چکوال کی سیاست: چہ مگوئیاں اور سرگوشیاں

اگرچہ حلقہ پی پی 20 کا ضمنی الیکشن گزر چکا ہے۔ نومنتخب ایم پی اے چوہدری سلطان حیدر علی خان نے حلف بھی اُٹھا لیا ہے مگر سیاسی ماحول ابھی بھی گرم ہے۔ جس جگہ بھی جائیں چند سوالات ایسے ہیں جو کہ مسلسل زیر بحث ہیں۔ آمدہ عام انتخابات میں حلقہ این اے 60 کا ٹکٹ کس کو ملے گا، کیا مسلم لیگ (ن) کے اُمیدوار سردار غلام عباس ہی ہوں گے یا پھر موجودہ ایم این اے میجر (ر) طاہر اقبال کو ٹکٹ ملے گا، ان کے مدمقابل کون ہو گا۔ اگر چوہدری ایاز امیر کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ مل جاتا ہے تو پھر گھمسان کا دنگل پڑے گا۔ اگر ان کو ٹکٹ نہیں ملتا تو راجہ یاسر سرفراز کیا مسلم لیگ (ن) کے لئے ترنوالہ ثابت ہوں گے۔ اگر میجر (ر) طاہر اقبال کو ٹکٹ نہیں ملتا تو پھر کیا وہ ’’اڈاری‘‘ مار جائیں گے اور اگر سردار غلام عباس کو ٹکٹ نہیں ملتا تو کیا وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو ٹکٹ مل جاتا ہے تو کیا جس کو ٹکٹ نہیں ملتا کیا وہ کسی اور جگہ ایڈجسٹ ہو جائے گا یعنی سینیٹر شپ یا پھر کسی کمیٹی کا چیئرمین بنا دینا اور کیا وہ ایم این اے سے نیچے خود کو راضی کر پائے گا اور کیا حلقہ این اے 60 اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں کسی قد آور شخصیت کو الیکشن لڑایا جائے یعنی میاں محمد شریف خاندان سے کوئی الیکشن لڑے اور کیا صوبائی اور قومی قیادت تمام مقامی قائدین کو ایک بار پھر اعتماد میں لینے میں کامیاب ہو جائے گی اور کیا یہ سب ’’بغض و عناد‘‘ سے پاک ہو کر ایک دُوسرے کی انتخابی مدد کریں گے اور انتخابی مہم چلائیں گے۔ سردار غلام عباس نے تو دو ضمنی الیکشن حلقہ پی پی 23 اور پی پی 20 کا الیکشن پُرخلوص انداز میں لڑا اور اپنے ووٹرز کو پابند کیا کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ووٹ ڈالیں۔ اگر سردار غلام عباس کو این اے 60 کا ٹکٹ مل جاتا ہے تو کیا (ن) لیگ کا ووٹ بینک بھی اُن کو پڑ جائے گا، کیا (ن) لیگ کا ووٹر اُسی خلوص کا مظاہرہ کرے گا جس کا سردار غلام عباس کے ووٹرز نے کیا۔ ایسے بے شمار سوالات ہیں جو چکوال کی سیاست میں زیر بحث ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک بڑی جماعت ہے اور جتنی بڑی جماعت ہوتی ہے اتنے ہی بڑے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ یقینا ان کے پاس ٹکٹ لینے والوں کی ایک لمبی قطار ہے چونکہ ان کو معلوم ہے ’’شیر‘‘ کا نشان ہی کامیابی کی ضمانت ہے مگر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ دینے والی کمیٹی یقینا ہر قومی اور صوبائی حلقے پر بھرپور نظر رکھتی ہے اور یقینا اُن کو معلوم ہے کہ کون سے اُمیدوار کے پاس کتنا ووٹ بینک ہے اور اُس کا ذاتی ووٹ بینک کتنا ہے۔ حلقے میں سیاسی اثر و رسوخ کتنا رکھتا ہے اور اس کا جماعت کو کتنا فائدہ ہو گا۔ ان تمام باتوں کو ملحوظِ خاطر ر کھتے ہوئے ٹکٹ دیا جاتا ہے اور جس دن ٹکٹ دیا جائے گا اُسی روز چہ میگوئیاں اور سرگوشیاں بھی دم توڑ جائیں گی۔ ابھی یہ کھیل شروع ہوا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ اتنا تو ضرور پتہ ہونا چاہئے کہ چکوال مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے اور یقینا یہاں پر کسی بھی اُمیدوار کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے اتنی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر مقابلہ مسلم لیگ (ن) کا مسلم لیگ (ن) سے پڑ گیا تو پھر اس کا فائدہ پی ٹی آئی اُٹھائے گی اور وہ یقینا اسی طاق میں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔

Javed Iqbal Anjum
About the Author: Javed Iqbal Anjum Read More Articles by Javed Iqbal Anjum: 79 Articles with 56355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.