دن بھر آفس میں کام کرنے کے بعدتھکاوٹ محسوس ہونے لگی
توکچھ دیر آرام کی غرض سے ورکنگ ٹیبل پر سر رکھا اور اگلے ہی لمحے موبا ئل
کی گھنٹی بجنے لگی،بیزاریت سے موبائل اٹھاکر دیکھا تونیوز چینل کی سا تھی
سینئر خاتون صحافی محترمہ مرجان عظیم کی کا ل تھی،یکے بعد دیگر مسلسل کی
جانے والی چوتھی کال پر محترمہ سے با ت کرنے کا موڈ بناتو جو القابات سننے
کو ملے ان سے چہرے پر مسکراہٹ آ ہی گئی۔بحرکیف خیریت دریافت کرنے کے بعد
میں نے کال کرنے کی وجہ پوچھی تو میڈم نے بتایا کہ مکلی(ٹھٹہ)میں ہونے والی
پہلی مکلی عالمی کا نفرنس (جنوری)کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے اور ہم کل وہاں
جا رہے ہیں،میں نے یہ پوچھنے میں دیر نہ کی کہ ہم کون؟ تو جن دوستوں اور
ساتھیوں کے نام سامنے آئے ان میں معروف صحافی محترمہ کائینات،سمیہ،عظمی،اور
میرے قریبی دوست مصیب شال تھے وہ بھی میری طرح اس کانفرنس میں جانے کے
حوالے سے لاعلم تھے.اب یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر تھی کہ میں ان تمام
افراد کو مکلی کے سفر پر جانے کے لیے آمادہ کروں۔ میرے لیئے اس سے بڑٰی خبر
اور کیا ہو سکتی تھی کہ اتنے کم و قت میں مجھے مکلی کے سفر کی تما م تر
تیاریاں اکیلے ہی کرنی تھی۔رات ساڑھے دس بجے کے قریب گھر پہنچتے ہی مرجان
صاحبہ کو کال ملا ئی اور انکے مشورے سے کانفرنس گر وپ کال کے ذریعے باری
باری تمام دوستوں کو لائن اپ کیا،انتہائی پر جوش انداز میں گفتگو ہوتی رہی
کچھ دیر بعد میں نے بتایا کہ ہم سب کل صبح مکلی کے سفر پر جا رہے ہیں۔۔۔
میری زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہی سب چپُ ہوگئے سوائے میرے اور مرجا ن کے
ہم دونوں ہی ہیلو۔ہیلو۔ ہیلوکرتے رہے۔اچانک سے اک آواز کانوں کو سنائی دی
تو سکون کا سانس لیایہ آواز کا ئینات کی تھی جو کہہ رہی تھی
کہ،مرجان،عبدل(یعنی میں) رات کے گیارہ بج رہے ہیں صبح اتنی جلدی ہم کیسے جا
سکتے ہیں جبکہ کوئی تیاری نہیں؟اور اب گروپ کے ساکت کالرز میں بھی جان آگئی
گویا کہ انہیں کوئی یو نین لیڈر مل گئی ہو۔اس سے پہلے کے سفر کے لیے انکا
رکیا جا تا میں نے فورا کہا پریشانی کی کوئی بات نہیں مکلی جا نے کی تما م
تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔اسکے بعد کسی کے انکار کرنے کا بہانہ رہا، لہذا میں
اور مصیب ا اتوار کی صبح آٹھ بجے لیمارکیٹ(لیاری)ٹھٹھہ بس اسٹاپ پر مکلی کے
سفر پر روانگی کیلئے پہنچے لیکن اس دوران یہ بات ہم دونوں کے ذہن میں زرا
بھی نہیں آئی کہ ہماری ٹیم کے باقی ممبران خواتین ہیں اور خواتین کا وقت پر
پہنچنا کسی خواب سے کم نہیں سو گویا انتظار کرنے کے سوا کوئی اور چاہ نہ
تھا۔کچھ دیر انتظارکیا کھٹرے رہ کر سامنے دیکھا تو چائے کا ہوٹل نظر آیا
یوں چائے کی طلب ہونے لگی۔پرسکون ماحول میں چائے کی ُچسکی لیتے ہوئے میں
کافی غور سے لیمارکیٹ کی اس خوبصورت عمارت کو دیکھتا رہا جو کہ سامراجی دور
حکومت میں 1927 ٓ میں تعمیر کی گئی تھی۔تقریبا ایک گھنٹے کے طویل انتظار کے
بعد بالاآخر کورم پورا ہوا اور ہم تما م افرادٹھٹہ بس اسٹاپ پر موجود
روانگی کے لیئے تیار بس میں بیٹھ کر روانہ ہوئے۔اگلی سیٹھ پر بیٹھے ہوئے اک
باریش بزرگ پر میر ی نظر رُکی وہ بزرگ لال رنگ کی ٹوپی پہنے ہوئے تھے جو کہ
مشہور زما نہ شاعر اکبر الہ آبا دی پہنا کرتے تھے انہی کا خیا ل اور عکس
میرے ذہن میں آیاا ور انکا کہا ہوا یہ شعرسفر کی مناسبت سے بلند آواز میں
پڑھا۔
س دھاے شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھے گے
وہ دیکھے گھر خدا کا ہم خدا کی شا ن دیکھے کے
چونکہ ہم ٹھٹھہ جانے والی مسافر بس کے ذریعے مکلی جا رہے تھے اور رزمرہ
بنیاد پر ٹھٹھہ پہنچنے تک ان مسافر بسوں میں لوگوں کا مختلف اسٹاپ پر چڑھنے
اور اترنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ادھیڑ عمر ڈرائیور نہ جانے کس غم میں
ساٹھ کی دہائی کے گانے سنتا رہا اور ہمیں مسافر ہونے کی وجہ سے ڈرائیور
انکل کے غم میں مجبورا شریک ہونا پڑا۔ اور اسی دوران دیسی لوکل یا پھر
حکیمی ادویات بیچنے والوں سے بھی سامنا ہوتا رہا۔زبان پر گرفت او ردیسی
ادویات کی مارکیٹنگ کے ُگھر سے و اقف یہ افراد اس پر اعتماد ی اور ڈھٹائی
کے ساتھ بس میں موجود لوکل افراد کو یہ باور کرانے اورخودساختہ ادو یات
خریدنے پر آمادہ کر جاتے ہیں کہ یہ پانچ روپے میں دستیا ب پھکی(چورن)گرودں
سے پتری منٹوں میں گارنٹی کے ساتھ ختم کر سکتی ہے۔یہ رٹے رٹائے جملے سن کر
ہم آپس میں ہنستے رہے لیکن ہماری ہنسی اس وقت حیرت میں تبدیل ہوئی جب یہ
چورن ماسوائے ہمارے بس میں موجود تمام افراد خرید چکے۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ
کڑوی زبا ن والے کا شہد بھی نہیں بکتا اور میٹھی زبان والے کی مر چیں بھی
بک جاتی ہیں۔ سفر چلتا رہا اتنے میں بس کنڈیکٹر کی آواز سنائی دی جو چلا
چلا کر کہ ر رہا تھا مکلی مکلی مکلی۔۔۔ بس کی کھڑکی سے باہر گاؤں،دیہات کا
سر سبز نظارہ بہت ہی حسین ا ور دلکش تھا سر سوں کے زرد ر نگ کے پھول جسکی
وجہ سے سارا کا سارا کھیت ہی زرد دکھائی دے رہا تھا اور میں من ہی میں یہ
سوچنے لگا کہ کا ش کچھ دیر یہاں ٹھرجاؤں اور اس دھرتی میں بسی مٹی کی خوشبو
سونگھ لوں، میں اس دل فریب نظارے میں کہیں کھو سا گیااور محسوس کرنے لگا کہ
شاید میں بھی اس مٹی کا حصہ ہوں َ میر ی سوچ کا محور اس وقت مکلی کی سرزمیں
تھی جسکی ٰمٹٰی میں ولی،صوفی شاعر، بزرگ شیخ جمالی اور اس خطے و تاریخ کےء
وہ اشخاص دفن ہیں جنکا نام رہتی دنیا تک جاوداں رہے گا۔ |