بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ خود ہی دہشت گردی اور تخریب
کاری کی وارداتیں کرکے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی بدترین تاریخی
تسلسل رکھتی ہے۔ یہ الگ بات کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جلد یا بدیر
جھوٹ بے نقاب ہو کر بھارتی ڈراموں کو فلاپ اور ناکام کردیتا ہے۔ ایسا ہی
ممبئی حملے کے حوالے سے پاکستانیوں نے نہیں بلکہ ایک جرمن صحافی نے
کردکھایا۔ بات کچھ یوں ہے کہ امریکا نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ پاکستان
ممبئی حملوں کے ذمہ داروں خاص کر حافظ سعید کے خلاف کارروائی کرے، ٹرمپ کی
ٹویٹ کے بعد پاک امریکا تعلقات میں جوخلیج پیدا ہوئی ہے اس کے تناظر میں
دیکھا جائے تو ممبئی دہشت گرد حملوں کے معاملے پر بھارت کی زبان بولنے کے
امریکی طرز عمل میں چند ہفتوں سے تیزی آنے کی وجوہ کو سمجھنا کوئی مشکل
نہیں۔مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ممبئی حملوں کو لے کر پاکستان کو دبا میں
لانے کے پرانے حربے کو پھر سے استعمال کرنے کے غبارے سے ہوا خود بھارت میں
شائع ہونے والی تحقیقاتی کتاب Betrayal of India Revisiting the 26/11
Evidence نے ہی نکال دی ہے۔ ممبئی حملوں سے متعلق ہوش ربا انکشافات اور
حقائق پر مبنی تجزیے پر مشتمل یہ کتاب بھارتی پبلشر فروز میڈیا، نیو دہلی
کی شائع کردہ ہے۔ مصنف معروف تحقیقاتی صحافی ایلیس ڈیوڈسن کی، جن کا تعلق
یہودی مذہب اور جرمنی سے ہے، غیرجانبداری نے سامنے لائے گئے حقائق کو مصدقہ
اور قابل بھروسہ بنا دیا ہے۔2017 میں سامنے آنے والی اس کتاب میں یہ ثابت
کیا گیا ہے کہ دہلی سرکار اور بھارت کے بڑے اداروں نے حقائق مسخ کیے،
بھارتی عدلیہ انصاف کی فراہمی اور سچائی سامنے لانے کی اپنی ذمہ داری پوری
کرنے میں ناکام رہی۔ ممبئی حملوں کے مرکزی فائدہ کار ہندو انتہا پسندو قوم
پرست رہے کیوں کہ ان حملوں کے نتیجے میں ہمنیت کرکرے اور دوسرے پولیس
افسران کو راستے سے ہٹایا گیا۔ انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ ساتھ نہ صرف
بھارت بلکہ امریکا اور اسرائیل کے کاروباری، سیاسی اور فوجی عناصرکو بھی
اپنے مقاصد پورے کرنے کیلئے ان حملوں کا فائدہ پہنچا جب کہ صحافی ایلیس
ڈیوڈسن اپنی تحقیقات میں اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ ممبئی حملوں کا پاکستانی
حکومت اور فوج کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
مصنف ایلیس ڈیوڈسن کی تحقیقات کے مطابق ممبئی دہشت گرد حملوں کے حقائق
چھپانا بھارتی سیکیورٹی و انٹیلی جنس اداروں کی نااہلی نہیں بلکہ منصوبہ
بندی کے تحت حقائق میں جان بوجھ کر کی گئی ہیرا پھیری تھی۔ اس کیس کی
عدالتی کارروائی بھی غیرجانبدار نہیں تھی بلکہ اہم ثبوت اور گواہوں کو
نظرانداز کیا گیا۔تحقیقاتی صحافی کے نزدیک ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی و
عمل درآمد کی سازش میں بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا اور اسرائیلی کردار بھی
پنہاں ہے۔ مصنف نے ممبئی حملوں کو خفیہ آپریشنز طرز کے حملے قرار دیا جس سے
یہ تاثر قائم کیا گیا کہ بھارت کو دہشت گردی سے مستقل خطرہ ہے۔ اس سے بھارت
کو دہشت گردی کی عالمی جنگ کے لیڈنگ ممالک کے ساتھ کھڑا ہونے میں مدد ملی۔
ممبئی حملوں میں ہمنیت کرکرے اور دوسرے پولیس افسروں کے قتل کے حوالے سے
اہم اطلاعات کو بھی چھپایا گیا۔مصنف نے اجمل قصاب والے پہلو پر بھی بھرپور
توجہ دی۔ ایلیس ڈیوڈسن کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ممبئی حملوں کے
ان متاثرین اور گواہوں کے بیانات نہیں لیے گئے جو واقعے کے سرکاری بیانیے
کو اپنانے پر تیار نہ ہوئے۔ ان گواہوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے
نریمان ہاؤس میں حملوں سے دو روز قبل اجمل قصاب اور چند دیگر افراد کو
اکٹھا ہوتے دیکھا۔ کچھ مقامی دکاندار اور رہائشیوں نے یہ گواہی بھی دی کہ
شدت پسند کم از کم پندرہ دن نریمان ہاؤس میں رہتے رہے۔کتاب میں بتایا گیا
ہے کہ کئی گواہوں کو سکھایا گیا کہ کس طرح انہیں سرکاری موقف اختیار کرنا
ہے۔ بھارتی اور اسرائیلی حکومتیں نریمان ہاؤس واقعے سے متعلق ثبوت گھڑتی
رہیں اور مرضی کی گواہیاں حاصل کرنے میں ملوث نظر آئیں۔ دہشت گردوں کے
سہولت کار فون نمبر 012012531824 استعمال کرتے رہے جو امریکا میں تھا۔اجمل
قصاب کے اقبالی بیان کے مطابق وہ ممبئی سے حملوں سے بیس دن پہلے گرفتار کیا
گیا اور پھر ملوث کیا گیا۔ بعد ازاں اجمل قصاب اپنے اس بیان سے مکر گیا۔
مصنف نے اپنے تجزیئے میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ دعویٰ کیا گیا کہ قصاب پورے
تاج ہوٹل کو اڑانا چاہتا تھا، تاہم اس مقصد کیلئے اس کے پاس آٹھ آٹھ کلو کے
محض چار بم تھے جو بہت ہی ناکافی تھے۔ Betrayal of India Revisiting the
26/11 Evidence نے ممبئی حملوں کے نام پر پاکستان کو دبا میں لانے کے
امریکا، بھارت اور اسرائیلی گٹھ جوڑ کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ مگر یہاں یہ
بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان معروف تحقیقاتی صحافی کی کتاب میں اٹھائے
گئے اہم پہلوں کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں روایتی سستی کیوں دکھا رہا
ہے جس کیلئے دفتر خارجہ کا کردار نہایت اہم ہے۔ ماضی میں بھی پاکستانی دفتر
خارجہ کا رویہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں کاسا رہا ہے۔
بہرحال 2008ء میں ممبئی تاج محل ہوٹل پر حملے نے جہاں پاکستان اور بھارت کے
درمیان تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا تھا اس سے زیادہ بگاڑ بھارتی
حکومت کی طرف سے اس حملے میں بار بار پاکستان کو ملوث کرنے کی ناجائز کوشش
سے پیدا ہوا۔ پاکستان نے کئی بار اس حملے کے مرکزی ملزم اجمل قصاب تک رسائی
چاہی جو بھارت میں قید تھا مگرنہیں مل سکی بلکہ ہمیشہ بھارت کی طرف سے
الزامات اور ملزموں کی حوالگی کے مطالبات پر مشتمل ایک طویل فہرست پاکستان
کو تھما دی جاتی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اسکے بعد بھارت نے عجلت میں
اجمل قصاب کو مجرم قرار دیکرپھانسی بھی دیدی جس سے اُمید تھی اب یہ معاملہ
ٹھنڈا پڑ جائیگا مگر بھارت کی طرف سے پاکستان میں موجود بعض افراد کو اس
کیس میں شریک ملزمان قرار دیکر ان کیخلاف کارروائی کے مطالبے نے اس مسئلہ
پر مزید تلخی پیدا کر دی ہے جس کے منفی اثرات دونوں اطراف کے حکومتی
اہلکاروں اور سفارت کاروں کے بیانات سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ پاکستان نے بجا
طور پہ اس بوگس ڈرامہ کا اصل خالق بھارت کو قرار دیتے ہوئے درست مطالبہ کیا
ہے کہ اب یہ سلسلہ تھم جانا چاہیے۔ پاکستان میں اس ڈرامہ کا کوئی ایساکردار
نہیں ہے جسے بھارت کے مفروضوں پر سزا دی جا سکے۔
بھارت نے ممبئی میں دہشتگردی کا مرتکب پاکستان یا پاکستانیوں کو قرار دیا
ہے جسے بھارت کا پیش کردہ واحد ٹھوس ثبوت ہی جھوٹا ثابت کرتا ہے ۔ ممبئی کے
واقعہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دہشتگردوں میں سے ایک نے بھارت کے ایک ٹی وی
سٹیشن کو فون کیا اور صحافیوں سے بہت لمبی بات کی اور زیادہ تر بار بار
دہرائی گئیں جو کہ دہشتگردوں کے رویہ کا غماز نہیں ۔ زیادہ اہم وہ گفتگو ہے
جو عمران نامی دہشتگرد نے ٹی وی سٹیشن پر موجود صحافیوں سے کی ۔ نہ صرف
عمران کا طرزِ گفتگو کسی پاکستانی علاقے سے مماثلت نہیں رکھتا بلکہ اس کے
بولے ہوئے بہت سے الفاظ پاکستان کے کسی علاقہ میں نہیں بولے جاتے ۔ بقول
عمران وہ نریمان ہاؤس میں موجود تھا ۔ عمران کی گفتگو سے سے لئے گئے کچھ
الفاظ مندرجہ ذیل ہیں جو پاکستان کے کسی علاقہ کی زبان سے تعلق نہیں رکھتے
بلکہ کچھ ایسے ہیں جن کا مطلب کسی پاکستانی کو معلوم نہیں ہو گا۔ پریوار ۔
کون پاکستان میں یہ لفظ استعمال کرتا ہے ؟۔ جلم ۔ پاکستان میں ظلم کہا جاتا
ہے۔ جیاتی ۔ پاکستان میں زیادتی کہا جاتا ہے۔ جِندگی ۔ پاکستان میں زِندگی
کہا جاتا ہے۔ نیتا ۔ پاکستان میں سیاستدان کہا جاتا ہے۔ اتہاس ۔ پاکستان
میں تاریخ کہا جاتا ہے۔ شانتی ۔ پاکستان میں امان کہا جاتا ہے ۔ شانتی ہندو
لڑکی کا نام سمجھا جاتا ہے۔ پرسارن ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا
ہوتا ہے ؟۔ اتنک وادی ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے؟۔
کھلنائک ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟۔ انائے ۔ کون
پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟ ۔البتہ آدھی صدی قبل امرتسر
ریڈیو پر ایک گانا نشر ہوتا تھا ۔ حق دوجے دا مار مار کے بن گئے لوک امیر ۔
میں ایہنوں کہندا انیائے لوکی کہن تقدیر ۔ اس سے لگتا ہے کہ انیائے کا مطلب
گناہ یا ظلم ہو گا۔ سکول کو پاٹ شالا کہا ۔ پاکستان میں سکول کو مدرسہ تو
کہہ سکتے پاٹ شالا نہیں۔ شکشن ۔ پاکستان میں سیکشن کہا جاتا ہے۔ میرے کو ۔
پاکستان میں مجھے کہا جاتا ہے۔ تمارے کو بول رہے ہیں نا ۔ پاکستان میں
تمہیں کہہ رہا ہوں نا کہا جاتا ہے۔ مدھبھیر ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ
یہ کیا ہوتا ہے ؟
بھارت ہمیشہ بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے دہشت گردی کے ہر واقعہ کا الزام
پاکستان لگا دیتا ہے اور پھر ان الزامات کی گردان جاری رکھتا ہے۔ یعنی جھوٹ
بولو تو اتنا بولوکہ لوگ سچ سمجھنے لگ جائیں۔ ممبئی حملے کی حقیقت بھارت کی
وزارت داخلہ کے ایک انڈر سیکرٹری آروی ایس منی نے یہ کہہ کر بے نقاب کرچکے
ہیں پارلیمنٹ اور ممبئی پر حملے خود حکومت نے کرائے تھے اور ایسا کرنے کا
بنیادی مقصد انسدادِ دہشت گردی سے متعلق قوانین کو مزید سخت کرنا تھا۔ عشرت
جہاں انکاؤنٹر کیس کے تفتیشی افسر اور وزارتِ داخلہ کے دو بیاناتِ حلفی پر
دستخط کرنے والے آر وی ایس منی نے عدالت میں جمع کرائے جانے والے ایک بیانِ
حلفی میں انکشاف کیا ہے کہ سی بی آئی اور ایس آئی ٹی کی مشترکہ ٹیم کے رکن
ستیش ورما نے انہیں بتایا تھا کہ2001میں پارلیمنٹ ہاؤس اور 2008 میں ممبئی
میں ہونے والے حملے بھارتی حکومت کی سازش کا نتیجہ تھے۔ ان حملوں کا مقصد
انسدادِ دہشت گردی کے قوانین میں ترامیم کرکے انہیں مزید سخت کرنا تھا۔ آر
وی ایس منی کے مطابق انہیں ستیش ورما نے بتایا تھا کہ 2001میں نئی دہلی میں
پارلیمنٹ پر ہونے والا حملہ بدنام زمانہ قانون پوٹا (پریونشن آف ٹیررسٹ
ایکٹیویٹیز)ایکٹ کے وضع کئے جانے اور 2008میں ممبئی میں ہونے والے حملے یو
اے پی اے (ان لا فل ایکٹیویٹیز پریونشن ایکٹ) میں ترامیم کرکے اسے مزید سخت
بنانے کا سبب بنے۔ آر وی ایس منی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شمالی اور
شمال مشرقی ریاستوں میں ماؤ نواز باغیوں اور دیگر علیحدگی پسندوں نے حکومت
کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ان پر قابو پانے کے لیے بھارت میں قائم ہونے
والی تمام حکومتیں ماورائے آئین اقدامات کرتی رہی ہیں۔ واضح رہے کہ بھارتی
پارلیمنٹ پر حملے کے بعد پاکستان سے ملحق سرحد پر فوج لگاکر جنگ کا ماحول
پیدا کردیا گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے افضل گورو کو عدم ثبوت کے باوجود اس
کیس میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے الزام میں اجمل قصاب
کو پھانسی دی گئی۔ بھارت نے ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے
ہوئے کہا تھا کہ منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی اور حملہ آور بھی پاکستان
ہی سے آئے تھے۔ پارلیمنٹ اور ممبئی پر حملوں کے بعد بھارتی حکومت کو انسدادِ
دہشت گردی کے قوانین سخت بنانے کا موقع ملا اور مقبوضہ کشمیر میں فوج کے
آپریشن کو قانونی جواز نصیب ہوا۔ ممبئی حملوں کے بعد یو اے پی اے کے نام سے
نیا قانون لایا گیا۔ ستیش ورما اب جونا گڑھ (گجرات) کے پولیس ٹریننگ کالج
کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے موجودہ لینڈ اینڈ
ڈیویلپمنٹ آفیسر آر وی ایس منی کے بیان پر تبصرے سے انکار کردیا ہے۔ ان کا
کہنا ہے کہ اب تک انہیں یہ نہیں معلوم کہ ان سے کسے کیا شکایت ہے۔ ٹائمز آف
انڈیا نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتایا تھا کہ سارا جھگڑا جون 2004 میں احمد
آباد کے نزدیک ہونے والی اس پولیس مقابلے کی تفتیش کے دوران کھڑا ہوا جس
میں گجرات پولیس نے عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھیوں امجد علی، ذیشان گوہر
اور جاوید شیخ کو کالعدم لشکر طیبہ کے مشتبہ کارکن قرار دے کر قتل کردیا
تھا۔ اب یہ مقابلہ سرکاری سطح پر جعلی قرار دیا جاچکا ہے اور متعلقہ پولیس
افسران کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔ گجرات پولیس نے انٹیلی جنس بیورو
(آئی بی) کی اس رپورٹ کو بنیاد بناکر انکاؤنٹر کیا تھا کہ ذیشان گوہر، امجد
علی اور جاوید شیخ مبینہ پاکستانی باشندے ہیں اور ان کا تعلق کالعدم لشکر
طیبہ کے اس ماڈیول (گروپ) سے ہے جو گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر
مودی کو قتل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی
بی آئی) نے تفتیش کے بعد اپنی رپورٹ میں عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھیوں
کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے مقابلے کو جعلی
ٹھہرایا تھا۔ اگست 2009 میں مرکزی وزارتِ داخلہ نے اپنے بیانِ حلفی میں آئی
بی کی اِن پٹ کا حوالہ دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ آئی بی نے عشرت جہاں اور
اس کے ساتھیوں کو کالعدم لشکر طیبہ کا رکن قرار دیا تھا۔ جب گجرات حکومت نے
اس پولیس مقابلے کو درست ثابت کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ کے پہلے بیانِ حلفی
اور اس میں آئی بی کی اِن پٹ کو استعمال کیا تو ستمبر 2009 میں مرکزی وزارتِ
داخلہ نے دوسرے بیانِ حلفی میں موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ آئی بی نے اپنی
اِن پٹ میں عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کو حتمی طور پر کالعدم لشکر طیبہ
کا رکن قرار نہیں دیا تھا بلکہ محض شبہ ظاہر کیا تھا۔ آر وی ایس منی نے
اپنے سینئرز کو لکھا ہے کہ ستیش ورما نے عشرت جہاں کیس میں غلط بیانی پر
مبنی بیانِ حلفی پر دستخط کرنے کے لیے ان پر دبا ڈالا تھا۔ ان سے کہا گیا
تھا کہ وہ اِس بیان پر دستخط کریں کہ مرکزی وزارتِ داخلہ کے پہلے بیانِ
حلفی میں آئی بی کے دو افسران کی بھی اِن پٹ شامل تھی جبکہ فی الواقعہ ایسا
نہیں تھا۔ آر وی ایس منی کے مطابق ستیش ورما نے بتایا کہ مرکزی وزارتِ
داخلہ کے پہلے بیانِ کا مسودہ تیار کرنے والے افسر راجیندر کمار پر دبا بڑھ
گیا ہے کیونکہ عشرت جہاں انکاؤنٹر کی راہ ہموار کرنے سے حوالے سے اس پر
گجرات حکومت سے ساز باز کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔ سی بی آئی اس کے خلاف
بھی فردِ جرم عائد کرسکتی ہے۔ |