب ضروری ہے کہ دیدہ حسرت سے دو آنسو بہا کر کشمیر کے جاہ و جلال اور عظمت و رفعت کی جھلک دنیا کے سامنے رکھ دی جائے ۔

موجودہ دور میں اہل مغرب کے بلا تحقیق قیاس اظہار کو درست تسلیم کرتے ہوئے حقائق کو نظر انداز کرنا انصاف کا قتل عام ہے ۔ علم منطق اور علم تاریخ دو الگ علم ہیں ۔ علم منطق سے جھوٹے کو سچا ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن علم تاریخ کا فلسفہ مبالغہ آمیزی کو بھی مسترد کر دیتا ہے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اہل مشرق نے علم و آگہی کا زینہ اس وقت عبور کریں۔ جب اہل مغرب اس کی پہلی سیڑھی پر قدم جمائے ہوئے تھے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل مغرب کو ہمارے اسلاف کے حالات اہل مشرق کی نسبت زیادہ معلوم ہیں ۔ آج اہل مغرب اپنے زمانہ ترقی کو اس قدر شان و شوکت سے بیان کرتے ہیں ۔اور ایشیائی اقوام ؍ اہل مشرق خدانخواستہ آج نئی روشنی کا دور گرداب انقلاب کا حصہ ، موجودہ لٹریچر کے خاتمے کے ساتھ بنے تو وہ وحشی اقوام جو اس صدی میں دنیا کے دائرے میں داخل ہو رہی ہیں ، ترقی کے منازل طے کرنے کے کچھ عرصے بعد اس امر کی مدعی بن سکتی ہیں کہ دنیا کی ابتداء 1900ء سے ہی شروع ہوتی ہے گوکہ وہ اپنا دعویٰ صحیح ثابت کرنے کیلئے کافی وجوہات بیان کر سکتے ہیں لیکن اس دعویٰ کے برعکس قابل اعتبار شہادتیں ملنے کی صورت میں اصلاح کی گنجائش باقی رہ جائے گی ۔

وادی کشمیر ابتدائی دور سے ہی تاریخ ہند کی محتاج ہے ۔ محمد الدین فوق کے مطابق 3180ق م سے قبل کے کچھ حالات و واقعات ملتے ہیں لیکن ان واقعات کے آثار نمایاں نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ اسی وقت سے شروع ہوتا ہے جب خطہ کشمیر میں شخصی حکمرانی کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس سے قبل ہر گھر میں ایک بادشاہ ؍ حاکم موجود تھا ۔ خطہ کشمیر فلک پوش برفانی تودوں اور گھنے جنگلات کی سرزمین تھی اور جب برف کی شدت کچھ کم ہوئی تو پھر اس کے گردو نواح سے کچھ نوجوان سیر و تفریح کی غرض سے یہاں آئے ۔ اس کے بعد بھمبر ، راجوری، کاغان ، پکھلی ہزارہ سے کچھ چرواہے ؍ بکروال اپنے مال مویشی کے ہمراہ موسم گرما میں یہاں آئے اور سر سبز و شاداب چراگاہوں سے استفادہ کے بعد واپس لوٹ جاتے تھے ۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ جب لوگ تہذیب سے بالکل نا آشنا تھے اور وحشیانہ زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اپنا گزر بسر مال مویشی اور شکار پر کرتے تھے اور جنگی اسلحہ کے طور پر پتھر کی کلہاڑی اور ہتھیار استعمال کرتے تھے بعد میں تیر و ترکش کا بھی استعمال شروع کیا اور زراعت و غلہ بانی پر بھی انکسار کرنے لگے ، لیکن مستقل سکونت کے پابند نہ تھے۔ جہاں ہموار اور خوبصورت جگہ ملتی تھی وہی ڈیرہ ڈال دیتے تھے اور کھیتی باڑی شروع کر دیتے تھے۔ تین چار سال تک کہ عرصہ تک وہی رہتے اور جب زمین ہی فصل پیدا کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی تو وہاں سے کسی دوسری جگہ نقل مکانی کر لیتے تھے ۔ اس دور میں قوم یا قبیلے کا سردار ان کا حاکم ہوتا تھا لوگوں کے درمیاں اختلاف اور باہمی جھگڑوں کے خاتمے اور حل کیلئے قبیلہ کا سردار پنچایت جمع کر کے سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ کر فیصلہ کر تا تھا ۔

ایک مدت تک یہ دستور رہا ہے کہ خطہ کشمیر میں موسم گرما میں لوگ اپنے مال مویشی کو لے کر آتے اور موسم سرما میں واپس چلے جاتے تھے ۔ راج ترنگنی کے مطابق ایک دفعہ چرواہوں کے ایک گروہ نے واپسی پر چند را دیو نامی شخص کو ضعیف العمری کے باعث اپنی مرضی سے خوردونوش کی کچھ اشیاء دے کر واپس چلے گئے ۔ چندرا دیو ایک غار میں بیٹھ گیا برف باری کے باعث تمام راستے بند ہو گئے۔ تو دیو اور اجنہ جوق در جوق اس خطہ میں داخل ہو نے لگے اور وہاں پر خلاف معمول انسانی شکل کو دیکھ کر حیران بھی ہوئے اور اس کا تمسخر اڑانے لگے ۔ایک دیو علاقہ مراج اور دوسرا کامراج میں کھڑا ہو گیا اور چندرا دیو کو ایک دوسرے کی طرف پھینک کر کھیلنے لگے ۔ اتفاق سے چندرا دیو چشمہ نیل ناگ کے کنارے جا گرا جہاں ایک دروازہ دیکھتے ہوئے کھول کر اندر چلا گیا ۔ ایک عالیشان شہر دیکھ کر خوش ہوا لیکن عجیب و غریب مخلوق کو دیکھ کر پھر پریشان ہو گیا اور دربار میں بیٹھے راجہ نیلہ ناگ کے قدموں میں گر تے ہوئے تمام داستان سنا دی ۔ راجہ نیل ناگ کو اس ضعیف العمر چندرا دیو پر رحم آیا اور اس کو ’’نیلہ مت پوران ‘‘ کتاب دیتے ہوئے کہا کہ اس کو پاس رکھو کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا ۔ اس کے بعد چندرادیو صحیح سالم اپنے غار میں لوٹ گیا اگلے سال جب اس کے لواحقین دوبارہ کشمیر آئے تو چندرا دیوا کو تندرست پا کر حیران ہوئے ۔ چندرا دیو نے راجہ نیل ناگ کی سعی کے حوالے سے بتایا تو چندرا دیو کی قوم اور اس کے سردار دریا دیو نے’’ نیلہ مت پوران‘‘ کو اپنی مذہبی کتاب قرار دیا اور کشمیر میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ان لوگوں کے طرز معاشرت کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ملی صرف یہ پتہ چل سکتا ہے۔ کہ دریا دیو نے پہلے پہل کشمیر میں آبادی قائم کی ۔ کشمیر کا پہلا آباد کار چندرا دیو تھااور اس قوم کا سردار دریا دیو تھا اس کے بعد محمد دین فوق کے مطابق دسنہ نندن ، سورج ورما ، وشونگش اور پرتاب بھالو مشہور سردار گزرے ہیں جو اس وقت کی آبادی پر حکمرانی کرتے تھے ۔

اسی دوران راجہ رام چندر جی نے خطہ کشمیر کو فتح کرتے ہوئے اپنے مقبوضات میں شامل کیا راجہ رام چندر خود بھی کئی مرتبہ سیتا ، لچھمن اور ہنو مان کے ہمراہ کشمیر میں آیا۔ موضع می لیال کے علاقے ہری تحصیل اوتر لچھی پورہ میں رام چندر جی کا تخت اور رام کنڈ سیا کنڈ ، لچھمن کنڈ اور ہنومان کنڈ جیسے کئی مقامات ان کی نشست گاہوں کی یادگاریں ہیں ۔ جو اس زمانہ کی عظمت و رفعت کو بیان کرتی ہے ۔ آخر کار 3880ق م کو طوفان نوح نازل ہوا جس کے باعث تمام ملک میں پانی پانی ہو گیا ۔ بارہ مولا کے قریب ایک پہاڑ گرا اور مخرج آب بند ہوا جس کے نتیجے میں تمام آبادی غرق ہو گئی اور کشمیر نے ایک تالاب ؍ جھیل کی صورت اختیارکر لی ۔ جس طرح بری حالت میں یہ گل زمین رشک چمن تھی ویسے ہی بحری حالت میں کبھی یگانہ دہر ہوئی۔ اکثر رشی اور مہاتما اس کے کناروں پر آ کر عبادت کرتے تھے۔، جب ستی مہادیو کا گزر یہاں سے ہوا تو ان کی یہ جگہ بہت پسند آئی اور اکثر سیر و تفریح کے لیے یہاں آتے تھے ۔اس نسبت سے تالاب ؍ جھیل ـ’’ستی سر ‘‘کے نام سے مشہور ہوئیس ۔

AMAR JAHANGIR
About the Author: AMAR JAHANGIR Read More Articles by AMAR JAHANGIR: 33 Articles with 30403 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.