کسی بھی شخص کا غصہ میں آجانا، آپے سے باہر ہوجانا عام سے
بات ہے۔ لیکن کسی بھی پڑھے لکھے ،اعلیٰ تعلیم یافتہ، مقدس پیشے سے
وابستہ،سینٹ جیسے اعلیٰ ادارے کا رکن ہونا۔ اہم حکومتی عہدہ پر براجمان،بڑی
اور بر سرِ اقتدار سیاسی جماعت کے اہم رکن کوجذبات سے کھیلنا، آپے سے باہر
ہوجانا، جو منہ میں آئے بک دینا، نہ چھوٹے کا لحاظ نہ بڑے کا ادب، نہ اپنی
عزت کا خیال نہ اپنے بیوی بچوں کی شرم ساری کا پاس، اقتدار، اختیار، کرسی
نے گویا آپ زکو دنیا سے ماورا کردیا ، جس کو جو چاہیں جو کچھ کہیں، کھلے
عام کہیں، جلسہ عام میں کہیں، پریس کانفرنس میں کہیں کوئی ڈر نہیں کوئی خوف
نہیں ، بس اپنی بات ، اپنی سوچ، اپنے مفاد ، اپنے لیڈر ، اپنی جماعت ہر چیز
پر مقدم رکھنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو مسلم لیگ نون کے نہال ہاشمی
کا سپریم کورٹ کے ہاتھوں ہوا۔30 سال سے وکالت کے پیشے سے وابسطہ شخص عدالت
اور معزز ججوں کی عزت و توقیر کو جس قدر سمجھتا بوجھتا ہے عام آدمی نہیں۔وہ
اگر عدالت کی توہین کا مرتکب ہوایا اس کے حواس جاتے رہے۔وہ کسی کے اشاروں
پرسب کچھ کررہا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے۔ دوسروں کے لیے زمین تنگ کردینے
والے آج کہاں کھڑے ہیں؟ کس لیڈر نے جاکر آپ کی گوہی دی ، کس نے آکر ساتھ
دیا، کون کورٹ میں آپ کا گواہ بنا،عدالت سے آپ کو تھانے پھر اڈیالہ
پہنچادیا گیا کون آپ کے ساتھ تھا، کس نے آپ کے آنسوں پونچھے، کسی نے نہیں،
کیوں ؟جن کا دم بھرتے تھے وہ اس روز کراچی میں ہی تھے، جیسے سنا تھا دوڑے
چلے جاتے تمہارے گھر، بچوں کو تسلی و تشفی دینے، لیکن نہیں۔کیوں؟ اس لیے کہ
آپ کا عمل ہی ایسا تھا۔ آپ نے جو کچھ کیا اس کاپھل آپ کو ملنا ہی تھی ۔
یعنی ایک ماہ قید، 50ہزار روپے جرمانہ اور 5سال کے لئے پارلیمنٹ کی رکنیت
کے اہل نہیں رہے۔ ابھی تو آپ کے ساتھ رعایت کی گئی ، ہاتھ ہولا رکھا عدالت
نے کیوں ؟ اس لیے کہ آپ گزشتہ تیس سال سے وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں، عمر
آپ کی ساتھ سے زیادہ ہوچکی ہے، یعنی بزرگ شہری بھی ہیں اور یہ کہ آپ نے غیر
مشروط معافی بھی مانگ لی تھی۔ قبلہ من نہال ہاشمی صاحب ایک ماہ قید بہت
زیادہ نہیں، آپ کاٹ ہی لیں گے آسانی سے ، 50ہزار کی رقم آپ کے لیے کچھ بھی
نہیں ، یہ تو کسی ایک کلائنٹ سے لی جانے والی فیس بھی نہیں ، البتہ پانچ
سال رکن اسمبلی تو کیا سینیٹر بھی نہیں ہوسکتے۔ یہ تما م سزائیں کچھ بھی
نہیں اصل چیز ہوتی ہے انسان کی عزت، وقار، آبرواگر یہ چلی جائے تو گویا
زندگی بھر کی کمائی چلی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ
سیاست میں تو یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ جی ہاں سیاست میں یہ سب کچھ ہوتا ہے، لیکن
اس کا انجام بھی برا ہی ہوتا ہے بقول میر تقی میرؔ
پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
تو قبلہ نہال ہاشمی صاحب نون لیگ سے عاشقی میں عزت سادات بھی چلی گئی۔
سیانے کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آپ پر ہلکا ہاتھ رکھ، ورنہ
جو کچھ آپ نے فرمایا ، جو انداز آپ کا تھا ، جس مقام و مرتبہ کے لوگوں کے
لیے آپ نے وہ الفاظ اور بیانیہ جاری فرمایا تھا اس کی سزا زیادہ بنتی ہے،
کم از کم تا حیات سیاست سے نا اہلی تو بنتی ہی تھی۔ نہال ہاشمی کے توہین
عدالت کا فیصلہ ایک جانب تو موصوف کو ایک ماہ کے لیے جیل ، جرمانہ اور پانچ
سال کی نا اہلی ہے تو دوسری جانب ایک پیغام ہے، نصیحت ہے، انتباہ ہے،تنبہی
ہے ،متنبہ کرنا ہے ،درس ہے، نوشتہ دیوار کو پڑھ لینا چاہیے کہ اے نہال
ہاشمی جیسی زبان اور عمل کرنے والوں متوجہ ہوجاو ، نصیحت پکڑ لو، خیال کر
لو، ہر چیز سیاست نہیں ہوتی، ہر بات کہنے کی نہیں ہوتی ، بسا اوقات تمہارے
حق میں نہیں ہورہا ہوتا تب بھی تمہیں اخلاقیات کا، ادب و آداب کا لحاظ
رکھنا چاہیے۔ میرؔ کے بقول عاشقی میں اتنے آگے نہ نکل جاؤ کے عزت سادات بھی
چلی جائے نہال ہاشمی کی طرح۔سپریم کورٹ کے معزز جسٹس آصف سعید کھوسہ نے
فیصلے میں قرار دیا کہ ’اگر عدالت کے جج دل کے صعیف یا کمزور ہیں اور اگر
انہیں زبانی تضحیک یا کھلے عام دھمکیوں سے خوفزدہ کیا جاسکتا ہے تو پھر
مدعا علیہہ نہال ہاشمی نے یقیناًدرست کوشش کی ہے تاہم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
اس (نہال) یا جن کی اس نے تقلید کرنا چاہی یا جن کو خوش کرنے کی کوشش کی وہ
انسان شناسی میں انتہائی کمزور ہیں‘‘۔ادارے اہم ہوتے ہیں، ان کی عزت و
توقیر ہر صورت میں لازم ہوتی ہے، لمحہ موجود کی سیاست کا رخ کچھ اسی جانب
رواں دواں ہے، اوپر سے نیچے تک ایک زبان، ایک لہجہ ، ایک گھسی پٹی بات ،
گویا ڈھول ہے کہ پیٹے چلے جارہے ہیں۔ توہین عدالت کے مرتکب ہونے والے سمجھ
رہے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، جو زبان استعمال کر رہے ہیں، جس قسم کا
لہجہ ان کا دکھائی دے رہا ہے وہ متعلقہ اداروں سے مخفی ہے ، انہیں دکھائی
نہیں دے رہا ۔ نہیں ایسا ہر گز نہیں، ا س کا اندازہ چیف جسٹس آف پاکستان کے
حالیہ ایک ریمارکس سے کر لینا چاہیے جس میں انہوں نے کہا کہ’ جب ہم توہین
عدالت کا نوٹس لیں گے تو دنیا دیکھے گی‘۔ اس ایک جملے میں کیا پیغام ہے، ہر
کوئی سمجھ رہا ہے لیکن کچھ سمجھنا نہیں چاہتے، محسوس کر رہے ہیں لیکن ظاہر
نہیں کرنا چاہتے ،وجہ یہ ہے کہ گھر کا بڑا ، بزرگ آپے سے باہر ہوجائے، اسے
سوائے اپنی ذات کے کچھ اور سجائی ہی نہ دے، اُسے صرف اپنی کرسی کی فکر ہو،
الفاظ اور جملے جو سربراہ استعمال کرے گا اس کے درباری اس کی پیروی کریں
گے، اس وقت یہی کچھ ہورہا ہے۔ یہ سلسلہ شروع ہوا نواز شریف کی نا اہلی
سے۔جس پر نواز شریف کے ساتھی آپے سے باہر ہوگئے ان میں سے ایک نہال ہاشمی
بھی تھے۔ اس وقت مَیں نے ایک کالم ’’نہا ل ہاشمی ‘فارغ‘ کے عنوان سے لکھا
تھا۔ اس لیے کہ نہال ہاشمی کو ان کے بیان پر ان کے لیڈر نے فارغ کردیا تھا۔
اس سے قبل پرویز رشید ، طارق فاطمی، راؤتحسین کو قربانی کا بکرا بنایا گیا
تھا، یہ ہے ان درباریوں کی وقعت ۔ کراچی سے تعلق اور پنجاب سے سینیٹر منتخب
ہونے والے نہال ہاشمی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں تمام حدود عبور کر
گئے تھے۔ایک دکنی محاورہ ہے کہ’’آسمان پو تھوکے تو اپن پوچ گرتا‘‘ ۔ دکنی
کے اس محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جو غصہ میں آپے سے باہر
ہوجاتا ہے اور آسماں کی طرف منہ اُٹھا کر تھوکتا ہے۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں
معلوم کہ یہ تھوک خود اس کے منہ پر گرے گا۔ غصہ کی کیفیت میں نہال ہاشمی نے
کیا کہا تھا ۔وہ کراچی میں کسی تقریب میں مدعو تھے وہاں انہوں نے جوش خطابت
میں تقریر کی اس میں وہ سب کچھ بھول گئے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، اس کے
اثرات کتنی دور تک جائیں گے۔ آپے سے باہر، جذبات سے لبریز، غصب ناک کیفیت
،ماتھے پر شکنیں، آنکھیں بند، اگر کھلی ہوئی ہوتیں تو انگارے برسارہی
ہوتیں، اچھل کود کی کیفیت ، لگ رہا تھا کہ وہ زمین پر نہیں بلکہ مولٹی فوم
کے آٹھ انچ کے گدے پر کھڑے ہوکر دشمن سے مخاطب ہیں۔ فرمایا ’شریف فیملی کا
حساب لینے والوں کو چھوڑیں گے نہیں‘ ، ’ آج حاضر سروس ہو کل ریٹائر
ہوجاؤگے‘،’ ہم تمہارے بچوں اور خاندان کے لیے پاکستان کی زمین تنگ کردیں
گے‘۔ نہال ہاشمی نے میاں صاحب کے تمام درباریوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا ، ان
کا خیال ہوگا کہ وہ ایسا کرکے درباریوں کی صف میں اول نمبر پر پہنچ جائیں
گے۔ پر ایسا نہ ہوا۔یہاں سے بھی نکالے گئے اور اب عدالت نے بھی کہیں کا نہ
چھوڑا ۔ غالب ؔ نے کہا تھا
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا
تماشہ بنا یا تھا خود تماشہ ہوگئے۔ دھمکی آمیز تقریر 28مئی2017ء کو کی تھی
جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے 31مئی کو از خود نوٹس لیا تھا، تین رکنی بنچ
جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل
تھا، 24جنوری2018کو سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا تھا، جمعرات
یکم فروری2018ء کی صبح 2-1 سے آیا،فیصلہ 10صفحات پر مشتمل ہے ، جسٹس دوست
محمد نے اس سے اختلاف کیا ، وہ فیصلے میں خاموش رہے اور ذاتی وجوہ کی بنا
پر کوئی رائے نہیں دی۔ فیصلے کے بعد احاطہ عدالت سے نہال ہاشمی کو پولیس
تھانے پھر انہیں اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔پریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سو
موٹو تو بعد میں لیا ان اپنی پارٹی میں ان کے اس اقدام کی سخت مذمت کی گئی،
ان کے اپنے لیڈر نے جس کی حمایت میں انہوں نے یہ سب کچھ کیا تھاپارٹی سے ان
کی بنیادی رکنیت ختم کردی، ان سے سینٹر کی حیثیت سے استعفیٰ لے لیا جو بعد
میں واپس لے لیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کی جانب سے انتہائی
تیز رفتاری سے نہال ہاشمی کے خلاف اقدامات کیے گئے تھے۔سپریم کورٹ نے بھی
سو موٹو لیا، اگلے دن موصوف کی پیشی سپریم کورٹ میں ہوئی۔ دھاڑتا، آگ
برساتا شیرعدالت میں بکری بنا نظر آیا، میری توبہ میری توبہ کر رہا تھا۔
کہا ’’میں حالت وضوع میں ہوں کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ کسی ادارے کو دھمکی
نہیں دی ہے، میں روزے سے تھا ، خواب میں بھی توہین عدالت کا نہیں سوچ
سکتا،میں نے اپنی تقریر میں کسی ادارے کو تنقیدکا نشانہ نہیں بنایا تھا
بلکہ عمومی طور پر بات کی تھی، میں اپنے کہے پر شرمندہ ہوں اور عدالت سے
معافی کا طلب گار ہوں، اس لیے امید ہے کہ عدالت مجھے معاف کر دے گی‘‘۔ شیر
کی ساری شیری جاتی رہی، گیدڑ بھپکی ہوا ہوگئی۔ عدالت میں ان کی معافی قبول
نہیں ہوئی اور انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہوا، اب وہ اپنے کیے کی سزا
بھگتیں گے، جیسا پہلے کہا ، ایک ماہ جیل، پچاس ہرزار جرمانہ ، پانچ سال کے
لیے پارلیمنٹ کی رکنیت کے بھی اہل نہیں ہوں گے۔ ان سب سے بڑھ کر زندگی بھر
کے لیے آپ ایک مثال بن گئے۔ تاریخ میں آپ کو اسی نام سے یاد کیا جائے گا۔
بظاہر یہ ایک شخص کے خلاف فیصلہ ہے لیکن عدالتی توہین مسلسل ہورہی ہے ، یہ
نوشتہ دیوار ہے اسے سمجھ جانا چاہیے اور اپنی حکمت عملی پر غور ضروری ہے۔
عدالت ار فوج ریاست کے اہم ، محترم اور اعلیٰ ادارے ہیں ان کی قدر و منزلت
ہر صورت لازم ہے۔ سیاست اور اقتدار آنی جانی چیزیں ہیں۔ |