’’تندرستی ہزار نعمت ہے ‘‘جیسے مقبول عام اور جاندار
مقولے کی موجودگی میں کون انسانی صحت کی زندگی میں اہمیت کو جھٹلا سکتا ہے۔
کسی بھی انسان کیلئے تندرستی نعمت ِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتی۔بعض اوقات
امیر آدمی بھی کسی ایسی مہلک بیماری کا شکار ہو جاتا ہے کہ دولت کے بے
تحاشا انبار کے باوجود وہ صحت کاملہ جیسی نعمت حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتا
ہے۔کینسر، ہارٹ اٹیک ، ہیپا ٹائٹس،ڈپریشن اور شیزوفرینیا ، جیسی ذہنی اور
جسمانی بیماریاں امیر وغریب میں قطعاً امتیازنہیں کرتیں لہذا صحت ایک ایسی
دولت ہے جسکا دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ہے اسی لئے ترقی یافتہ ممالک
میں انسانوں کو صحت و تعلیم کی بہتر اور مفت سہولتیں فراہم کرنے کی بنیادی
ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ملک کے آئین میں ریاست کی طرف سے صحت عامہ
کی عمومی سہولتیں ہر شہری کو بلاامتیاز فراہم کرنے کا بنیادی حق دیا گیا
ہے،مگر آج اگر صحت کے شعبہ پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہ اندازہ بخوبی
لگایا جاسکتا ہے کہ قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے علاج ومعالجہ کے آ ئینی
حق کی فراہمی کس قدر امتیاز برتا جاتا ہے،ملک کے طول وعرض میں سرکاری
اسپتالوں میں معالجین کی لاپرواہی اور انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے ہونے
والی بے شمار اموات اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ملک کے اندر اب ’’صحت کا
شعبہ‘‘ بھی امیر غریب،دیہی وشہری کی فصیلوں میں منقسم کردیا گیا ہے ۔آئین
ہند میں اہل وطن کو دیے گئے حقوق کے مطابق ریاست کا بنیادی فرض ہے کہ وہ
اپنے تمام شہریوں کو بلاامتیاز مذہب، جنس ،ذات ، عقیدہ اور نسل کے زندگی کی
بنیادی ضرورتوں بشمول صحت اور علاج معالجہ کی سہولتوں کو یقینی بنائے۔لہذا
ہر مہذب ریاست کا فرض ہے کہ وہ عوام کو صحت عامہ کی بہتر سہولتوں سے مستفید
کرے کیونکہ صحت مند افراد ہی قوم کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا
کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔مگر وائے افسوس کے اسی دیہات سے ترقی پاکر ایوانوں
میں پہنچنے والے ارباب اقتدار اور پبلک سروس کمیشن کے جیسے امتحانات سے گزر
کر اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہونے والے افسران شہروں اور دیہاتوں کے درمیان
کھڑی کی گئی فصیل کو توڑ کر سبھی اہل وطن کو ان کے حقوق یکساں طورپر فراہم
کرنے کا جمہوری سبق بھول گئے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ دیہات کے مقا بلے شہروں
میں طرح طرح کی سہولتیں میسر ہیں۔ضروریات زندگی آسانی سے پوری ہوتی ہیں۔ا
سکولوں اورکالجوں کے علاوہ اور دوسری مذہبی اور ٹیکنیکل درسگاہیں اور
سائنسی تجربہ گاہیں بھی ہوتی ہیں۔ دور جدید کی تمام آرام و آسائش کی
سہولتیں مل جاتی ہیں۔بجلی، پانی،ر سوئی گیس کی سہولتیں ملتی ہیں ۔تہذیب و
شائستگی سیکھنیکے مواقع مل جاتے ہیں۔ لائبریریاں ہیں ، دارالمْطالعے ہیں ،
طبی امداد بروقت مل سکتی ہیں۔رات ہو یا دن اسپتال کھلے رہتے ہیں۔ پرائیویٹ
ڈاکٹرز بھی مل جاتے ہیں۔ حادثات کی صورت میں بھی طبی امداد مل جاتی
ہیں۔سواری کے لیے رکشے،آٹو، بسیں، لاریاں، کاریں دن رات چلتی رہتی ہیں۔
جدید ترقی نے شہروں کو آمدو رفت کیلئے ایک اور نعمت میٹروریل کی شکل میں
فراہم ہوگئی ہے۔مال برادری کے لیے لوڈ اور ٹرک بھی آسانی سے مل جاتے ہیں ۔
گویا زندگی کی ہر آسائش کا سامان آسانی سے میسر ہے مگر ارباب اقتدار کی عدم
دل چسپی کی وجہ سے دیہا تو ں میں یہ چیزیں میسر نہیں ہیں۔
باوجود اِس کے کہ شہروں میں طبی امدادکے مراکز بھی بکثرت ہیں ڈاکٹر بھی عام
مل جاتے ہیں۔ دویات بھی ڈھیروں مل جاتی ہیں۔مگر صحت کو بے قرار رکھنے کے
لیے نہ تو یہاں تازہ ہوا ملتی ہیں اور نہ ہی اچھی اور خالص غذا ملتی ہیں ۔دودھ
فروش دودھ میں پانی ملاتے ہیں اور پانی ملے دودھ میں سے کریم بھی پہلے ہی
نکلی ہوئی ہوتی ہیں۔ نہ گھی اچھا ہوتا ہے نا دودھ خالص۔ اِس صورت حال میں
کھانے پینے کی اشیاء پیٹ تو بھر سکتی ہے مگر صحت قائم نہیں رکھ سکتیں۔یہاں
پر کا رخانوں ، ملوں، فیکٹریوں،ٹرکوں ، بسوں ، موٹروں ، کاروں کے دھنویں سے
ہوا کثیف رہتی ہے اوروہ پھیپھڑوں میں جا کر صحت کا ستیا ناس کر دیتی ہے۔
شہر کی گلی کوچوں میں جدھر جائیں غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ملتے ہیں۔ جگہ جگہ
فنتھ ڈپو بنے ہوئے ہیں ۔ وہ بھی ملحقہ آبادی کے لیے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔
شہروں میں سنیما تفریح کی بجائے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔نوجوان
طبقہ کی سوچ ہی سنیما اور گندی سوسائٹی نے غلط کر کے رکھ دی ہے اور پرا
گندگی ان کے ذہنوں میں راسخ ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں فضول خرچی ، تکلف ،
ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ نے شہری زندگی کو پریشان کر رکھا ہے۔اس کے برعکس
دیہات کے لوگ سادہ ، مخلص ، خدمت گزار محنتی ہوتے ہیں۔ دیہات میں گھی ،
دودھ ، ، خالص مل سکتا ہے۔ وہاں کھلی فضا میں رہنے سے صحت بھی ٹھیک رہتی ہے۔
دیہات میں طرز معاش ہی اِس قسم کی ہے کہ محنت سے روزی کمانی پڑتی ہیں۔ اِس
میں اور عورتیں بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کی صحت شہریوں کی نسبت
اچھی ہوتی ہے۔ کسان ہماری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر وہ نہ ہوتونہ
شہروں میں کار خانے ہوں نہ ملیں ہوں اور نہ فیکٹریاں چلیں اور نہ تجارت ہو۔
یہ سب انہی کی بدولت ہے۔دیہات میں اخلاقی فضا شہروں کے مقابلے میں بہتر
ہوتی ہے۔دیہات میں لوگ بڑوں کا ادب کرتے ہیں ۔وہ مذہبی رجحان زیادہ رکھتے
ہیں اور فریب کاری میں بہت کم ماہر ہوتے ہیں ۔ وہاں کی عورتیں بھی محنتی
اور خدمت گزار ہوتی ہیں۔ وہاں قدرتی مناظر دِل ودماغ کوسکون بخشتے ہیں۔یہی
وجہ ہے کہ دیہات کے لوگوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ دجل ومکاری سے محفوظ زندگی
کی ایک برکت یہ ہوتی ہے ایسے ماحول میں ٹینشن یا ڈپریشن کیلئے کوئی جگہ
نہیں ہوتی ،لہذا دیہی باشندے بے شمار دماغی اور نفسیاتی امراض سے پاک رہتے
ہیں۔
بہر حال جس طرح کچھ اچھائیا ں اور بْرائیاں شہری زندگی میں ہیں، اسی طرح
کچھ خوبیاں اورخامیاں دیہاتی زندگی میں بھی ہیں۔ سو فیصد معیاری تو کوئی
جگہ بھی نہیں۔ اب یہ اپنی اپنی پسند ہے کہ ان خوبیوں اور خامیوں سمیت ہمیں
شہری زندگی پسند ہے یا دیہاتی۔
ان تمام صورت حال کے باوجود ایک بات تو ماننی پڑے گی کہ مکمل صحت – ایک ہی
وقت میں جسمانی ، ذہنی اور سماجی آسودگی کی کیفیت کا نام ہے جو شہروں کے
گھٹن بھرے ماحول اور آلوگی سے لبریز آب وہوا میں یہ ممکن نہیں ہے۔ذہنی اور
جسمانی آسودگی کی یہ کیفیت کسی فرد کو جدوجہد اور محنت کرنے پر آمادہ کرتی
ہے تاکہ وہ اپنی خواہشات اور آرزووں کو پورا کر سکے اور اپنی ذاتی اور
خاندانی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے اور سماج کے لیے بھی مثبت کردار ادا
کرسکے۔لیکن یہی ذہنی سکون اورصاف ستھری آب و ہوااگر بنی نوع انسان کو میسر
نہ ہو تو ترقی کے خواب دیکھنا اور انہیں شرمندۂ تعبیرکرنا آسان نہیں رہ سکے
گا۔صحتمندی کا دارومدار بہت سے عوامل پر ہوتا ہے۔ ہمارے کھانے پینے کی
عادات کے ساتھ ساتھ ہماراماحول ، ہماری تعلیم، ہماری معاشی او رسماجی حیثیت
، شہری سہولیات کی دستیابی اور آب وہوا کے علاوہ ہماری جینیاتی وراثت بھی
ہماری ذاتی اور اجتماعی صحت اور طرز زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ان سبھی محرکات کے باوصف اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی جسمانی
صحت کے لیے صحتمندانہ اطوار اور عادتوں کو اپنا کر ایک فعال فرد کی حیثیت
سے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے میں مدد ملتی ہے۔جسمانی فلاح کیلیے
حفظانِ صحت کی عادتوں کو اپنا کر جہاں صحت بخش غذا کے استعمال کو یقینی
بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔وہیں صحت کے لیے نقصان دہ عادتوں مثلاً تمباکو
اور الکحل کے استعمال سے مکمل اجتناب بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی
ذہنی اور جذباتی تناؤ کو کم کرنے کے لیے ورزش کی عادت اپنانا چاہیے۔ضرورت
کے مطابق اپنی صحت کے سلسلے میں تجربہ کار طبیبوں سے معاینہ کراتے رہنا بھی
جسمانی صحت کے لیے ضروری ہے۔چونکہ ان ساری باتوں کا تعلق راست طور پر تعلیم
اور صحت کے تئیں عوامی بیداری سے ہے۔مگر دیہی علاقوں میں تعلیم کی کمی کی
وجہ سے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل تو کجا وہاں صحت کے تعلق سے بیداری کا
ماحول بھی نہ کہ برابر رہتا ہے۔صحت کی فراہمی،طبی سہولیات کی دستیابی اور
حفظان صحت کے لئے بیداری پیدا کرنے کی بنیادی ذمہ داری حکومتوں اور محکمہ
صحت کی ہے۔مگر یہ بات پہلے ہی بیان کی جاچکی ہے کہ ہر معاملے میں امتیاز
اور آئینی طور پر دیے گئے حقوق مستحق لوگوں تک پہنچانے میں ذاتی منفعت
پسندی،ذمہ داریوں سے لاپرواہی اور سہل پسندی نے ہماری زندگی سے دیانت
وامانت کو سرے سے نکا ل با ہر کیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں میں دیگر
مسائل کے سا تھ طبی سہولیات اور صحت کے مسائل بھیانک بن کر کھڑے ہوئے ہیں
اور ساری دنیا کو ہم پر انگلی اٹھانے کا موقع دے رہے ہیں۔ |