یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو دنیا بھر میں منانے کامطلب
اقوام عالم اور اقوام متحدہ کو 1949ء کی 5 جنوری کی قرارداد کی یاد دلانا
ہے جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کشمیر کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ
منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کے ذریعے کریں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ
الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ لیکن بدقسمتی سے ہندو بنیا جو ہمیشہ سے
مکار اور چالال رہا ہے نے 1949 میں پاکستانی فوج اور غیور پٹھانوں ودیگر
مسلمانوں کی جنگ آذادی جوکہ کشمیر کے حصول کے لئے کامیابی سے جاری تھی کو
روکنے کے لئے اقوام متحدہ کا سہار ا تولے لیا لیکن آج تک قرارداد کے مطابق
کشمیریوں کو طے شدہ حق خودارادیت دینے کو تیار نہیں ہے ایک طرف تو اقوام
متحدہ کی قرارداد کی پاسداری نہیں کی جارہی دوسرے بھارتی افواج کشمیریوں پر
مسلسل ظلم وستم جاری رکھے ہوئے ہے سات لاکھ کے قریب بھارتی فوجی درندے
مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں 67 سال پہلے کی اقوام متحدہ کی منظور
شدہ قرار دادپر آج تک بھارت کی ہٹ دھرمی ،جارحیت اور اقوام عالم کی سرد
مہری ،مسلمان دشمنی کے سبب آج تک عمل نہیں ہوسکا لیکن کشمیریوں نے بے
سروسامانی کے باوجود سات لاکھ کی مسلح،جارح فوج کے خلاف اپنی جدوجہد آذادی
کو جاری رکھا ہوا ہے جس میں اب تک وہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کی
قربانی دے چکے ہیں ۔بھارتی حکومت اس کی فوج اور کشمیر کی کٹ پتلی حکومت کا
ہر حربہ کشمیروں کو منانے میں ناکام ہوچکا ہے ۔اب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے
کہ خود بھارت کے اندر سے دانشور ،صحافی کشمیریوں کی جدوجہد آذادی کے علاوہ
ان پر ہونے والے ظلم وستم کا رونا رورہے ہیں ۔گزشتہ دنوں ایک بھارتی خاتون
پروفیسر نے ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ
نہیں ہے کشمیریوں کو حق خود ارادیت کے ذریعے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ فیصلہ
کریں گے ۔وہ اپنا الحاق پاکستان یا بھارت کس کے ساتھ چاہتے ہیں ۔گزشتہ دنوں
کشمیری لیڈر یٰسین ملک نے انڈین ٹی وی پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا
کہ ہم کشمیریوں کی آذادی چاہتے ہیں ۔کشمیریوں کی تحریک ان کی اپنی جنگ
جدوجہد آذادی ہے ۔کشمیریوں کو یہ حق دینا ہوگا کہ وہ یہ فیصلہ کریں گے وہ
آذاد ملک کی حثیت سے رہنا چاہتے ہیں یاوہ دونوں ملکوں میں سے کسی ملک کے
ساتھ الحاق چاہتے ہیں ۔اسی طرح شیخ عبداﷲ کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبداﷲ سے
ایک پروگرام میں سوال کیاگیا کہ آپ ڈاکٹر بنے لیکن آپ کی ڈاکٹری کا م نہ
آئی آپ کشمیر میں بڑھتی ہوئی آگ کو بجھانے کا کوئی علاج نہ کرسکے تو انہوں
نے کہا کہ علاج میں نے نہیں حکومت نے کرنا ہے حکومت کے اقدامات آگ کو بھڑکا
رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد اسلام کی نہیں کشمیر کی ہے
حریت لیڈر میر واعظ عمر فاروق نے بھارتی اخبار میں ایک مضون میں لکھا کہ
بھارت اور پاکستان کشمیر کے تنازع کو بات چیت سے حل کریں گے تو کشمیریوں کو
فائدہ ہوگا لیکن جب بھارت یہ پوزیشن لیتا ہے کہ ہم نے تو کشمیر پر بات ہی
نہیں کرنی ہے اگروہ اہم اور اصل کشمیر کے مسئلہ پر گفت وشنید کو تیار ہی
نہیں ہیں تو پھر کشمیریوں کی جدوجہد بھی جاری رہے گی اور پاکستان بھارت
تنازعات بھی ختم نہیں ہوں گے ۔کشمیریوں کی جدوجہد کے لئے پاکستان تو ہمیشہ
سے اپنے مسلمان بھائیوں کی اخلاقی ،سفارتی امداد کرہی رہا تھا اب انڈیا کے
سکھ بھی مسلمانوں کے ساتھ اس جدوجہد میں شامل ہوگئے ہیں ۔وہ خالصتان کی
جدوجہد کے ساتھ ساتھ کشمیر کی آذادی اور انہیں5 فروری 1949 کے اقوا م متحدہ
کی قرار داد کے مطابق حق خود اداری دینے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔دنیا بھر
خصوصاًبرطانیہ ،امریکہ ،کینڈا ،فرانس وغیر ہ میں پاکستانی ،کشمیریوں کے
ساتھ ساتھ وہاں پر مقیم سکھ بھی انڈین سفارتخانے کے باہر مظاہروں میں شریک
ہیں ۔بھارتی ظلم وستم ،ٹارگٹ کلنگ وقتل وغارت ،عصمت دری کے بڑھتے ہوئے
واقعات کی طرف اقوام عالم کی توجہ مبذول کروانے میں مصروف ہیں ۔کشمیریوں کی
جدوجہد جو کہ بے سروسامانی کی حالت میں پتھروں سے لڑی جارہی ہے میں وقت کے
تیزی نے کشمیری کٹھ پتلی حکومت کو پریشان کررکھا ہے ۔وزیر اعلی کشمیر
محبوبہ مفتی کے مطابق 2016 میں 8500 افراد کو سنگ باری کی پاداش میں حراست
میں لیاگیا ۔ان کے مطابق 2008 سے 2017 تک سنگ باری کے مختلف مقدمات میں
9730 افراد کے خلاف مقدمات کو وآپس لیا جارہا ہے تاکہ کشمیریوں کے زخموں پر
مرہم رکھا جاسکے لیکن کشمیری اب آذادانہ طور پر عید بقر عید ،14 اگست ،15
اگست ،23 مارچ ودیگر اہم قومی دنوں پر کالجز ،سکولز ،جلسے ،جلوسوں میں
پاکستانی جھنڈا لہراتے ہیں اورپاکستان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں ۔1990 سے
ابتک چالیس ہزار کشمیری افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے آدھے عام شہری ہیں
جبکہ بھارتی تحویل میں کیے گئے قتل کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔سینکڑوں کی تعدا
دمیں مسلمان ربڑ گولیوں کے استعمال کے باعث اپنی بینائی سے محرو م ہوچکے
ہیں ۔معاشی ،اقتصادی ،کاروباری لحاظ سے آئے روزکی ہڑتالوں نے بھارتی مقبوضہ
کشمیر کو بہت کمزور کردیاہے۔بھارت وپاکستان دونوں ایٹمی طاقتوں کو چاہئے کہ
وہ اپنے اختلافات خصوصاًکشمیر تناؤ کو گفت وشنید کے ذریعے حل کریں ۔بھارت
کسی طرح سے بھی کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کو دبا نہیں
سکتا ہے ۔پاکستانی حکومت،فوج اور یہاں کی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کو بہتر
بنانے کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کے تمام تر سفارتخانے جو کہ دنیا بھر میں
قائم ہیں میں موجود سفارت کاروں کو بھی کشمیری کا ذ کی اصل تصویر اقوام
عالم تک پہنچانے کے لئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لانا ہوں گے ۔کشمیریوں
نے آذادی کی جدوجہد کی جو لازوال تحریک کو اپنی بے مثال قربانیوں سے جنم
دیا ہے۔وہ انشاء اﷲ ایک دن ضرور کامیابی حاصل کرے گی ۔ |