محبت کیسی ہونی چاہے؟ عوامی راۓ یہ ہوتی ہے کہ مظبوط اور
گہری ہونی چاہے۔اب مشین کے دھاگے کی طرح نازک بھی نہ ہوکہ ذرا سا بوجھ بھی
برداشت نہ کر پاۓ اور ٹوٹ جاۓ۔محبت تو پانی کی طرح ہونی چاہے۔ جو اپنی جگہ
خود بناۓ۔جیسے پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے۔بوند بوند کر کے ٹپکتا تو ہے
مگر زمین میں سراخ کر دیتا ہے۔جیسے پہاڑوں کا سینہ چاک کر کے اپنا راستہ
خود بنا لیتا ہے۔جو اپنا سفر جاری رکھتا ہے۔راستے میں جوں جوں آگے بڑھتا ہے،
لوگ اس سے سیراب ہوتے ہیں۔
مگر آج کل کی محبت تو کافی مہنگی اور نازک ہے۔ کیونکہ کے ملک میں بڑھتی
ہوئی مہنگائی کی شرح اور ہر سال بجٹ میں کاسمیٹکس پر قیمت دوگنی کر دی جاتی
ہیں۔ جس کو مد نظر رکھتے ہوۓ محبوبہ کی فرمائش میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
ویسے آج کل کی محبت بہت نازک ہے۔ اس لیےکہ سویرے سویرے ٹیلی وژن پر روح
افزاء ، جام شیریں جیسی لڑکیاں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ تو بندہ سارا دن
لوکل پنساری کا سیل بند شربت فولاد بنا پھرتا ہے۔ اگر ان نازک و حساس
دوشیزاٶں سے دو منٹ بات کر لیں تو پاجامہ فائنل کرنے لگ جائیں۔
میرا خدا گواہ ھے جب بھی سچے پیار والی کمینگی نازل ہوئی ہے تو پیٹ اور جیب
دونوں بھرے ہوۓ تھے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ محبوبہ کو دہی بڑوں کی اسپیشل
پلیٹ کھلانے کی بھی اوقات نہ رکھنے والے کنگلوں کے پیٹ میں ہی محبت کے
زیادہ مروڑ اٹھتے ہیں۔کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کی جیب میں محبوبہ کو انڈے
والا برگر ، پیپسی اور گول گپے کھلانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ویسے تو پیار
محبت میں پڑنا ہی ایک عظیم پاگل پنہ ھے۔ لیکن پیار میں اندھا ہونے سے اچھا
بندہ محبت میں ”کانا“ ھو جائے۔ اگر آپ کو محبت کا کیڑا ضرورت سے زیادہ تنگ
کر رہا ہے، تو بھی اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ یہ یکطرفہ ہرگز نہیں ہونی
چاہئے۔
لوگوں کو پتہ نہیں کیسےسچی محبت مل جاتی ہے۔ مجھ سے تو دہی لانے کے بعد
باقی پیسے تک لے لئے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کے عشق کا پتا ہی تب چلتا ہے ،جب
محبوبہ سے شادی نہ ہو۔ عشق اور پولیو، ہوتے صرف ایک بار ہیں، لیکن ِانکا
اثر تمام عمر نہیں جاتا۔ انسان کو اس کا غم پوری زندگی چین لینے نہیں دیتا۔
گزشتہ سال میں نے اپنی ایک تحریر میں مردوں کے ٹھر کی پن کے حوالے سے چند
اہم باتیں لکھی۔جس میں اپنے مشاہدے کے ذریعے مردوں کی مختلف قسم کی ٹھرک کو
واضح کیا گیا تھا۔کیونکہ مردوں کی ہر قسم عورت کے بارے میں ایک ہی انداز سے
سوچتی ہے۔اس تحریر میں مردوں کی عورت کی طرف فطری جھکاؤ اور جنسِ مخالف کی
طرف فطری کشش کو ٹھرک سے تعبیر کیا گیا تھا۔
محبت تو دو اوراح کے ملاپ کا نام ہے۔ محبت کبھی بھی ختم نہیں ہوتی بس خاموش
ہو جاتی ہے۔اور جتنی خاموش ہوتی جاتی ہے اتنی ہی زور آور ہوتی جاتی ہے۔اندر
ہی اندر شد و مد سے بولتی ہے۔ بس میں اتنا کہوں کا کہ آج کل کی محبت اپنی
شہوانی سوچ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔
لہذا محبت جیسے مقدس رشتے کو پامال نہ کریں۔ اور اس کے تقدس کو قائم رکھیں۔
میرا مقصد یہاں مردوں کی جانب سے کی جانے گھٹیا حرکتوں کا تمسخر اڑانا نہیں
تھا، بلکہ مردوں کی ٹھرک کی اقسام اور کی جانے والی محبت کو آئینہ دیکھانا
تھا۔ سارے مردوں کو ایک صف میں کھڑا کر کے ان پر یہ میری ایک احتجاجی تحریر
ہے۔ |