بسم اﷲ الرحمن الرحیم
افضل گرو کا مقدمہ بھارتی انصاف کے چہرے پر وہ سیاداغ ہے جو شاید کبھی صاف
نہیں ہو سکتا اور بھارت کے مکرو چہرے کو ہمیشہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرتا
رہے گا ۔9 فروری 2013 کو کشمیری نوجوان افضل گرو کو گیارہ برس کی قید و بند
کے بعد تہاڑ جیل دہلی میں چوری چھپے پھانسی دے دی گئی اور نہایت غیر انسانی
اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی لاش کو رسمی تجہیز و تکفین
کے بغیر جیل کے صحن میں ہی دفن کر دیا گیا۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت
کے حکمرانوں کا غیر انسانی رویہ ملاحظہ کریں کہ پھانسی سے پہلے افضل گرو کے
اہل خانہ کو نہ تو اس کے ساتھ آخری ملاقات کرنے کی اجازت دی گئی نہ ہی
پھانسی کے بعد میت کو ان کے حوالے کیا گیا۔ کشمیریوں نے اس ظلم و بربریت پر
سخت احتجاج کیا جو کہ مظاہروں اور ہڑتالوں کی صورت میں ابھی تک جاری ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے ارکان اسمبلی نے بھی بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ
افضل گرو کی میت اس کے اہل خانہ کے سپرد کی جائے جس کا جواب بھارتی وزیر
داخلہ سنیل کمار شندے نے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
ناں میں دیا ہے۔
افضل گرو کی کہانی 13دسمبر 2001 سے شروع ہوتی ہے جب کچھ مشتبہ دہشت گردوں
نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کیا۔ افضل گرو ایک سیدھا سادا کشمیری نوجوان
تھا اور میڈیکل کا طالب علم تھا۔ ایک مرتبہ وہ کنٹرول لائن کو عبور کر کے
آزاد کشمیر آ گیا۔ جب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ واپس چلا گیا۔ بس
اس وقت سے مقبوضہ کشمیر کی پولیس اور بھارتی سیکیورٹی فورسز نے اس پر
پاکستانی دہشت گرد کا لیبل لگا دیا۔
9 فروری کے دن سے جب دلی میں بہار نے اپنی آمد کا اعلان کیا سورج طلوع ہوا
اور قانون نے اپنی کار روائی پوری کی۔ ناشتے سے ٹھیک پہلے 2001 میں
پارلیمنٹ پر حملے کے کلیدی ملزم افضل گرو کو خفیہ طریقے سے پھانسی دے دی
گئی اور اس کی لاش کو تہاڑ جیل میں دفنادیا گیا۔اس موقع پر افضل گرو کی
اہلیہ اور اس کے بیٹے کو اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ داخلہ سکریٹری نے ذرائع
ابلاغ کو بتایا کہ حکام نے اس کے اہل خانہ کو یہ اطلاع اسپیڈ پوسٹ اور
رجسٹرڈ ڈاک سے دی ہے اور افسران نے جموں و کشمیر کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس
کو اس بات کی تفیش کرنے کا کہا ہے کہ انہیں یہ اطلاع ملی یا نہیں ۔ لیکن
بھارت سرکار نے یہ معلوم کرنا گوارا نہیں کیا کہ انہیں اطلاع ملی یا نہیں ۔کیا
فرق پڑتا ہے آخر وہ ایک کشمیری دہشت گرد کے اہل خانہ ہی تو ہیں ۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ 13دسمبر 2001 کو 5 مسلح افراد پارلیمنٹ کی گیٹ سے
دھماکو اشیا سے بھری ایک ایمبسیڈر کار میں بیٹھ کر گھس گئے ۔ جب انہیں روکا
گیا تو وہ کار سے باہر نکلے اور فائرنگ کرنے لگے ۔ ان لوگوں نے 8 سکیورٹی
اہلکاروں اور ایک مالی کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد ہوئی فائرنگ میں سبھی 5
حملہ آور مارے گئے ۔ اس وقت کے وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی نے کہا تھا کہ
دیکھنے میں وہ پاکستانی لگتے ہیں ،انہیں تو جاننا چاہئے کہ پاکستانی کیسے
دکھائی پڑتے ہیں ؟ آخر وہ خود بھی تو سندھی ہیں۔اگلے دن یعنی 14دسمبر 2001
کودہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے دعوی کیا کہ اس نے معاملہ کو حل کر لیا ہے ۔
15دسمبر کو اس نے اس معاملے کے "ماسٹر مائنڈ" پروفسیر ایس اے آر گیلانی کو
دہلی سے اور شوکت گرو اور افضل گرو کو سری نگر کی پھل منڈی سے گرفتار کیا۔
بعد میں انہوں نے شوکت کی اہلیہ افشاں گرو کو بھی گرفتارکیا۔ میڈیا نے جوش
و خروش کے ساتھ اسپیشل سیل کی کارکردگی کو ٹیلی کاسٹ کیا۔ کچھ ہیڈلائنز اس
طرح تھیں :
"دہلی یونیورسٹی کا پروفیسر دہشت کا ماسٹرمائنڈ تھا"
"یونیورسٹی کے ڈان نے فدائین کو گائیڈ کیا تھا"
"خالی وقت میں دہشت کی تعلیم دیتا تھا "
زی ٹی وی نے 13دسمبر کے نام سے ایک ڈاکیومنٹری ڈرامہ نشر کیا جو ری
کنسٹرکشن پر مبنی تھا اور جسے "پولیس کے ذریعہ داخل کی گئی چارج شیٹ کی
سچائی" پر مبنی ہونے کا دعوی کیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر
پولیس کی کہانی ہی سچ ہے تو پھر عدالتیں کس کام کیلئے ہیں ؟اس وقت کے
وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی نے اس ڈرامے کی کھل کر تعریف
کی تھی۔ دووسری طرف عدالت عظمی نے اس فلم کی ٹیلی کاسٹ پر پابندی عائد کرنے
کے مطالبے کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ میڈیا جسٹسوں کو متاثر نہیں
کرے گی۔ لیکن فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعہ افضل، شوکت اور گیلانی کو پھانسی کی
سزا سنائے جانے سے کچھ دن قبل ہی یہ فلم ٹیلی کاسٹ کی گئی تھی۔ اس کے بعد
ہائی کورٹ نے "ماسٹر مائنڈ" پروفیسر گیلانی اور افشاں گرو کوالزامات سے بری
کر دیا۔ سپریم کورٹ نے ان کی رہائی کو برقرار رکھا لیکن 5اگست 2005 کو اپنے
فیصلے میں اس نے محمد افضل کو 3-3 عمر قید اور 2 سزائے موت سنائی۔ کچھ
سینئر صحافیوں کے ذریعہ کہے گئے اس جھوٹ کے برعکس جن کے بارے میں وہی
بہترجانتے ہوں گے ، سچائی یہ ہے کہ جن دہشت گردوں نے 13/دسمبر 2001 کو
پارلیمنٹ کمپلیکس میں خونی کھیل کھیلا، افضل گرو ان میں شامل نہیں تھا اور
نہ ہی ان کے ساتھ تھا جنہوں نے "سیکورٹی اہل کاروں پر کھلی گولہ باری کی"
اور ظاہری طورپر مار دئے گئے۔6 سکیورٹی اہل کاروں میں سے 3 کا قتل کیا، یہ
بیان بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبر چندن مترا نے 7/اکتوبر 2006 کو "دی
پائنیر"میں دیا تھا۔ یہاں تک کہ پولیس کی چارج شیٹ میں بھی اس پر یہ الزام
نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ ثبوت واقعاتی ہیں ، "سازشوں کے زیادہ
تر معاملوں کی طرح یہاں بھی نہ تو مجرمانہ سازش کے ثبوت ہیں اور نہ ہی ہو
سکتے ہیں" ۔۔۔ لیکن اس کے آگے اس نے کہا کہ "یہ واقعہ جس کے باعث ہونے والی
بھاری جانی نقصان نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور سماج کے اجتماعی ضمیر
کو تبھی اطمینان حاصل ہو گا جب گناہ گار کو سزائے موت دی جائے"۔
پارلیمنٹ حملے کے معاملے میں ہمارے "اجتماعی ضمیر" کو کس نے بنایا؟ کیا یہ
وہ حقائق ہیں جنہیں ہم اخباروں سے چنتے ہیں ؟ یا ان فلموں سے جنہیں ہم ٹی
وی پر دیکھتے ہیں ؟ کچھ ایسے لوگ ہیں جو یہی دلیل دیں گے کہ عدلیہ نے ایس
اے آر گیلانی کو بری کر دیا اور افضل کو مجرم قرار دیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا
ہے کہ عدالتی عمل آزاد اور شفاف تھا۔ لیکن واقعاتی پس منظر کو دیکھا جائے
تو ایسا نہیں تھا۔فاسٹ ٹریک عدالت میں مئی 2002 میں سماعت شروع ہوئی تب
دنیا 9/11 کے بعد پھیلی منافرت سے دہلی ہوئی تھی۔ امریکی سرکار وقت سے پہلے
ہی افغانستان میں ملی اپنی "جیت" کی امید لگائے ہوئے تھی۔ گجرات میں قتل
عام جاری تھا اور پارلیمنٹ کے حملے میں قانون اپنا کام کر رہا تھا۔
مجرمانہ معاملات کی فیصلہ کن گھڑی میں ، جس وقت ثبوت پیش کئے جاتے وقت گوا
ہوں سے جواب طلب کئے جاتے ہیں ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں آپ صرف قانون
کے مدعوں پر ہی بحث کر سکتے ہیں ، کوئی نیا ثبوت پیش نہیں کر سکتے لیکن اس
کیس میں ایسا کیا گیا ۔دنیا کے تما م قوانین کے تحت ملزم کو وکیل کرنے کی
اجازت ہوتی ہے لیکن اس کیس میں بھی ایک منفرد معاملہ دیکھنے میں آیا۔ عدالت
کے ذریعہ دیا گیا ایک جونیئر وکیل اپنے موکل سے ایک بار بھی جیل میں ملنے
نہیں گیا۔ اس نے افضل کے بچاؤ میں کوئی بھی گواہ پیش نہیں کیا اور نہ ہی
استغاثہ کے گوا ہوں سے کوئی جواب طلب کیا۔ جسٹس نے ایسے حالات کے بارے میں
کچھ بھی کر پانے سے اپنی بے بسی ظاہر کی۔
یہ معاملات بھی ابھی حل طلب ہیں کہ پولیس نے افضل گرو کو کیسے گرفتار کیا؟
انہوں نے کہا کہ ایس آر گیلانی کے ذریعہ وہ اس تک پہنچے لیکن عدالت کے
ریکارڈ بتاتے ہیں کہ افضل کی گرفتاری کا پیغام گیلانی کے پکڑے جانے سے پہلے
ہی آ گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اسے "اہم تضاد" بتایا لیکن اسے یونہی چھوڑدیا۔
افضل کے خلاف جرم ثابت کرنے والے 2 خاص ثبوت تھے اس کی گرفتاری کے بعد ضبط
کیا گیا سیل فون اور لیپ ٹاپ۔ گرفتاری کے کاغذات پر گیلانی کے بھائی بسم اﷲ
نے دلی میں دستخط کئے تھے ۔ ضبطی کے کاغذات پر جموں و کشمیر کے دو پولیس
اہلکاروں نے دستخط کئے تھے جن میں سے ایک وہ تھا جس نے ماضی میں افضل کا اس
وقت استحصال کیا تھا جب اس نے "دہشت گرد" کے روپ میں خود سپردگی کی تھی۔
کمپیوٹر اور سیل فون کو سیل نہیں کیا گیا تھا جبکہ ثبوتوں کو سیل کرنا
قانونا ضروری ہوتا ہے ۔
سماعت کے دوران یہ سامنے آیا کہ لیپ ٹاپ کی ہارڈ ڈسک کا استعمال گرفتاری کے
بعد بھی کیا گیا تھا۔ اس میں صرف وزارت داخلہ کے فرضی پاس اور فرضی شناختی
کارڈ تھے جسے دہشت گردوں نے پارلیمنٹ میں داخل ہونے کیلئے استعمال کیا تھا
اور زی ٹی وی کی پارلیمنٹ کمپلیکس کی ایک ویڈیو کلپ تھی۔
تو پولیس کے مطابق مجرم ثابت ہونے کیلئے ضروری، ان تھوڑے سے ثبوتوں کو
چھوڑکر باقی تمام اطلاعات افضل نے مٹا دی تھیں اور وہ انہیں غازی بابا کو
سونپنے جا رہا تھا جسے چارج شیٹ میں اس کار روائی کا سرغنہ بتایا گیا ہے ۔
استغاثہ کے ایک گواہ کمل کشور نے افضل کی شناخت کی اور ادارہ سے کہا کہ اس
نے ہی وہ اہم سم کارڈ اسے فروخت کیا تھا جس کے ذریعہ 4دسمبر 2001 کو اس
معاملے کے تمام ملزمان رابطے میں تھے ۔ لیکن خود استغاثہ کے ذریعہ پیش کیا
گیا کال ریکارڈ بتاتا ہے کہ درحقیقت یہ سم کارڈ 6نومبر2001 کو ہی آن ہوئی
تھی۔ایسی ہی کئی اور بھی باتیں ہیں جوجھوٹ کا انبار ہیں ، من گھڑت ثبوت جن
پر عدالت نے توجہ نہیں دی اور پولیس کو سوائے ایک معمولی سی پھٹکار کے اور
کچھ نہیں کہا گیا۔ کشمیر میں خودسپردگی کئے ہوئے بیشتر دہشت گردوں کی طرح
افضل ایک آسان شکار تھا۔ ٹارچر، بلیک میل اور استحصال کا شکار۔
اس مقدمے کا سب سے افسوسناک اور بھارت کے نظام عدل کا تاریک پہلو یہ ہے کہ
ہندوسپریم کورٹ نے ان کو موت کی سزا دینے کے حکم نامے میں لکھا کہ اگرچہ
13دسمبر2001ء کے بھارتی پارلیمنٹ حملے میں ملوث ہونے کے کسی قسم کے ٹھوس
شواہد افضل گرو کے خلاف نہیں ملے، مگر بھارت کے اجتماعی عوامی احساسات کی
تسکین کی خاطر انہیں سزائے موت دینا ضروری ہے۔نامور بھارتی انسان دوست
دانشور بشمول ارون دھتی رائے کی رائے ہے کہ افضل گرو کو تختہ دار پر لٹکا
کر خود بھارتی سالمیت کے مستقبل کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا ہے۔ |