ٹیکنالوجی دن بدن ترقی کررہی ہے انسانی ذہن کی صلاحیتوں
کا یہ عملی نمونہ ہے انٹرنیت نے دنیا میں دھوم مچا رکھی ہے جہاں کہیں کچھ
بھی ہو جائے اور کسی بھی وقت ہو جائے دنیا جہاں کے کونے کونے میں بیٹھے
ہوئے انسان کو اس تک رسائی حاصل ہے اور ہر کوئی آج کے جدید مواصلاتی نظام
کے ذرئعے باخبر رہتا ہے کہا جاتا ہے کہ جب سڑکیں بنتی ہیں تو اس سے
مواصلاتی نظام ترقی کرتا ہے اور ایک دوسروں کے روابط میں آسانی اور اضافہ
ہوتا ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت بھی ہے پہلے پہل جب جدید اور موثر راستوں کا
فقدان تھا تو لوگوں کی مشکلات بھی زیادہ ہوا کرتے تھے لیکن جب سے اس میں
بہتری آئی ہے لوگ بھی با سہولت ہوگئے ہیں یہی حال انٹر نیٹ کا بھی ہے اس کی
وجہ سے انسان نے ہر علم تک رسائی حاصل کرلی ہے تو دوسری طرف دنیا کے کسی
جگہ سے باخبر رہنے کے لئے مفید ہے فیس بک ،وٹس ایپ اور اسی طرح کے باقی
سوشل میڈیا پر لوگ تقریبا چوبیس گھنٹے مصروف رہتے ہیں اس پر اپنے خیالات کا
اظہار بھی کیا جا سکتا ہے اور دوسروں سے با آسانی رائے بھی لی جا سکتی ہے
لیکن آج ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں ہمیں گو نا گو ں مسائل درپیش
ہے اور ان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اب چاہئے تو یہ کہ ان مسائل کی طرف توجہ
دلانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے اور ان سے کام لیا جائے
کیونکہ یہ وسائل ہیں کہ ان کے ذرئعے ہم مسائل کا حل ایکدوسرے سے شئیر کر
سکتے ہے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ آج ہماررا نوجوان بجائے اسکے کہ اس
ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے خود پر ترقی کے دروازے وا کرے خود اس کے ذرئعے
ضائع ہو رہا ہے کبھی تو کہیں سے کوئی تصویر آجاتی ہے تو اس پر لائک اور
کمنٹس دیتے ہوئے آج کا نوجوان نہیں تکتا تو کبھی کسی اور ایسے مسلے میں
الجھ جاتا ہے کہ وہ خود اور معاشرتی مسائل بھول کر محض بے مقصد وقت ضائع
کررہا ہوتا ہے اسی طرح وٹس ایپ کا بھی بہترین استعمال کیا جا سکتا ہے اگر
ہم صرف سوچ کر اسکا استعمال کرے کیونکہ اس پر ہم پیغامات بھیج سکتے ہیں یہ
پیغامات محض تفریح اور بے مقصد ہونے کے علاوہ با مقصد بھی ہو سکتے ہیں اس
کو ہم علم کے لئے بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن کھبی کبھار تو ایسا لگتا ہے
جیسا کہ اسکے پیچھے کسی کا ہاتھ ہو جو اس کا استعمال کرکے اصل مسائل سے بے
توجہی کے لئے مختلف طرح کے نئی چیزیں متعارف کررہا ہے کھبی تو اس پر اپنے
مستقبل کے بارے کوئی پیغام اپنی ایک تصویر کے ساتھ شیئر کرنا ہوتا ہے تو
کھبی کوئی اسی طرح کا کوئی اور چیز متعارف کرایا جاتا ہے اور ہوتا بھی یہی
ہے کہ اس نئی ایپ کو لوگ استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں اور کچھ عرصے تک
اسکا خوب استعمال ہو جاتا ہے پھر جب لوگ اس سے تنگ آجات ہیں یا اکتا جاتے
ہیں تو اسی طرح کا کسی اور چیز کا سوشل میڈیا پر تعارف کرادیا جاتا ہے اور
اس پر لوگوں کو لگا دیا جاتا ہے ۔۔پشتو کا ایک مشہور قول ہے کہ۔۔خر ھغہ دے
کتہ ئے بدلہ دہ۔۔مطلب کہ گدھا وہی ہے صرف اسکے لئے ترپال تبدیل کیا گیا
ہے۔۔اور یہی حال آج سوشل میڈیا پر چل رہا ہے سب کچھ وہی ہوتا ہے لیکن ایک
اور چھوٹا سا مسئلہ کے طور پر کچھ پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر انسان کو
اسی کی فکر لگ جاتی ہے اور اسی طرح ایک اور دن گزر جاتا ہے اب آج کے ہر
نوجوان کو یہ شعور حاصل ہونا چاہئے کہ اسکے ارد گرد کے ماحول میں کیا کیا
خرابیاں ہیں اور اسکا حل کسطرح نکالنا ہے صرف یہ نہیں بلکہ ان مسائل کے حل
کے لئے اسکی ذمہ داریاں کیا بنتی ہے اور اسے خود کو کسطرح کام کرنا چاہئے
تاکہ ترقی و کامرانی نصیب ہو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر ایک روشن
مستقبل بنایا جا سکے |