اصل بت

نہال ہاشمی کو اپنے کیے کی سزا مل گئی مگرروایتی بزدل سیاستدانوں کی طرح وہ جیل پہنچتے ہی دل کی تکلیف میں مبتلا ہوکرجیل ہسپتال کے بیڈ پر پہنچ گئے جہاں سزا یافتہ مجرم نے بڑے سکون سے رات گذاری اور جیل حکام موصوف کی خدمت میں مصروف رہے ہماری جیلیں اس حوالہ سے تو پہلے ہی مشہور ہیں کہ پیسے سے جیل کو بھی دنیا کی بہترین آرام گاہ بنایا جاسکتا ہے اکثر جرائم پیشہ افراد اپنے آپ کو جیل میں زیادہ محفوظ اور آرام دہ سمجھتے ہیں کیونکہ ہمارے کرپٹ اور دیمک زدہ نظام نے جیلوں کو جرائم کی یونیورسٹیاں بنا رکھی ہیں جہاں ایک معمولی چور جرائم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن کر باہر نکلتا ہے اس وقت پنجاب کی جیلیں کرپشن میں کسی بھی ادارے سے کم نہیں ہیں یہاں قیدیوں اور حوالاتیوں کو کام پر لگانے اور ہٹانے کے پیسے لیے جاتے ہیں ایک بار سے دوسری بارک میں جانے کے پیسے ہیں زیادہ آرام دے اور پرسکون زندگی کے لیے ہسپتال داخل ہونے کے الگ سے پیسے ہیں ملاقات سے واپسی پر جو کچھ جیب میں ہوتا ہے وہ جیل حکام خود ہی نکال کر اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں اور جواپنی مرضی سے انکی مٹھی میں کچھ نہ کچھ تھما دیتے ہیں وہ بغیر تلاشی کے ہی چلے جاتے ہیں اور جو وی آئی پی قیدی ہوتے ہیں یعنی پیسے کھلانے والے جیل حکام ڈھونڈڈھونڈ انکی خدمت کرتے ہیں اور اگر کوئی حکومت کا قیدی جیل میں آجائے تو پھر پوری جیل اسکی خوش آمد میں لگ جاتی ہے پھر شکاریوں کو انکا شکار مل جاتا ہے قیدی کو اپنی خوش آمد اور خدمت کے لیے جیل ملازمین اور قیدی جبکہ قیدیوں اور جیل ملازمین کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے اور پھر دونوں اپنی اپنی خواہش کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں جہاں کوئی بھی کام ناجائز نہیں رہتایوں مل جل کر دونوں جیل میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے ہیں اور رہی بات جیل حکام انکی تعیناتیوں سے لیکر من پسند ڈیوٹی لگوانے تک کیا کچھ ہوتا ہے بارک سے لیکر پوری جیل کا ٹھیکہ کتنا اور کس کے پاس جاتا ہے اس پر تفصیل پھر کبھی آج صرف اس ابتدا کی بات کرونگا جسکے بعد ایک لمبی لائن لگنے والی ہے ابھی تو ایک نہال ہاشمی کی باری آئی ہے جسکے بعد بہت سی بڑی بڑی مچھلیاں پڑی ہوئی ہیں جو آئے روز اپنی زبان سے عدلیہ مخالف تقریریں کرنے میں مصروف ہیں موصوف طلال چوہدری جو کل تک چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الہی کا ڈھول بجاتے نہیں تھکتا تھا نواز شریف کے سایہ تلے آیا تو اپنی سب وفاداریاں نااہل کے ساتھ جوڑ لیں اور گذشتہ روز اپنے گھر میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ عدالتوں میں بت ہیں عجیب بات ہے کہ جو بھی حکومت میں آجاتا ہے اسے اپنے سوا باقی سب بت ہی نظر آتے ہیں یہاں تک کہ اسے منتخب کرنے والے اس کے حلقہ کے ووٹر بھی بعد میں بت ہی بن جاتے ہیں جو ہر بری بات کو بڑے اچھے انداز میں برداشت کرکے اپنے نمائندے کا ساتھ نہیں چھوڑتے جن کی وفاداریوں کو دیکھ کر بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے پاکستان کو آج تک اپنا ملک سمجھا ہی نہیں ہم اسکے قانون کو توڑتے ہیں ،اداروں کو مذاق بناتے ہیں اپنے گلی محلوں کو گند سے بھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ذہنوں کو بھی صاف نہیں کرسکے اورجو چند ایک لوگ ملک کی خاطر اپنا آپ داؤ پر لگا کر کچھ کرنا چاہتے ہیں ہم انہیں بھر پور تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں سیاستدان اور انکے ساتھ جڑے ہوئے لوگ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ملک میں بہتری آئے کیونکہ ہمارے سیاستدانوں نے آج تک ملک کو لوٹا بیرون ملک اربوں روپے کی جائیدادیں خریدی اپنے بچوں کو باہر کاروبار کروایا اور خود مزید لوٹنے کے لیے پاکستان آجاتے ہیں وہ اپنی چکنی باتوں سے ہمیں بیوقوف بناتے ہیں کبھی ووٹ سے ،کبھی زوراور کبھی مک مکا سے حکمران بن جاتے ہیں اور انکے ساتھ وفاداری کی قسمیں کھانے والے مفاد پرست لوگ وقت آنے پر کسی جونک کی طرح ملک کے اداروں کو چمٹ جاتے ہیں جتنے بھی انکے نمک خوار ہوتے ہیں وہ بغیر کسی میرٹ،تعلیم اور قابلیت کے مختلف اداروں کے سربراہ بن جاتے ہیں ان میں سے چند ایک کو تو عدالت نے کان سے پکڑ کر نکال دیا اور بہت سے ابھی تک قبضہ جمائے ہوئے ہیں ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے جو الیکشن میں اپنی پارٹی ٹکٹ خرید کر اسمبلیوں میں آتے ہیں اصل میں بت تو یہ لوگ ہیں جو اپنے پارٹی قائد کے کسی بھی جرم اور گناہ پر زبان نہیں کھول سکتے انکے کسی بھی فیصلے سے اختلاف نہیں کرسکتے معاف کرنا اختلاف کرنا تو بہت دور کی بات ہے یہ مٹی کے مادھو بیچارے اپنے قائد سے مل نہیں سکتے اگر کسی جلسہ ،میٹنگ یا اجلاس میں پہنچ بھی جائیں تو اپنے قائد سے سلام نہیں لے سکتے اپنی حکومت کے کسی بھی برے کام کو چیلنج نہیں کرسکتے ہاں البتہ اپنے مفادات کے لیے برے حکمرانوں کے دفاع کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں مٹی کے بت اسمبلیوں میں بیٹھ کر قوم کا وقت اور پیسہ دونوں برباد کررہے ہیں جن جن کا انکے ساتھ مفاد وابستہ ہے وہ بھی انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ہم سب نے ملک اور قومی اداروں کو ایک مذاق بنا رکھا ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پیپلز پارٹی دور میں ایک وزیر رحمن ملک ایک اجلاس میں جب سورۃ اخلاص کی تلاوت فرمانے لگے تو انہیں وہ سورۃہی نہیں آئی حالانکہ قران مجید میں یہ سب سے چھوٹی سورۃ ہے مگر ہم نے حکمرانوں کی تمام تر نالائقیوں کے باوجود برداشت کیا انہیں انکی تمام تر ملک دشمنیوں اور لوٹ مار کے باوجود برداشت کیا مگر ہمارے حکمران اور سیاستدان ہمارے اداروں میں بیٹھے ہوئے گنتی کے چند ایک افراد کو برداشت کرنے کو تیار نہیں کبھی انہیں انکے بچوں کے حوالہ سے ڈرایا جاتا ہے تو کبھی ان سے انتقال لینے کی باتیں کی جاتی ہیں طلال چوہدری صاحب آپ نے جنہیں بت کہا ہے اصل میں وہی ملک کا اثاثہ اور حقیقی پاکستان کا چہرہ ہیں رہی بات بتوں کی ان میں آپ سمیت وہ سب لوگ شامل ہیں جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے قائد کے سامنے انکی ہر برائی پر منہ پر تالے لگا کر خاموشی سے تماشا دیکھ رہے ہیں ۔

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612408 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.