جب سیاسی قیادت سوالوں سے ایسے گھبرائے جیسے عوام ان سے گھبراتی ہے**


خیبر پختونخوا کی سیاست میں ایک عجیب سا کمال ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما جلوس اور احتجاجی جلسوں میں گرجتے برستے ہیں، مائیک ایسے پکڑتے ہیں جیسے ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ وہی غریب مائیک ہو۔ مگر جیسے ہی کوئی صحافی سامنے آجائے تو وہی گرجتے برستے رہنما اچانک خاموش، سنجیدہ اور بے بس ہو جاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہی کہا جاتا ہے “سیاست دان ہر بات کر سکتا ہے، بس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔”

اورصحافیوں نے بھی ایسا کون سا خطرناک سوال پوچھ لیا تھا؟نہ انہوں نے کوئی خفیہ فائل نکالی، نہ کرپشن کی رسید، نہ کوئی سنسنی خیز ویڈیو۔ صرف دو تین عام سے سوال تھے، وہی جو ایک عام شہری بھی بس میں بیٹھے پوچھ لیتا ہے۔ لیکن شایدصحافیوں کیو¿ غلطی یہ تھی کہ ہم نے یہ سوال براہِ راست پوچھ لیے۔ آئیے ان ”ناقابلِ برداشت“ سوالات کو ایک بار پھر دیکھتے ہیں۔

پہلا سوال: 27 ویں آئینی ترمیم — سینیٹ میں ہاں، باہر آکر نہ کیوں؟جب ایک جماعت کے تمام سینیٹرز کسی ترمیم کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو پھر عوام میں آکر اس کی مخالفت کیسے ہو جاتی ہے؟ کیا یہ سیاسی حکمت عملی ہے؟ یا یہ وہی مشہور فارمولا: اندر کچھ اور… باہر کچھ اور… سوال سیدھا سا تھا: اگر فیصلہ پارلیمنٹ میں ہو چکا، تو عوام کے سامنے اس کا الٹا بیانیہ کیوں؟ لیکن شاید یہ سادگی سیاسی دنیا کو بھاری پڑ جاتی ہے۔ دوسرا سوال: بارہ سالہ حکمرانی — ذمہ داری کس کی؟

خیبر پختونخوا میں بارہ سال ایک ہی سیاسی ڈھانچے کی حکومت رہی ہے۔ بارہ سال… ایک پوری نسل جوان ہو گئی، مہنگائی دوگنی ہو گئی، اور وہ پروجیکٹس جو 2013 میں ”شروع“ ہوئے تھے وہ اب بھی ”شروع ہی“ ہیں۔ اس دوران کرپشن کی کہانیاں، فنڈز کی کمی، اداروں کی ٹوٹ پھوٹ سب سامنے آتی رہیں۔ تو سوال یہ تھاآخر اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟کیا ہر بار موسم کا قصور بتا دیا جائے؟ یا پچھلی حکومتوں کا؟ کبھی تو ذمہ داری موجودہ حکمرانوں پر بھی آئے گی نا؟

تیسرا سوال: بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات کیوں کم کیے گئے؟ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ KP کا لوکل گورنمنٹ سسٹم پورے ملک میں سب سے مضبوط ہو گا۔ آج وہی نظام ایک رسمی ڈھانچہ بن کر رہ گیا ہے۔ اختیارات ایسے کاٹے گئے جیسے اسکول میں بچے کی غیرضروری باتیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ صحافی نے پوچھا: آخر کس حکمتِ عملی کے تحت منتخب نمائندوں کو کمزور کیا گیا؟ کیا یہ خوف تھا کہ نچلی سطح پر طاقت جانے سے اوپر والوں کی گرفت کم ہو جائے گی؟یا پھر یہ فیصلہ صرف کاغذوں میں اچھا لگتا تھا؟جو بھی ہو، سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے اور جواب اب بھی غائب۔

چوتھا سوال: پارٹی لگن اچھی چیز ہے، مگر صوبے کا کیا؟سیاست میں وفاداری اہم ہے، مگر KP میں تو وفاداری اکثر عوام کی بجائے کسی ایک شخصیت کے نام وقف ہوتی ہے۔ تقریروں میں ایک ہی نام، بیانیہ ایک ہی، نعرہ ایک ہی۔جیسے صوبہ اور عوام محض پس منظر ہوں۔ صحافی نے پوچھا: اگر آپ کی پہلی اور آخری ترجیح ایک ہی سیاسی رہنما ہے، تو پھر صوبے کے حقوق اور اس کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال بھی شاید ”منع شدہ“ فہرست میں شامل تھا۔

پانچواں سوال: اگر کل کا ذمہ دار پچھلی حکومت تھی تو آج کا ذمہ دار کون؟ کچھ سال پہلے دہشت گردی کا ہر واقعہ پچھلی حکومت کے کھاتے میں ڈالا جاتا تھا۔ آج بارہ سالہ مسلسل حکومت کے بعد بھی کیا پچھلی حکومت ہی ذمہ دار ہے؟ یہ منطق کب تک چلے گی؟ صحافی نے کہا: اگر کامیابیاں آپ کی ہیں تو ناکامیاں بھی آپ کی ہونی چاہئیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ سارا کریڈٹ آپ لیں اور ساری خرابیوں کا ملبہ تاریخ پر ڈال دیں۔

سوال اتنے ”خوفناک“ کیوں لگتے ہیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما سوال کو حملہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ حملہ نہیں، ذمہ داری ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ لوگ پوچھتے ہیں اور قیادت جواب دیتی ہے۔لیکن ہماری سیاست میں شاید ایک نیا اصول متعارف ہو چکا ہے: “سوال صرف وہی پوچھا جائے جو ہم بتائیں۔” اس میں میڈیا کا کیا قصور؟صحافی سوال پوچھتا ہے، تعریف نہیں۔

احتجاجی اسٹیج پر تو ہمارے سیاست دان ایسے للکارتے ہیں جیسے اگلے لمحے انقلاب آ جائے گا۔ ہجوم سے تالیاں بھی مل جاتی ہیں، نعرے بھی، تالیفِ دل بھی۔ لیکن جیسے ہی کوئی رپورٹ یا سوال سامنے آئے تو اچانک سب جذبے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اسٹیج پر سوال نہیں ہوتے، صرف نعرے ہوتے ہیں۔ اور نعرے جواب نہیں مانگتے۔ میڈیا کے سوال ’غیر سیاسی‘ نہیں ہوتے — یہ عوام کی آواز ہوتے ہیں

یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ صحافی سوال اپنے دل کی خواہش پر نہیں پوچھتا۔ وہ وہی پوچھتا ہے جو عوام پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ جو لوگ ٹیکس دیتے ہیں جو برسوں انتظار کرتے ہیں جو بار بار وعدے سنتے ہیں اور جنہیں بدلے میں جواب نہیں ملتا۔ اگر حکومت درست کام کرے تو سوال نرم ہو جاتے ہیں۔ اگر حالات خراب ہوں تو سوال سخت ہو جاتے ہیں۔ بات اتنی سیدھی ہے۔ سوال پوچھنا جرم نہیں — قیادت کے لئے آئینہ ہے

سوال آئینہ ہے۔ اور شاید ہماری قیادت آئینہ دیکھنے کی عادی نہیں رہی۔ وہ صرف وہ منظر دیکھنا چاہتی ہے جس میں وہ خود ہیرو نظر آئے۔ جہاں ہر غلطی ”ماضی“ کی ہو اور ہر کامیابی ”موجودہ“ کی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ سیاست نے جواب دینا چھوڑ دیا ہے اور میڈیا نے سوال پوچھنا نہیں چھوڑا۔ آخری نکتہ: قیادت کو سوال برداشت کرنے کی تربیت ضروری ہے KP کے عوام کو ایسی قیادت چاہیے جو صرف جلسوں میں نہیں، حقیقت میں بھی خود پر نظر ڈال سکے۔ جو سوالوں کو تنقید نہ سمجھے اور جواب کو کمزوری نہ سمجھے۔

جب تک سیاسی لیڈر اس خوف سے باہر نہیں آئیں گے، یہی ہوتا رہے گا: بڑی تقریریں، بڑے وعدے، بڑے نعرے… اور جب صحافی سوال کرے تو خاموشی۔ ہم اپنا کام نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم سوال پوچھتے رہیں گے۔ کیونکہ یہ سوال ہم نہیں، عوام پوچھتے ہیں۔ اور عوام سے بڑا کوئی نہیں۔


#England #UKPolitics #BritishPressView #LondonAnalysis #UKDemocracy #GlobalVoices #MediaFreedom #PoliticalAccountability #PressQuestions #BritishPublicOpinion

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 869 Articles with 702841 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More