بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تحریر: قاضی کاشف نیاز
پاکستانی قوم 1990ء سے 5فروری کویوم یکجہتی کشمیر کے طورپر مناتی آرہی
ہے۔اب تک یہ28واں یوم یکجہتی ہے۔شروع میں جب اس یوم یکجہتی کاآغازکیاگیا
توحکومتی اور عوامی سطح پر بھارتی مظالم کے خلاف کشمیریوں کے ساتھ قلبی
ولسانی اورذہنی وعملی طورپر مکمل ہم آہنگی اورپورے جوش وخروش کاسماں
تھالیکن وقت کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر خصوصاً یہ جوش وخروش مدہم پڑنے لگا۔
یوں لگتاہے کہ حکمرانوں نے جیسے صرف عوام کے زبردست دباؤ کی وجہ سے یہ دن
منانا شروع کیااور اب صورتحال یہ ہے کہ سرکاری سطح پر کم ازکم اس دن کی
حیثیت ایک رسمی دن سے زیادہ نہیں رہی۔اس کاثبوت یہ ہے کہ سال میں جب یہ دن
آتاہے توحکمران کشمیریوں کے حق میں بڑی زوردار اوربلندآہنگ باتیں کرتے
ہیں۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور بڑے بڑے سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں اور
کشمیراسمبلی میں جاکربھارت کوللکارا جاتاہے اوربھارتی مظالم کے خاتمے اور
کشمیر کی آزادی کے لیے خون کے آخری قطرے تک کشمیریوں کی ہرطرح کی حمایت
جاری رکھنے کا اعلان کیاجاتاہے لیکن جوں ہی یہ ایک دن گزرتاہے‘اگلے دن ہی
کشمیرکانام تک لینے والوں پرپابندیاں لگاناشروع کردی جاتی ہیں بلکہ ان کی
گرفتاریاں اور نظر بندیاں تک شروع کردی جاتی ہیں اورکشمیرکے نام پرفنڈ جمع
کرنے والوں پر بھی پابندیاں لگ جاتی ہیں۔یہاں تک کہ کشمیرکے نام لیواؤں کو
دہشت گرد تک قرار دے دیاجاتاہے۔دورجانے کی ضرورت نہیں۔اس کی واضح ترین مثال
پاکستان میں کشمیرکی آزادی کے سمبل‘کشمیریوں کے محسن پروفیسرحافظ محمدسعید
اوران کی جماعت جماعۃ الدعوۃاورفلاح انسانیت فاؤنڈیشن (FIF) پر گزشتہ
چندسالوں سے جاری حکومتی ''نوازشات'' ہیں۔ گزشتہ سال جب 5فروری کی آمد سے
پہلے امیرجماعۃالدعوۃحافظ محمدسعید نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے مظلوم
کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے 2017ء کاسال کشمیرکے نام
کرنے کااعلان کیا توہماری بھارت نواز سرکار صرف اتنااعلان بھی ہضم نہ
کرپائی اور بھارتی وامریکی دباؤ پرانہیں اوران کے چارجانثار رفقاء
کونظربندکردیاگیا۔ جماعۃ الدعوۃ اورفلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو بھی چھ ماہ تک
واچ لسٹ میں ڈال کر کشمیر کے نام پرفنڈنگ بھی بندکرادی گئی۔ تقریبا نو ماہ
بعد حافظ محمدسعید کے چار رفقاء کو اور10ماہ بعدحافظ محمدسعید کوان کے خلاف
کوئی ثبوت نہ ہونے پرپہلے ہائی کورٹ کے حکم پر رہاکردیاگیا۔اب ایک بار
پھرجب5فروری قریب آنے لگا اورحافظ محمدسعید نے مظلوم کشمیری بھائیوں کے
ساتھ اپنی کمٹمنٹ اوراٹوٹ وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے 2018ء کوبھی کشمیرکے
نام کرنے اور2سے11فروری تک خصوصی طورپر پورا عشرہ کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ
یکجہتی کے طورپرمنانے کااعلان کیاتوایک بار پھر حکومت بھارتی وامریکی
دباؤکے آگے ڈانواں ڈول ہونے لگی ہے۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف جب ہمارے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی سے
جیو کے اینکرسلیم صافی نے سوال کیا کہ آپ حافظ محمدسعید کے خلاف کوئی
کارروائی کیوں نہیں کرتے؟تو انہوں نے یہ کلمۂ حق کہا کہ ''حافظ سعیدصاحب کے
خلاف پاکستان میں کوئی کیس نہیں۔ اس لیے ان کے خلاف کوئی کارروائی کیسے
ہوسکتی ہے''ان کا کہنا تھا کہ بھارت ‘ امریکہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت
دیں توتب ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوسکتی ہے۔ ہم وزیراعظم کے بیان کا
بھرپور خیرمقدم کرتے ہیں لیکن دوسری طرف انہیں اس کے تقاضے بھی پورے کرنے
چاہئیں تاکہ بیان اورعمل میں تضاد نہ ہو۔ انہوں نے حافظ سعید کانام بھی ''حافظ
سعید صاحب ''کہہ کرلیا۔اس پرانڈین میڈیانے بڑی چیخ وپکار کی کہ پاکستان کا
پردھان منتری 'ایک آتنک وادی کو ''صاحب'' کہہ کر کیوں مخاطب کررہاہے۔ویسے
انڈین میڈیا چیخ وپکارکرتے ہوئے اپنے گھرمیں جھانکنااورجھاڑوپھیرنا بھول
گیا۔ جب 17دسمبر2012ء کو انڈیا کے اس وقت کے وزیرداخلہ سوشیل کمارشندے (Sushilkumar
shinde)نے پارلیمنٹ میں حافظ محمدسعید کوشری حافظ سعید یعنی جناب حافظ سعید
کہہ کر مخاطب کیاتھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ توایک مومن مجاہد کارعب ہے جو اﷲ
تعالیٰ نے کافرکے دل میں بھی ڈالاہے اور پھروہ حقائق بھی اچھی طرح جانتے
ہیں کہ حافظ سعید کسی قسم کی کوئی دہشت گردی نہیں کر رہے بلکہ وہ پوری
دنیاخصوصاً پاکستان میں فلاح انسانیت کا ہی کام کر رہے ہیں۔ خود تھر میں ان
کے اپنے ہندو بھائی بند حافظ محمدسعید کے اس عظیم کردار کی گواہی دیتے رہتے
ہیں جہاں حافظ سعیدح اور ان کی جماعت جماعۃالدعوۃ اورفلاح انسانیت فاؤنڈیشن
نے پانی سے محروم لاکھوں ہندؤوں کے لیے سینکڑوں کنویں اورواٹرپروجیکٹس مکمل
کیے ہیں۔زلزلہ2005ء میں بھی ان کے شاندار کردار اور خدمات پراپنے پرائے سب
معترف ہیں۔ وہ دل سے جانتے ہیں کہ جو شخص بلاامتیاز سب انسانوں کی خدمت
کرتاہو'ایساشخص دہشت گرد ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے تو ان کی زبان سے ان کے
دل کی بات بے ساختہ ادا ہوجاتی ہے اور وہ حافظ محمدسعید کی شدید مخالفت کے
باوجود ان کانام احترام سے لینے پرمجبور ہوجاتے ہیں اور جہاں تک ہمارے
وزیراعظم محترم شاہدخاقان عباسی کا انہیں حافظ سعیدصاحب کہناہے توہم سمجھتے
ہیں کہ وہ غلطی سے 'اتفاق سے یانادانستاً نہیں کہہ رہے بلکہ پورے شعور
اورخلوص کے ساتھ کہہ رہے ہیں' مسئلہ صرف اتناہے کہ جوبات وہ دل وجان سے
مانتے ہیں کہ حافظ سعید دہشت گرد نہیں بلکہ وہ کشمیریوں اورانسانیت کے خادم
ومحسن ہیں تواپنی اس کھری بات پرقائم بھی رہیں اور اس کے تقاضے بھی پورے
کریں اور اس سلسلے میں اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان اور
کشمیر کے عظیم ترمفاد میں ہرطرح کے بھارتی وامریکی دباؤ کومسترد
کردیں۔ایسانہیں ہوناچاہیے کہ وہ ایک طرف توکہیں کہ حافظ سعید کے خلاف کوئی
ثبوت نہیں اور کوئی کیس نہیں'دوسری طرف امریکی وبھارتی دباؤ پر حافظ
محمدسعید ،جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف اقدامات بھی
جاری رکھیں۔ اس سے یقینا پاکستانی اور کشمیری عوام پر حکمرانوں کے بارے میں
منفی پیغام جائے گا اوریہ تاثر پختہ ہوگا کہ موجودہ حکمران نوازشریف کی
انڈیا نواز غلامانہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں جودنیا کی ایک بڑی ساتویں
ایٹمی اسلامی طاقت کے وقار کے منافی ہے۔ حکمرانوں کو یہ بھی یاد رکھناچاہئے
کہ ہمارے دشمن کاہدف صرف حافظ سعید اور ان کی جماعت نہیں بلکہ ہماری فوج 'ہمارا
ایٹمی پروگرام اور پورا ملک ان کے ہدف پرہے۔ اگرہم ان کاایک مطالبہ مانیں
گے تو وہ اسی طرح مزید ڈومور کہتے رہیں گے اوریہ سلسلہ پہلے کی طرح بڑھتاہی
جائے گا۔ ہاں ہمارے حکمران ایک دفعہ اﷲ پر بھروسہ کرتے ہوئے استقامت کے
ساتھ کھڑے ہوجائیں تودنیاکی کوئی طاقت اﷲ کے فضل سے پاکستان کا بال بھی
بیکا نہیں کرسکتی۔ 5فروری منانے کاتقاضا بھی یہی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر
اوراس کے نام لیواؤں کاڈٹ کردفاع کیاجائے نہ کہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار
کیاجائے۔ اس وقت جبکہ کشمیر میں بھارتی مظالم عروج پرہیں'کشمیریوں کوکبھی
درندہ شکن پیلٹ گنوں اورمرچی بموں سے ماراجارہاہے توکبھی اس سے بھی زیادہ
ہلاکت خیزہتھیاروں سے ان کاآئے روز قتل عام کیاجارہاہے' صرف 1999ء سے اب تک
17سالوں میں ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کوشہید کیاجاچکاہے۔ 7099 حراستی
ہلاکتیں ہوئی ہیں'143048 کشمیریوں کوجیلوں میں ڈالاجاچکاہے۔ 22862 کشمیری
عورتیں بیوہ ہوچکی ہیں ' 107,676 بچے معذور ہوچکے ہیں جبکہ 11036 عورتوں کے
ساتھ گینگ ریپ اور عصمت دری کے واقعات ہوچکے ہیں لیکن بھارتی فوج کے ان
وحشیانہ مظالم کے باوجود کشمیری عوام نے ہمت نہیں ہاری۔ جموں کشمیر کاوہ کو
ن ساگوشہ ' قریہ اور چوک ہے جہاں کشمیری مسلمان اپنی جانیں داؤ پرلگاکر
پاکستانی پرچم نہیں لہرارہے' وہ یہ سب کچھ اسلام اورپاکستان کے لیے کررہے
ہیں۔ہماری ہی بقاء اورہمارے ہی دریاؤں کی واگزاری کے لیے وہ یہ سب قربانیاں
دے رہے ہیں' ہم ان قربانیوں کی قدرنہ کریں گے توبھارت نہ صرف کشمیرکی تحریک
کوختم کردے گا بلکہ وہ ہمارے دریاؤں پرمزید درجنوں ڈیم بناکر پاکستان کو
بھی صحرا بناکرخاکم بدہن ختم کردے گا۔ اس وقت سے پہلے ہمیں اٹھنا اور بیدار
ہونا ہو گا۔ خصوصاً ہمارے حکمران آنکھیں کھولیں اورتحریک آزادی کشمیر اور
اس کے نام لیواؤں کا کسی بھی دباؤ کی پرواکیے بغیر پاکستان کی بقاء کے لیے
بھرپور ساتھ دیں۔
اﷲ ہم سب کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین |