بانو قدسیہ کو جدا ہوئے سال بیت گیا

وہ آج بھی اپنی تخلیقات کے روپ میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گی

معروف مصنفہ ، ناول نگار بانوقدسیہ قلم کار اشفاق حسین کی زندگی کی ساتھی اور ادبی ہمسفرنے ایک سال قبل 4 فروری2017 کو اپنے داعی اجل کو لبیک کہا ، انہیں دنیا سے جدا ہوئے ایک سال ہوگیا۔ دنیائے ادب ایک بلند پائے کی ناول نگار، کہانی نویس اور افسانہ نگار سے محروم ہوگئی۔یوں تو ان کے تمام ہی ناول ، افسانے، کہانیاں اور ڈرامے اپنی اپنی جگہ پسندیدگی کے بلند مقام پر ہیں لیکن ان کے ناول راجہ گدھ اور امربیل کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے جو پاکستانی معاشرے کی سچائی کا آئینہ دار اور تلخ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پر مبنی ہے۔ ان کے ناولوں، افسانوں، کہانیوں اور ڈراموں کو پاکستان ، ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے پسند کیا گیا۔ ان کے اِن شہرہ آفاق ناولوں کو نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی پزیرائی ملی ۔ ’راجہ گدھ‘ نے بانوں قدسیہ کو دنیا کے چوٹی کے ناول نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔فیس بک کے شاعر دوست ضیاء
شہزاد ؔ نے بانو آپا کی جدائی کو خوبصورت الفاظ میں اس طرح خراج تحسین پیش کیا ؂
سُونی سُونی ہوگئی بزمِ ادب
آج بانوؔ آپا بھی رخصت ہوئیں
منتظر جنت میں تھے اشفاق ؔ بھی
مرحبا ! وہ داخلِ جنت ہوئیں

ادبی شخصیت ظہیر الحسن جاوید نے بہت سچ کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب کو یہ دنیا چھوڑ کے جانا ہے مگر کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو سوچ کا ایک دائرہ بناتی ہیں ، اور ایک بڑا طبقہ ان کی سوچ سے متاثر ہوجاتا اور یوں ایک طبقے کی کردار سازی ہوتی ہے ، محترمہ بانوقدسیہ بھی ایسی ہی راہنما شخصیت تھیں، علم اور زبان پر ان کی گرفت بڑی مضبوط اور وہ زندگی کو مذہبی خطوط پر استوار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں‘۔ بلاشبہ بانوں قدسیہ کی شخصیت بے بہا خوبیوں کا خزانہ لیے ہوئے تھی۔ وہ بجا طور پر اردو ادب کادرخشندہ ستارہ تھیں آٹھ دیہائیوں تک ادب کی دنیا میں اپنی چمک دمک سے علمی و ادبی دنیا کو منور رکھا۔ وہ از خود تو اُس دیس چلی گئیں جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آیا کرتا لیکن وہ اپنی خوبصورت تحریروں کا حسین جھومر چھوڑ گئیں ہیں جو ادب کی دنیا میں انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا ۔ بانوں قدسیہ کی رحلت سے اردو فکشن کے ایک دور کا اختتام ہوگیا ، ایک عہد تمام ہوا، ادب کا سنہری باب بند ہوگیابقول حمزہ حامی ’سرائے ادب کی آخری مسافر ، دنیا ئے ادب کا ایک عظیم درخشاں ستارہ ، ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا‘۔ بانو آپا کی زندگی کا سفرجو 28نومبر1928میں ہندوستان کے شہر فیروزپور مشرقی پنجاب سے شروع ہوا تھا پاکستان کے شہر لاہور میں 4 فروری 2017کو 88سال 2ماہ اور7دن علم و ادب کی دنیا میں آب و تاب دکھانے کے بعداختتام کو پہنچا لیکن اپنے پیچھے ایسی روشن مثال چھوڑ گیا جو بانوقدسیہ کی یاد ایک طویل عرصہ تک دلاتا رہے گا۔’ہماری ویب‘ کے ایک دوست کالم نگار ، شاعر و ادیب محمد ارشد قریشی ارشیؔ نے بانوقدسیہ کو ادیبوں کی ماں کہا ،ارشیؔ کا خوبصورت شعر ؂
آج ٹوٹا ہے ادب کا بڑا روشن ستارہ
آج بچھڑی ہے اک ما ں ادیبوں سے

ایک جانب ارشی ؔ نے بانوآپا کو ادیبوں کی ماں کا خطاب دیا تو دوسری جانب معروف ادیب، شاعر اور کالم نگار عطأ الحق قاسمی نے اپنے کالم ’بانو آپا کی وصیت‘ شائع شدہ روزنامہ جنگ 9فروری2016میں بانو قدسیہ کے بارے میں لکھا ’ میں بانو قدسیہ کو اردو ادب کی مدر ٹریسا سمجھتا ہوں ، میرے نزدیک مدر ٹریسامامتا کی علامت ہے اور بانو آپا کی شخصیت کا اگر نچوڑ بیان کیا جائے تو وہ ایک ہی لفظ یعنی ’’مامتا‘‘ میں سمویا جاسکتا ہے۔ سراپا محبت ، سراپا شفقت، دعائیں ہی دعائیں! کوئی چھوٹا ہو یا بڑا،ان کے سامنے آتا تھا تو ایک معصوم سا بچہ بن جاتا تھا جو بانوآپا سے محبتیں ، دعائیں اور شفقتیں سمیٹ کر
جاتا تھا‘۔ بقول شیوا بریلوی ؂
کوئی آساں نہیں س ناصح مشفق بننا
کچھ سلیقہ بھی درکار نصیحت کے لیے

بانو قدسیہ نے دیہات کے ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی، ان کا خاندان زراعت کے پیشے سے وابستہ تھا لیکن حصول علم اس خاندان کا تأہ امتیاز تھا۔ لڑکے ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی مضبوط روایت اس خاندان میں پائی جاتی تھی۔ بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے فیروز پور میں حاصل کی۔ بانوں قدسیہ ابھی تین ساڑے برس کی تھی کہ اپنے والد بدر الزماں کے سائے سے محروم ہوگئیں۔ ان کے والد کا انتقال 31برس کی عمر میں ہوگیاتھا،ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر اُس وقت 27برس تھی۔ جوانی میں بیوگی کے غم کے ساتھ اولاد کی پرورش کی ذمہ داری کو انہوں نے حوصلے اور دانشمندی سے انجام دیا ۔ذاکرہ بیگم نے اپنی بیٹی بانو کی پرورش اس انداز سے کی کہ ان کی بیٹی ادب کے میدان میں امر ہوگئی۔بانو کے والد سرکاری ملازم تھے اور اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز تھے جب کہ ان کی والدہ محکمہ تعلیم میں ملازم تھیں بعد میں انسپیکٹرہوئیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بانوں قدسیہ کو کہانی نویسی کا فن قدرت کی جانب سے ودیعت ہوا تھا ۔ اس لیے کہ فیروز پور ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، وہاں کا ماحول دیہاتی تھا لیکن لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جاتی تھی۔فیروز پور سے میرا بھی کچھ کچھ تعلق اس طرح ہے کہ میری والدہ اس شہر کے بارے میں اکثر بتا یا کرتی تھیں، میرے نانا پٹواری تھے ، ان کا تبادلہ فیروز پور ہوگیا ، اس طرح میری والدہ اور دیگر احبا ب نے فیروز پور میں کچھ وقت گزارا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ میری نانی کا انتقال بھی فیروز پور ہی میں ہوا اور وہ مشرقی پنجاب کے اِسی قصبے میں ابدی نیند سو رہی ہیں۔ بانو قدسیہ نے اپنی والدہ اور بھائی کے ہمرہ فیروزپور سے گرداس پور اور پھر 1936میں ’دھرم مسالہ‘منتقل ہوگئے۔ میٹرک تک کی تعلیم بانو قدسیہ نے انہیں قصبو ں اور دیہاتوں میں حاصل کی۔

بانوں قدسیہ ابھی پانچویں جماعت میں تھی جب اُس نے کہانی لکھنے کی ابتدا کی ۔ اپنے لکھنے کی ابتدا کے بارے میں بانوقدسیہ کا کہنا تھا کہ ان کے اسکول میں ہر سال ثقافتی پروگرام کا انعقاد ہوتا اس میں ڈراما فیسٹیول بھی شامل ہوا کرتا تھا ۔ اس وقت جب کہ وہ پانچویں جماعت میں تھی ان کے اسکول میں ہر کلاس کو ایک ڈراما پیش کرنا تھا ، اس موقع پر بانوں کی کلاس میں یہ مشکل پیش آئی کہ ڈرامہ کون لکھے گا، بانوکی ہم جماعتوں اور اسکول کی استانیوں کو یہ علم تھا کہ بانوں قدسیہ کلاس میں ’ڈرامائی باتیں‘ کیا کرتی ہے، اِسے لکھنے کا شوق بھی ہے،پڑھنے میں بھی طاق تھی، چنانچہ ڈراما لکھنے کی ذمہ داری بانوں قدسیہ کو سونپ دی گئی ۔ بانو کہتی ہیں کہ’ انہوں نے اس ذمہ داری کو اپنے لیے ایک کڑا امتحان تصور کرتے ہوئے قبول کیا اور ایک ڈراما تحریر کیا جوان کی کہانی نویسی کانقطۂ آغاز تھا۔اس کے بعد کہانیاں، ڈرامے اور افسانے لکھنے کا سلسلہ شروع ہوگیاجو میٹرک تک جاری رہا‘ ۔ وہ لکھتی تو رہیں لیکن چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔ اس دوران انہوں نے بے شمار کہانیاں، افسانے اور ڈرامے لکھ لیے تھے۔ ان کی تحریروں کی اشاعت کا سلسلہ اشفاق احمد سے ان کی شادی کے بعد شروع ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ 1950میں لاہور کے ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ افسانے کی اشاعت بقول بانوقدسیہ ان کے شوہر کی مرہون منت تھی۔

بانوں قدسیہ کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے ہی گورداس پور سے لاہور آگیا تھا۔ لاہور میں اپنے قیام کے دوران بانوں قدسیہ نے اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے کیا اور 1947 میں کنیئرڈ کالج لاہور سے بی اے کا امتحان دیاابھی نتیجہ نہیں آیا تھا کہ پاکستان کا قیام یقینی دکھائی دیا تو یہ خاندان اس خیال سے کہ ان کا آبائی قصبہ پاکستان کا حصہ ہوگا واپس گورداس پور چلا گیا۔ تقسیم ہند کا اعلان ہوا تو ہندوستان کے ہندو لیڈروں نے انگریز کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے بہت سے علاقوں کو جو پاکستان کا حصہ بننا طے ہوچکے تھے ، آخری وقت میں ان علاقوں کو ہندوستان میں شامل کروالیا۔ ان میں سے ایک گورداس پور بھی تھا۔ یہ خبر کہ گورداس پور ہندوستان کا حصہ ہے بانوں قدسیہ کے خاندان پر بجلی بن کرگر ی۔اس خاندان نے فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان میں ہر گز نہیں رہیں گے اور پاکستان ہجرت کر جائیں گے۔ چنانچہ ان کے خاندان نے رات کی تاریکی میں گاڑیوں اور ٹرکوں پرگورداس پور سے لاہور کا قصد کیا ، اس سفر میں اس خاندان کے متعدد افراد کو ہندواور سکھ انتہا پسندوں اور پاکستان دشمنوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے باوجود خاندان کے زندہ بچ جانے والے افراد اپنے مقصد میں کامیاب ہو ئے اور لٹ پٹ کر لاہور پہنچے ان میں بانو قدسیہ بھی تھیں۔لاہور پہنچ کر کچھ اوسان بحال ہوئے تو زندگی کی گاڑی کو پھر سے رواں دواں رکھنے کی سئی شروع ہوئی، کالج جاکر معلوم کیا تو بانو قدسیہ کا بی اے کا رزلٹ آچکا تھا اور وہ نمایاں حیثیت سے کامیاب تھی۔ بانو قدسیہ نے میتھ اور معاشیات کے مضامین کے ساتھ بی اے کیا تھا۔ لیکن بانو قدسیہ کی والدہ کو کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اسے اردو میں ایم اے کراؤ اس لیے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، مستقبل میں اردو میں ایم اے زیادہ فیض پہنچائے گا۔چنانچہ قدسیہ نے گورنمنٹ کالج لاہور کا رخ کیا اور ایم اے اردو میں داخلہ لے لیا۔یہ وہ دور تھا جب بانو قدسیہ کی زندگی میں اشفاق احمد شامل ہوجاتے ہیں ۔ اِس آغازِ ملاقات کا اختتام ان دونوں کی شادی پر ہوتا ہے ۔

بانوں قدسیہ کے اشفاق احمد سے ملاپ کی داستان ، جب اشفاق احمد زندہ تھے وہ سناتے رہے ۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی پروگرام میں دونوں نے اپنی زندگی کی داستان بیان کی۔ معروف وکیل اور ٹی وی اینکر نعیم بخاری کے ساتھ بانوں قدسیہ اور اشفاق احمد نے اپنے ملاپ کی داستان سناتے ہوئے بتا یا کہ انہوں نے 1949میں گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا، ایم اے کی سطح کی غالباً یہ پہلی کلاس تھی اس میں تین لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں ، ان میں اشفاق احمد ، بانوقدسیہ کے علاوہ قیوم نظر بھی تھے۔ اشفاق احمد صاحب کے بقول انہوں نے بانوں میں کچھ ایسی خوبیاں اور اچھائیاں دیکھیں جو ان میں نہیں تھیں چنانچہ اشفاق احمد کے کہنے کے مطابق انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ خوبیاں تو میرے اندر پیدا ہونہیں سکتیں کیوں نہ ان اچھائیوں اور خوبیوں کی حامل کو اپنے گھر ہی لے جاؤں اور انہوں نے محترمہ بانوقدسیہ کو باقاعدہ پیغام دیدیا۔ بانوقدسیہ مشرقی پنجاب کے چٹھہ خاندان سے تعلق رکھتی تھی جب کہ اشفاق احمد ’خان‘ تھے یعنی ان کا خاندان پٹھان تھا۔ بہ ظاہر ملاپ مشکل تھا، خان صاحب کے خاندان نے دیوار بننے کی کوشش کی لیکن دونوں کی محبت سچی تھی، عشق کو فتح ہوئی ۔البتہ دونوں کی کوخواہش کی تکمیل میں سات برس لگے۔ اشفاق احمد کی ذہانت، عاجزی، انکساری ، خاکساری، فروتنی نے سیدھی سادھی ، معصوم سی، بھولی بھالی، غرور، تکبر اور گھمنڈ سے نہ آشنا بانوپر ایسا کام دکھا یا کہ اس نے اشفاق احمد کے ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھا نے کا فیصلہ کر لیا اور حسن و خوبی کے ساتھ اس فیصلے کو 61برس نبھایا۔آتشؔ نے کہا ؂
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو

بانوقدسیہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی اشفاق احمد میں اعلیٰ لکھاری والی خوبیاں دیکھیں ، وہ کلاس میں ان کی مدد کیا کرتے تھے ، اشفاق احمد کی وجہ سے بانوقدسیہ کا ایک افسانہ بلکہ پہلی تحریر بعنوان ’داماندگی شوق‘ ادبی جریدے ’ادب لطیف‘ میں شائع ہوا۔ یہ بانوقدسیہ کی تحریر چھپنے کا نقطہ آغاز تھا۔ بانوقدسیہ کو بھی اشفاق احمد بہا گئے ، اچھے لگے، یہاں تک کہ اشفاق احمد کا سائیکل پر کالج آنا جانا بھی بانوقدسیہ کو اچھا لگتا تھا۔ بنیادی طور پر وہ سادگی پسند تھیں، بناوٹ نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اشفاق احمد کا شادی کا پیغام 1956 میں قبول کر لیا گیا اس طرح یہ ادبی شخصیات زندگی کے سفر کی ساتھی ہونے کے ساتھ ادب کی ساتھی بھی بن گئیں ۔دونوں ایک سے ایک بڑھ کر، اشفاق صاحب کا پلڑا بھاری تھا، بانوآپا کا کہنا تھا کہ ’میں انہیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ہوں، جو کچھ مجھے آپ آج دیکھ رہے ہیں وہ اشفاق احمد صاحب کی وجہ سے ہوں‘۔ دونوں نے اردو ادب کے لیے جو کام کیا وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ ایک انٹر ویو میں بانو قدسیہ نے کہا کہ’انہوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقت کے میری شادی نہیں ہوگئی پھر اشفاق احمد میرے بڑے معاون مدد گار بلکہ استاد ہوئے، اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا، بلکہ کئی دفعہ اشفاق صاحب نے میری حوصلہ افزائی اور حوصلہ شکنی
بھی کی اور میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے ۔ زندگی کے آخری لمحات تک ان کا رویہ استاد کا رہا میں انہیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ، آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اشفاق احمد کی وجہ سے ہوں‘۔

بانو قدسیہ خوبصورت اور دھیمے لب و لہجے کی مالک تھیں۔ اپنے شوہر اشفاق احمد کی شریک قلم بھی رہیں، دونوں نے ریڈیو کے لیے لکھا، ٹی وی کے آجانے کے بعد پی ٹی وی نے ان پر قبضہ کر لیا اور وہ دونوں ٹی وی ڈراموں کے ہی ہوکر رہ گئے۔ایک کا ڈرامہ ختم ہوتا تو دوسرے کا شروع ہوجاتا۔ بانوقدسیہ کا پہلا ٹی وی ڈرامہ ’سدھراں‘ تھا، طویل ڈراموں میں دھوپ جلی، خانہ بدوش، کلو اور پیا نام کا دیا شامل ہیں۔ 1981میں بانوقدسیہ کا ناول ’راجہ گدھ‘ شائع ہوا جس نے انہیں ناول نگاری کی بلندیوں پرلا کھڑا کیا اور یہ ناول بانوقدسیہ کی شناخت بن گیا اور ہمیشہ رہے گا۔ ان کے ناولوں کی تعداد 27ہے ، جب کہ ڈرامے اور بے شمار افسانے شائع ہوئے۔ان تصانیف میں آبِ حیات ، آتش زیر یا،آدھی بات،آسے پاسے، امربیل، ایک دن،باز گشت،بحرانوں کے درمیاں، پروا،پھر اچانک یوں ہوا،پیا نام کا دریا، تماثیل، توجہ کی طالب،چہار چمن،چھوٹا شہر بڑے لوگ،حوا کے نام،دست بستہ، دوسرا دروازہ ،دوسرا قدم،راجہ گدھ ،راہ رواں، سامان وجود،سورج مکھی، سدھراں،شہر بے مثال،شہر لازوال آباد،حاصل گھاٹ، فٹ پاتھ کی گھانس،کچھ اور نہیں، لگن اپنی اپنی، مادھو لال حسین (ناول)، مردِ ابریشم، موم کی گلیاں،نا قابل ذکر اور ہجرتوں کے درمیاں شامل ہیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے بانو قدسیہ کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں2003میں ستارہ امتیاز اور 2010میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔

بانوقدسیہ کے ناول ’راجہ گدھ‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ یہ ناول اس قدر مشہور ہوا کہ ہر جانب اسی ناول کی دھوم سنائی دی۔ا س ناول کو اردو کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بہترین ناول اور بھی ہیں جنہیں ادب میں آج بھی پسندیدہ ترین ناول تصور کیا جاتا ہے ان میں مولوی نذیر احمد کا ’فسانہ آزاد‘، مرزا ہادی سودا کا ’امراؤ جانِ ادا‘، منشی پریم چند کا ’ أودان‘، قراۃ العین حیدر کا ’آگ کا دریا‘، عبدا للہ حسین کا ’اداس نسلیں‘ ، خدیجہ مستور کا ’آنگن ‘ ، شوکت صدیقی کا’خدا کی بستی‘،انتظار حسین کا ’آگے سمندر ہے‘۔ اشفاق احمد کا ’ گڈریا‘شامل ہیں۔ راجہ گدھ سے مراد ہے گدھ کا راج،ناول کی کہانی میں ایسے لوگوں اور ایسے پہلوؤں سے پردہ اٹھا یا گیا ہے جو در حقیقت گدھ کا راج بنے ہوئے ہیں۔ایسے لوگوں میں اچھے اور برے کی تمیز باقی نہیں رہی، حلال اور حرام میں تمیز کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی، مردار کھانے اور مردار کھلانے میں انہیں زرہ برابر خوف نہیں ہوتا۔ یہ ناول ہمارے معاشرے کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔ اس ناول موضوع یا پلاٹ بانوقدسیہ کو اس طرح ملا کہ اس نے اپنے گھر میں کام کاج کے لیے ایک لڑکا ملازم رکھا جو مذہب کے اعتبار سے ہندو تھا۔ ایک دن اس بچے نے بانو سے پوچھا کہ اسلام میں ایسی کونسی خوبی یا نیا پن ہے جو دوسرے مذ ہب میں نہیں۔ بانو قدسیہ نے بچے کو جواب تو دیا لیکن نہ تو بچے کی تسلی ہوئی اور بانوبھی اس الجھن میں پڑ گئی کہ اس بچے کے سوال کا مطمئن بخش جواب کس طرح دیا جاسکتا ہے کہ وہ مطمئن ہوجائے۔ چنانچہ بانو قدسیہ کی سوچ کا دھارا اسلام میں حلال اور حرام کی جانب مرکوز ہوا ۔کیونکہ حرام اور حلال کا جو دو ٹوک فلسفہ اسلام میں پایا جاتا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں یا اس قدر شدت کسی دیگر مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ چنانچہ بانو قدسیہ نے اِسی موضوع کو اپنے ناول کا موضوع بنا یا، ساتھ ہی اسے لاہور کی ثقافت و معاشرت سے بھی نتھی کرتے ہوئے راجہ گدھ تخلیق کیا۔راجہ گدھ کے توسط سے ناول نگار یہ پیغام دینے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے کہ رزق حرام ایک نسل تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ کینسر کے مرض کی مانند آنے والی نسل میں بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس ناول کے پیچھے اشفاق احمد کی سوچ اورعمل شامل ہونے کی آواز بلند کی جسے اشفاق احمد نے اپنے زندگی میں بہت واضع الفاظ میں رد کیا اور کہا کہ یہ ناول صرف اور صرف بانوقدسیہ کے ذہن کی تخلیق ہے، البتہ اشفاق احمد کو بانوقدسیہ کے تمام ناولوں میں راجہ گدھ زیادہ پسند تھا اسی طرح بانو قدسیہ کو اشفاق احمد کا ’’گڈریا‘‘ پسند تھا۔

دونوں میاں بیوی لکھاریوں نے اپنے خون پسینے کی حلال کمائی سے لاہور کے قدیم علاقے ماڈل ٹاؤن میں ایک گھر تعمیرکیاجس کا نام اشفاق احمد نے ’’داستان سرائے‘‘رکھا ۔ اس سے قبل وہ لاہور کے علاوے سمن آباد میں رہائش رکھتے تھے۔ اب’ دستان سرائے‘ میں دونوں لکھاریوں کی یادیں اور داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ داستان سرائے کے دونوں مکین اپنی اس محبوب سرائے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ کر لاہور کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں ابدی نیند سو چکے لیکن داستان سرائے کے در و دیوار آج بھی اپنے بنانے اورآباد کرنے والے والے محسنوں کو نہیں بھولے ، داستان سرائے جانے والوں کو اشفاق احمد اور بانوقدسیہ کی مدھر مدھر گفتگو، میٹھے اور پنجابی ملے اردو کے جملے سنائی دیتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داستان سرائے کے اصل وارث یہی کہیں کسی کونے سے نکل آئیں گے اوریہاں آئے اپنے مہمانوں سے ہم کلام ہوجائیں گے۔ دونوں بلا کے مہمان نواز ، مہمان نوازی میں ایک سیر تو دوسرا سوا سیر۔ رکھ رکھاؤوالے تھے، گھر آئے ہر ایک کی خدمت کرنا گویا ان کے فرائض میں شامل تھااور خوشی کے ساتھ۔ بقول الطاف حسین حالیؔ ؂
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کردیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت

بانوقدسیہ اور اشفاق احمد خان کو اللہ نے تین بیٹوں سے نوازا،انیق احمد خان ڈاکٹر ہیں ، انیس احمد خان کاروبار اور اثیر احمد خان بنک میں ملازمت کرتے ہیں۔ اثیر احمد خان نے اپنی والدہ بانوقدسیہ کے انتقال پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب میرے والد اشفاق احمد خان کا انتقال ہوا تھا تو گویا اس وقت میری والدہ بانو قدسیہ انتقال کر گئیں تھیں اور اب جب کہ میری والدہ حقیقی معنوں میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں ہیں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ اب میرے والد اس دنیا میں نہیں رہے۔ اثیر احمد خان کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کو اشفاق احمد خان سے بے حد محبت اور وہ ان کا حد درجہ احترام کیا کرتی تھیں ان کی جانب سے ہم بھائیوں کو سخت تاکید تھی کہ خبر دار اپنے باپ کے سامنے بلند آواز بات بھی نہ کرنا گستاخی تو بہت دور کی بات ہے۔ اثیر احمد خان نے یہ بھی بتا یا کہ میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد میری والدہ ہر جمعرات کو والد صاحب کی قبر پر جایا کرتی تھیں۔ ایسا بھی ہوا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی لیکن وہ والد صاحب کی قبر پر ہر صورت میں جایا کرتیں۔ ایک بار جب وہ اپنے بڑے بیٹے کے ہمراہ ابا کی قبر پر فاتحہ پڑھ رہیں تھیں اس وقت انہوں نے انیق احمد خان سے کہا کہ بیٹا جب میں مر جاؤں تو میری قبر اپنے ابا کے قدموں میں بنوانا۔ یہ گھڑی بانوں قدسیہ کی دعاکی قبولیت کی گھڑی تھی ۔ اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری کی ، انہیں لاہور کے ماڈل ٹاؤن قبرستان میں اپنے شوہر اشفاق احمد خان کے پہلو میں ہی جگہ ملی۔ وہ کافی عرصے سے بیمار تھیں، لاہور کے ایک اسپتال میں زیر علاج رہیں ۔ان کے انتقال سے دنیائے ادب سے تعلق رکھنے والی برادری عظیم ناول نگار اور کہانی نویس سے محروم ہوگئی۔ بانو قدسیہ کی وفات ملک اور ادبی حلقوں کے لیے نقصان عظیم ہے۔ وہ اردو ادب کا قیمتی اثاثہ تھیں۔پروردگار ان کی مغفرت فرمائے ؂
ہر آن بڑھتا ہی جاتا ہے، رفتگاں کا ہجوم
ہوا نے دیکھ لیے ہیں چراغ سب میرے
(4فروری 2018)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437220 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More