مشہورمزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب میں تحریر
کیا ہے کہ لفظوں کی جنگ میں فتح چاہے کسی فریق کی ہو لیکن شہید صرف سچائی
ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں تو مذکورہ بالا تبصرہ ایک تلخ
حقیقت کا آئینہ دار دکھائی دیتا ہے۔ اپنی بات کو درست ثابت کرنے اور اپنے
مخالف کو ہر صورت زیر کرنے کی دُھن میں یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ
ہمیں اپنے ہر قول اور فعل کا جواب ایک دن اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں پیش
کرنا ہے جس کی ذات سینوں میں چھپے رازوں سے بھی بخوبی واقف ہے۔لیکن برا ہو
اس ’’میں‘‘ کا جس کے زعم میں آ کر انسان سب کچھ فراموش کر بیٹھتا ہے اور
انجام کار قدرت کے آہنی شکنجوں میں پھنس کر نمونۂ عبرت بن جاتا ہے۔
مملکت خداداد پاکستان میں ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی بحث اخبارات و رسائل
اور میڈیا کے مختلف چینلوں پر چھڑی رہتی ہے۔ اس سرگرمی کا غیر جانبدارانہ
تجزیہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں دکھائی دیتی ہے کہ مختلف
افراد اور ادارے اپنی غلطی جسے غلطی کہنا بھی ایک جرم محسوس ہوتا ہے ، کو
کھلے دل سے تسلیم کرنے کے بجائے تجزیوں اور تبصروں کی ایک ایسی لا حاصل جنگ
چھیڑ دیتے ہیں جس کاعموماََ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اخبارات اور چینلز اپنے
اپنے مؤقف کے دفاع میں یوں سرگرمِ عمل رہتے ہیں جیسے ابتدائے آفرینش سے ان
کا مقصدِ حقیقی اپنے مخالفین کی سرکوبی ہے ، خواہ اس عظیم مشن کی تکمیل کے
لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔
کسی اہم ملکی یا بین الاقوامی واقعہ پر مختلف افراد یا اداروں کی رائے اور
نکتۂ نظر میں اختلاف ہو سکتا ہے اور ہر ایک فریق کے پاس اپنے مؤقف کے حق
میں دلائل بھی موجود ہوتے ہیں۔ رائے کا یہ تضاد عموماََ لوگوں کی مختلف
ذہنی استعداد اور ذاتی رجحان کے باعث وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری امر
ہے مگر خرابی تب پیدا ہوتی ہے جب کوئی فردِ واحد یا ادارہ اپنے مالی منفعت
کی خاطر یا کسی بیرونی دباؤمیں آکر اپنی رائے اور رجحان کو سب پر مسلط کرنے
کی کوشش کرتا ہے ۔ عہدِ حاضر کی اصطلاح میں مسابقت یا ریٹنگ کی دوڑ میں آگے
بڑھنے کے لئے میڈیا سے منسلک افراد ہر قسم کے ذرائع بناکسی احتیاط کے
استعمال کرتے ہیں۔پھر ایک دوسرے کی مخالفت اور کاٹ میں جھوٹے سچے الزامات
کی بوچھاڑ بھی اسی دوڑ کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اب رہ گئی بیچاری عوام تو
اس کی عقل اسی فکر میں جواب دے جاتی ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ جو
واقعہ رونما ہوا ہے اس کے پسِ پردہ حقائق وہی ہیں جو میڈیا کی آنکھ سے
دکھائی دے رہے ہیں یا اصل کہانی کچھ اور ہے؟ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بالآخر
نتیجہ وہی نکلتا ہے جس کا ذکر ہم اپنی تحریر کے آغاز میں کر چکے ہیں کہ
لفظوں کی اس جنگ میں شہادت کے مرتبے پر فائز صرف سچائی ہوتی ہے۔
مذکورہ بالا صورتحال کے پیشِ نظر سوچنا یہ ہے کہ کسی ناپسندیدہ واقعہ پیش
آنے کی صورت میں کیا اس کی ہر ممکن مخالفت کرنا مناسب امر ہے یا اجتماعی
طور پر ایک مربوط و منظم لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے؟ ضابطۂ اخلاق کی
پابندی ہر کس و ناکس پر واجب العمل ہے یا من پسند افراد اور اداروں کو
استثناء حاصل ہے ؟ہمارے پاس وہ کون سا معیار یا کسوٹی ہے جس پہ ہم اپنے
طرزِ عمل کو پرکھ سکتے ہیں ؟
اگر اس حوالے سے شریعتِ مطہرہ سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو دین
سے ناواقف حضرات کی زبانوں پر اکثر یہ محاورہ رہتا ہے کہ ملّا کی دوڑ مسجد
تک محدود ہے۔لیکن ملّا بچارہ بھی کیا کرے کہ اُسے اپنی عاقبت عزیز ہے۔ اُسے
جب اپنے ہر مسئلہ کا حل اور ہر پریشانی سے نجات اسلام کے دامنِ عافیت میں
نظر آتی ہے توپھر کیا ضرورت پڑی ہے کہ اغیار کی بغلوں میں گھسا جائے۔ یہ
بات ببانگ دہل کہی جا سکتی ہے کہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی ہماری تما م
مشکلات سے نجات اسلام کی زندہ و تابندہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے پر منحصر
ہے۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جو دلائل و براہین کی محتاج نہیں۔ آفتاب کی
کرنوں سے دن منور ہو تو اس کی حاجت نہیں ہوتی کہ رات کے خاتمہ کا اعلان کیا
جائے۔ مثل مشہور ہے کہ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔
بات نکلی تو بہت دور تلک جائے گی مگر سر دست ہمارا مقصد نبی اکرم حضرت محمد
ﷺ کے ان ارشاداتِ گرامی کو نقل کرنا ہے جو موجودہ حالات و واقعات میں ہمارے
لئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر ٹھنڈے دل سے ان کا مطالعہ کیا جائے
تو ان احادیث کی روشنی میں ہم باآسانی اپنے لئے راہِ عمل تلاش کرسکتے ہیں۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جو بات سنے اسے
آگے بیان کردے۔(مسلم)
2۔حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کی بات کی بدبو کی وجہ سے ایک
میل دور چلا جاتا ہے۔ (ترمذی)
3۔سفر معراج میںآپﷺ کا گزرا یک ایسی جماعت پر ہوا جن کی زبان اور ہونٹ لوہے
کی لمبی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے۔(لیکن صورتحال اتنی بھیانک تھی کہ)اِدھر
ہونٹ اور زبان کٹے ، اُدھر درست ہو گئے اور پھر دوبارہ کٹ گئے۔ یہ خوفناک
عذاب ان پر مسلسل ہو رہا تھا ۔ آپ ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت
کیا: ’’یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا:’’ یہ فتنہ
و فساد پھیلانے والے خطباء و مقررین ہیں۔‘‘ (دلائل النبوۃ للبیہقی)
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ جس نے بات کہنے کے مختلف انداز اس لئے سیکھے کہ اس کے ذریعہ
لوگوں کے دلوں کو قید کرے( یعنی لوگوں کو اپنا معتقد اور قائل بنائے) اﷲ
تعالیٰ قیامت کے دن اس سے نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔(ابو داؤد)
5۔ایک مرتبہ حضورِاقدس ﷺ نے حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ کو چند باتیں بتائیں، پھر
آخر میں فرمایا کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتلادوں جس کے ذریعہ ان سب چیزوں
پرقابو پا سکو گے(جو پہلے ذکر ہوئیں)۔ حضرت معاذرضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا
رسول اﷲ ﷺ ضرور ارشاد فرمائیے۔اس پر آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا کہ اس
کو اپنے حق میں مصیبت سے روکنا۔انہوں نے کہا کہ اے اﷲ کے نبی ،کیا ہمارے
بولنے پر بھی گرفت ہوگی؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے معاذ تم بھی عجیب آدمی
ہو،لوگوں کو دوزخ میں منہ کے بل اوندھا گرانے والی جو چیزیں ہوں گی وہ ان
کی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیاں ہی تو ہوں گی۔( ترمذی)
6۔حضرت سعید بن زیدرضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا
کہ بلاشبہ سب سے بڑے سود میں سے یہ بھی ہے کہ ناحق کسی مسلمان کی آبرو
(ریزی)کے بارے میں زبان دراز کی جائے۔(ابو داؤد)
7۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم حضرت محمد ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ بدترین آدمی اس شخص کو
پاؤ گے جو دنیا میں دو چہرے والا ہے ۔ اِن لوگوں کے پاس ایک منہ سے آتا ہے
اور اُن لوگوں کے پاس دوسرا منہ لے کر جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
8۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ مومن طعنہ دینے والااور لعنت بکنے والا اور فحش باتیں کرنے والا
اور بے حیا نہیں ہوتا۔(ترمذی)
مذکورہ بالا روایاتِ حدیث کو سامنے رکھا جائے اوراس ترازو پر اپنے اقوال و
افعال کا وزن کیا جائے تو حسرت وندامت کی انتہا نہیں رہتی۔آج ہمارے سیاسی
جلسے جلوس ہوں یا فرقہ وارانہ تقاریر، کثیر الاشاعت اخبارات کے مایہ ناز
لکھاری ہوں یا مشہور و معروف ٹی وی چینل کے جہاں دیدہ تجزیہ کار، ہر سمت
دروغ گوئی اور غلط بیانی کا ایک سیلاب رواں دواں ہے جس کی تباہ کاریوں کی
زد میں آکر ہمارے دینی و دنیاوی، معاشی و معاشرتی، انفرادی و اجتماعی اقدار
سب تہہ و بالا ہو چکی ہیں۔کسی کی عزت و عصمت کی پاسداری ایک خواب پارینہ
ہوتی جا رہی ہے ۔یہ نامناسب رویہ رفتہ رفتہ ملک کو خانہ جنگی کی مہیب دلدل
کی جانب دھکیل رہا ہے۔یہ بد اعمالیاں جیتے جی زندگی کو جہنم بنا رہی ہیں۔
ان کی نحوست سے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ بری طرح بکھر چکا ہے۔ خدارا ’’ذرا
سوچیے ‘‘ اور انجام پر بھی ایک نگاہ ڈالئے ورنہ جس دن آنکھ بند ہوگی در
حقیقت اُسی دن آنکھ کھلے گی اور پھر سوائے یاس کے دامن میں کچھ آس نہ ہوگی۔
|