سلامتی کی راہ

حکومتِ وقت جمہوریت کی راہوں سے برسرِ اقتدار آئی ہو یا آمریت کے کاندھوں پر سوار ہو کر اس نے مسندِ اقتدار سنبھالا ہو ، ہر دو صورتوں میں عوام کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ امیدوں اور تمناؤں کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے سب اسی بات کے منتظر رہتے ہیں کہ راتوں رات ان کی تقدیر بدلنے والی ہے، آنے والی صبح کا سورج اپنے جلو میں ترقی اور خوشحالی کی ان گنت سوغات لئے ان کے دروازوں پر دستک دینے والا ہے۔ غربت، بدامنی، رشوت اوراسی نوعیت کی دیگر تمام برائیاں ملک سے ناپید ہونے والی ہیں۔ لیکن نئی حکومتِ وقت سے ان توقعات کو قائم کرتے وقت یہ بات نظرانداز کردی جاتی ہے کہ نئے آنے والے حکمران آسمان سے اترے ہوئے فرشتے نہیں بلکہ ہمارے ہی معاشرے کے جیتے جاگتے انسان ہیں۔ جو برائیاں اور خامیاں ہمارے ملک و معاشرہ اور ہماری تہذیب و تمدن میں رچ بس چکی ہیں ان کے اثرات سے نئے حکمران بھی محفوظ نہیں ہیں۔

بنظرِ غائر دیکھا جائے تو حکمرانوں کو برا بھلا کہنا مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اس عمل کے نتائج عوام کے حق میں نقصان دہ ہی ثابت ہوتے ہیں۔ اگر شریعتِ مطہرہ کی جانب رجوع کیا جائے تو قرآن و حدیث میں اس سلسلے میں واضح ہدایات ملتی ہیں۔نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ" میں اﷲ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، میں بادشاہوں کا مالک ہوں اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں۔ بندے جب میری اطاعت کرتے ہیں تو بادشاہوں کے دل ان پر رحمت اور مہربانی کے لئے پھیر دیتا ہوں اور جب میری نافرمانی کرتے ہیں تو بادشاہوں کے دل ان پر غصہ اور انتقام کے لئے پھیر دیتا ہوں جس سے وہ ان کو سخت عذاب اور تکالیف پہنچانے لگتے ہیں۔ اس لئے تم بجائے بادشاہوں پر بد دعائیں کرنے کے میرے ذکر کی طرف متوجہ ہواور میری طرف عاجزی اور زاری کرو تاکہ میں ان کی تکالیف سے تمہیں محفوظ رکھوں"۔

قرآنِ مجید میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ" اسی طرح ہم بعض ظالموں کو بعض ظالموں پر ان کے اعمال کی وجہ سے حاکم بنا دیتے ہیں" (سورہ انعام آیت ۱۲۹)۔ اس آیت کے ذیل میں مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اپنی تفسیر معارف القرآن میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ ، حضرت عبداﷲ ابن زبیر رضی اﷲ عنہ اور حضرت مالک بن دینار رحمۃ اﷲ علیہ وغیرہ سے اس آیت کی تفسیر یہ منقول ہے کہ اﷲ تعالیٰ بعض ظالموں کو دوسرے ظالموں پر مسلط کردیتا ہے اور اس طرح ایک ظالم کو دوسرے ظالم کے ہاتھوں سزا دلواتا ہے۔ایک حدیثِ پاک میں حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ" جیسے تم لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے ہوگے ویسے ہی تم پر حاکم بنائے جائیں گے"۔ یعنی اگر تم ظالم و بدکار ہوگے تو تمہارے حاکم بھی ظالم و بدکار ہی ہوں گے اور اگر تم نیک عمل و نیک کردار ہوگے تو اﷲ تعالیٰ تمھارے حکام نیک، رحمدل اور منصف مزاج لوگوں کو بنا دیں گے۔ حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی قوم کو سزا دینا چاہتے ہیں تو ان پر بدترین حکام و سلاطین کو مسلط کردیتے ہیں۔(تفسیر بحر محیط)

تفسیر روح المعانی میں ہے کہ فقہاء نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ جب رعیت اور عوام اﷲ تعالیٰ سے منحرف ہوکر ظلم و ستم میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان پر ظالم حکام مسلط کرکے ان کے ہاتھوں ان کو سزا دلواتے ہیں۔نبی کریم ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ" تم لوگ نیک کاموں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ورنہ اﷲ جل جلالہ بدترین لوگوں کو تمہارا حاکم بنا دیں گے۔ پھر تمہارے بہترین لوگ بھی دعائیں کریں گے تو قبول نہ ہوں گی"۔ایک اور حدیث میں رسولِ اکرم ﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ" اپنے قلوب کو سلاطین اور بادشاہوں کو گالیاں دینے میں مشغول نہ کرو بلکہ اﷲ کی طرف تقرب حاصل کرو اور متوجہ ہوکر ان کے لئے دعائے خیر کرو تاکہ حق تعالیٰ شانہ ان کے دلوں کو تمہارے اوپر مہربان کردیں"۔نیز ایک حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ" جب کسی جماعت پر اﷲ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے اور آخری عذاب مثلاََ دھنس جانا یا صورتوں کا مسخ ہوجانا نازل نہیں ہوتا تواﷲ تعالیٰ نرخ میں گرانی کردیتے ہیں اور بارش کو روک لیتے ہیں اور بدترین لوگوں کو حاکم بنا دیتے ہیں"۔

مذکورہ بالا نصوصِ شرعیہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ آج جو حالات امتِ مسلمہ کو پیش آرہے ہیں اور صالح قیادت کا جو فقدان پایا جاتا ہے اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی بد اعمالیاں ہیں۔اگر ہم دیکھیں کہ آج امت کا کیا حال ہے تو بہت عجیب اور افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے کہ عبادات میں کوتاہیاں عام ہیں، نماز روزوں کا اہتمام نہیں، وضع قطع اسلامی نہیں، معاملات اور لین دین میں جائزو ناجائز اور حلال و حرام کی فکر نہیں۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر گناہوں کا صدور اس کثرت سے ہورہا ہے کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ اسلامی معاشرہ ہے۔اﷲ رب العزت کا فضلِ عظیم ہے کہ ہماری بہت ساری غلطیوں کو معاف فرما دیتے ہیں اور ان پر مواخذہ نہیں فرماتے۔قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ" اور تم کو جو مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں سے (پہنچتی ہے ) اوربہت (گناہوں کو تو اﷲ تعالیٰ) درگذر ہی کردیتا ہے"(سورہ شوریٰ آیت ۲۰)۔ اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ گناہوں کی وجہ سے مصیبتوں اور بلاؤں کا نزول ہوتا ہے۔جیسا کہ ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ" بر و بحر(یعنی خشکی اور تری غرض ساری دنیا) میں لوگوں کے اعمال کی بدولت فساد پھیل رہا ہے (اور بلائیں، قحط اور زلزلے وغیرہ نازل ہورہے ہیں) تاکہ اﷲ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کی سزا کا مزہ ان کو چکھا دیں شاید کہ وہ اپنے ان اعمال سے باز آجائیں"(سورہ روم آیت ۴۱)۔

حضرت ابو موسیٰ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ" کسی بندہ کو کوئی زخم یا اس سے بھی کم درجہ کی کوئی (تکلیف دہ) چیز پہنچتی ہے تو وہ اپنی ہی کی ہوئی کسی حرکت سے پہنچتی ہے"۔ ایک اور حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ" اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کسی لکڑی کی خراش یا کسی رگ کا حرکت کرنا یا قدم کی لغزش (ٹھوکر کھا جانا) یا پتھر کہیں سے آکر لگ جانا جو کچھ بھی ہوتا ہے کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے"۔

حضرت شیخ الحدیث مولا نا محمد زکریا صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اپنی کتاب" الاعتدال فی مراتب الرجال" میں تحریر فرماتے ہیں کہ ان آیا ت اور احادیث میں ایک ضابطہ ارشاد فرمایا گیا ہے اور حوادث و آفات کا ایک خاص سبب بیان کیا گیا ہے اور وہ سبب اس قدر قوی ہے کہ اس کے زہریلے اثرات میں بسا اوقات وہ لوگ بھی گرفتار ہوجاتے ہیں جو ان معاصی میں مبتلا نہیں ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسولِ اکرم ﷺ کا فرمانِ پاک ہے کہ" اس امت کے آخری زمانے میں خسف ہوگا (زمین میں آدمیوں اور مکانوں کا دھنس جانا) اور مسخ ہوگا(کہ آدمی کتے اور بندر وغیرہ کی صورتوں میں تبدیل ہوجائیں گے) اور قذف ہوگا( کہ آسمان سے پتھر برسنے لگیں گے)۔کسی نے عرض کیا :یا رسول اﷲ ﷺ; ہم اس حالت میں بھی ہلاک ہوسکتے ہیں کہ ہم میں صلحاء موجود ہوں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں؛ جب خباثت کی کثرت ہو جائے گی"۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ امت کی تباہی اور طرح طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں کی اصل وجہ گناہ اور بدعملی ہے۔ اس صورتحال کا صحیح حل اور علاج یہی ہے کہ بدعملی کو دور کیا جائے۔ گناہوں سے اجتناب کیاجائے اور حق تعالیٰ شانہ کی کامل اطاعت کی جائے۔ بغیر اﷲ تعالیٰ کو راضی کئے چین و سکون کا خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا والی حیات نصیب فرمائیں اور اپنی ناراضگی سے محفوظ فرمائیں، آمین۔

Muhammad Faisal
About the Author: Muhammad Faisal Read More Articles by Muhammad Faisal: 27 Articles with 24390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.