1947 تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت دو
آزاد ریاستوں کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے تقسیم کے حوالے سے فارمولا
یہ تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کے حوالے کیے جائیں گے جب کہ ہندو
اکثریت والے علاقے بھارت کا حصہ بنیں گے تقسیم ہند کے دوران جموں و کشمیر
برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست تھا۔جس کی 95 فیصد آبادی مسلم تھی مگر
بد قسمتی سے یہاں کا حکمران غیر مسلم( سکھ ) تھا برطانوی سامراج ، ہنود اور
مذکورہ سکھ راجے کی ملی بھگت سے باوجودیکہ کشمیر مسلم اکثریتی(95 فیصدمسلم)
علاقہ تھا بھارت کے سپرد کر دیا گیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر کے معاملے
پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین اب تک تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ پہلی جنگ
1947، دوسری 1965 اور تیسری ا1999 میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ
کشمیر اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھارت در
اندازی اور گولہ باری کا ارتکاب کرتا رہتا ہے ۔ اس بلا جواز فائرنگ کا
نشانہ پاکستانی شہری آبادی بنتی ہے تنازعہ کشمیر کے 3 بنیادی فریق ہیں
نمبر 1۔پاکستان ، جس کا دعوٰی ہے کہ تقسیم ہند کے وقت سے اب تک کشمیر چونکہ
مسلم اکثریتی ریاست ہے سو یہ پاکستان کا حصہ ہے اور کشمیر ی عوام کی ایک
بڑی تعداد پاکستان کی اس سوچ کے ساتھ کھڑی ہے
نمبر2۔بھارت ۔ جس کا دعوٰی ہے کہ بوقتِ تقسیم اس کا کرتا دھرتا چونکہ غیر
مسلم (سکھ) تھا اور وہ بھارت کے ساتھ الحاق بھی چاہتا تھا سو اس پر بھارت
کا استحقاق اصولی ہے
نمبر 3۔وہ کشمیری عوام جو حق خود ارادیت کے تحت بھارت یا پاکستان سے الحاق
کی بجائے اپنا ایک قطعی الگ تھلگ آزادانہ تشخص چاہتے ہیں -
یہاں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کی گئی دوطرفہ کاوشوں کا ذکر نہ کیا
گیا تو اس معاملہ کی نہ تو نزاکت عیاں ہو گی اور نہ فریقین کا رویہ سمجھ
میں آسکے گا بھارت اس تنازعہ کا ایک ایسا فریق ہے روزِ اول سے جس کا
رویہ(باوجودیکہ اسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے کا شوق ہے ) ریاستی
ظلم و ستم اور جبر وتشدد پر مبنی ہے یہ وہ حقائق ہیں جن پر دنیا بھر کا
میڈیا اوربین الاقوامی برادری گواہ ہے
بین الاقوامی امو ر کے معتبر مبصر شیخ تجمل الاسلام اپنے ایک مضمون بعنوان
ــ’’کشمیر، آبادی کی تبدیلی اور بھارتی جرائم ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ڈوگرہ
راجا اور بھارتی نیشنل کانگریس کی ملی بھگت کے تحت نہتے کشمیری مسلمانوں پر
ڈھائی جانے والی قیامت پر برٹش پریس کی شائع شدہ رپورٹیں اور ہورس
الیگزینڈر کا16جنوری 1948ء کو سپیکٹرم میں شائع ہونے والا مضمون ایک معتبر
حوالہ ہے۔ ہورس کے مطابق 2لاکھ افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ دوسری رپورٹ میں
آئن اسٹیفن کا دعویٰ ہے کہ 5لاکھ افراد کو مارا گیا، جب کہ دیگر 2لاکھ
افراد لاپتا ہوگئے۔ ۔ یوں مسلمانوں کے اس قتلِ عام اور بڑے پیمانے پر آبادی
کی منتقلی سے جموں میں مسلمانوں کی آبادی 21 فی صد اکثریتی آبادی سے کم
ہوکر30فی صد اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔ یہ نسل کشی کا اور انسانیت کے خلاف
جرائم کا ایک واضح مقدمہ تھا، لیکن عالمی برادری خاموش تماشائی بنی رہی ۔
یہ تو ماضی بعید کی بات ہے-
آپ ماضی قریب کو دیکھ لیجئے کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کے مطابق مئی
2017 میں بھارتی افواج کی ریاستی دہشت گردی سے 28 کشمیری شہید ہوئے، جس کے
نتیجے میں 9 خواتین بیوہ اور 33 بچے یتیم ہوگئے۔ 3 افراد کو جعلی مقابلوں
میں قتل کیا گیا۔نہتے کشمیریوں کے احتجاج کو کچلنے کے لیے قابض افواج نے
سخت کارروائی کی۔ براہ راست فائرنگ ، پیلیٹ بندوقوں کے استعمال اور آنسو
گیس کی شیلنگ سے 945 افراد زخمی ہوئے۔ گھر گھر چھاپوں اور کریک ڈاؤن کے
دوران کم عمر طلبہ اور حریت کارکنوں سمیت 367 افراد کو گرفتار کیا گیا، جب
کہ 120 گھروں کو نقصان پہنچایا گیا اور 59 خواتین سے زیادتی اور بے حرمتی
کی گئی-
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے جنوری 2018 کے
دوران ریاستی دہشت گردی کی مسلسل کارروائیوں میں تین لڑکوں سمیت 19
کشمیریوں کو شہید کیا۔کشمیر میڈیا سروس کے شعبہ تحقیق کی طرف سے جاری اعداد
و شمار کے مطابق بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے طاقت کے اندھا
دھنداستعمال، فائرنگ،چھرے والی بندوق اور آنسو گیس کے استعمال سے 147 افراد
زخمی ہوئے جبکہ اس ماہ کے دوران حریت رہنماوں اور کارکنوں سمیت 137 شہریوں
کو گرفتار کیا گیا۔بھارتی فوج کے اہلکاروں نے اس عرصے کے دوران 62 گھروں کو
بھی تباہ کیا اور چھ خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔
کشمیر کے باسیوں پر گزرنے والی قیامت کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کا
رویہ آج بھی کم و بیش وہی ہے جو روزِ اول تھا لمحۂ موجود تک لاکھوں بے گناہ
کشمیری موت کی نیند سلا دئیے گئے لاکھوں بچے یتیم ہوئے ، عورتوں پر وحشیانہ
تشدد بلکہ سرِ عام عصمت دری کے واقعات انڈین آرمی کا روزمرہ معمول ہے اور
انسان تو انسان کتے کو محض دھتکارنے پر گھنٹوں سوشل میڈیا پر اخلاقیات ،
محبت اور درگذر کے حوالے لیکچر جھاڑنے والے لبرلز ، عالمی برادری سمیت
مسلسل خاموش ہیں بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے
یہ اسی بھارت کا مکرو ہ اور بد بو دار کردار و رویہ ہے جو اس نے بے گناہ
اور نہتے کشمیریوں سے روا رکھا ہوا ہے -
مسئلہ کشمیر کا ایک اور فریق وہ کشمیری لابی ہے جن کا کہنا ہے کہ ہمیں
بھارت نہ پاکستان ، کسی کے ساتھ الحاق گوارا نہیں بلکہ ہم مکمل خود
مختارانہ شناخت چاہتے ہیں ڈرائنگ رومز اور اخباری و اشتہاری جدوجہد کرنے
والے یہ نام نہاد حریت پسند انتہائی باوثوق ذرائع کے مطابق وہ لوگ ہیں جن
کی پشت پناہی انڈیا کر رہا ہے اور یہ لوگ وقتی مفاد اور چند ٹکوں کی خاطر
انڈین تھنک ٹینک کے ہاتھوں میں کھیل کر نہ صرف کشمیریوں کے اتفاق و اتحاد
کونقصان بہنچا رہے ہی بلکہ کشمیر کی آزادی کے راستے کا سب سے بڑا پتھربنے
ہوئے ہیں یہ پل پل کی خبر اپنے آقاؤں تک پہنچاتے ہیں اور حقیقی حریت پسندوں
کی نقل و حرکت سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے یہ سادہ لوح کشمیری نوجوانوں کو
استعمال کرتے ہیں -
جہاں تک پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے حکمتِ عملی کی بات ہے تواس ضمن میں
انتہائی حیران کن امر یہ ہے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورمز پر اجاگر
کرنے کیلئے قائم کردہ کمیٹی کی بھاگ دوڑ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جس کا
نہ صرف جدید علوم بلکہ عالمی منظر نامے سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں وہ
بین الاقوامی ذریعۂ افہام و تفہیم یعنی انگریزی زبان English Language سے
یکسر نابلد ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ جس دن سے اسے یہ ذمہ داری سونپی گئی
ہے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اس کی کارکردگی زیرو رہی ہے محترم کی شخصیت کسی
ایک پہلو سے بھی اس انتہائی حساس اور اہم ترین کام کیلئے موزوں نہیں۔ صاف
دکھائی دیتا ہے کہ کسی نظریۂ ضرورت کے پیشِ نظر انہیں نوازا گیا ہے
برہان مظفر وانی شہید ( 19 ستمبر 1994 تا 8 جولائی 2016 ) کی سوشل میڈیا پر
شب وروز کی جانے والی مساعی جلیلہ اور ان جیسے ہزاروں شہداء کی قربانیوں کے
نتیجے میں مسئلہ کشمیر عالمی برادری پراظہر من الشمس ہو چکا ہے -
کیا یہ زیادہ مناسب نہیں ہو گا کہ مرحوم قاضی حسین احمد کے مشن یومِ یکجہتی
کشمیر کو محض ریلیوں ، روڈ بلاکز ، ڈرائنگ روم کارنر میٹنگز تک محدود نہ
رکھا جائے بلکہ بانی پاکستان حضرت قائدِ اعظم کی کشمیر پالیسی کے مطابق یہ
معاملہ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کی زد سے سے نکال کر فوج کے سپرد کر دیا
جائے کہ وہ جیسے مناسب سمجھیں اس کے حل کیلئے اقدامات کریں اور تمام پارٹیز
کے سیاسی عمائدین و کارکنان پوری قوم سمیت فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں
کیونکہ عالمی برادری کا اجتماعی ضمیر تو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مردہ ہو
چکا ہے سو اغیار پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت اسے حل کیا
جائے -
ہاں میں اس بات کا بھی مخالف نہیں ہوں کہ اس معاملے میں عالمی ضمیر کومسلسل
جھنجوڑا جاتا رہے تاکہ مسئلہ کشمیر کی حساسیت عالمی منظر نامے کے حوالے سے
اقوام عالم پر پوری طرح عیاں ہو تو اس حوالے سے ڈائلاگز کی ذمہ داری کیوں
نہ آزاد کشمیر حکومت کے سپرد کی جائے کہ وہ کسی انتہائی ذمہ دار ، صاحبِ
علم ، انگریزی سمیت دیگر زبانوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے ماہر
اور بین الاقوامی امور و سفارتی موشگافیوں سمیت تنازعہ کشمیر کے پس منظر و
پیش منظر کے شناور کی زیرِ قیادت ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے جو بین الاقوامی
فورمز پر انتہائی مدلل انداز میں مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے
رکھے اور انہیں یاد دلائے کہ بھارتی سیاسی قیادت مسئلہ کشمیر کو کشمیری
عوام کی امنگوں کے مطابق حل کر دینے کا وعدہ کر کے انتہائی ڈھٹائی سے عالمی
برادی سے کیے گئے اپنے اس وعدے ، معاہدے کو بھول چکی ہے وادی میں ریاستی
جبر وتشدد اور قتل و غارت گری سے ان کی جائز آواز کو ان کے حلق کے اندر ہی
دبا دینے کے درپے ہے جہاں تک پاکستانی وزارتِ خارجہ اور اس کے سفارت خانوں
کا تعلق ہے تو وہ اس سلسلے میں ان کی ہر ممکنہ مدد کریں تاکہ ترکی کے
سربراہ طیب اردگان کی طرح کچھ اور صاحبانِ قوت و بصیرت بھی کشمیری مظلوموں
کی آواز میں آواز ملا کر بھارت پراتنا دباؤ ڈالیں کہ وہ کشمیر سے اپنا
غاصبانہ تسلط ختم کرنے پر مجبور ہو جائے - |