سیاست کی ’سلیکٹیڈ معیشت‘ اور سوئے نہیں، سلائے گئے عوام
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
سیاست میں ایک اصول ہوتا ہے۔ اگر بیان آپ کے حق میں ہو تو یہ تدبر ہے۔ اگر وہی بات کوئی اور کہہ دے تو یہ ملک دشمنی ہے۔ اور اگر حالات بدل جائیں تو کبھی بھی پرانا بیان یاد دلانے والا دراصل ایجنڈے پر ہے۔ ستمبر 2019 کا یہی وہ سنہری موڑ تھا جب کہا گیا کہ ”اس وقت حالات ایسے نہیں کہ این ایف سی میں صوبوں کو زیادہ حصہ دیا جائے“۔ وجہ بھاری تھی۔ ملک مشکل میں تھا۔ معیشت نازک تھی۔ خزانہ دباو میں تھا۔ اور سب سے مضبوط دلیل یہ کہ ”ہماری حکومت“ تھی۔
یہاں سے سیاست کا وہ ابواب شروع ہوتا ہے جو نہ آئین میں ہے اور نہ قانون میں۔ بس دماغوں میں محفوظ ہے۔ جب معاشی تنگی ہو اور تخت پر ”ہم“ بیٹھے ہوں تو قربانی کا بکرا عوام ہے، اور جب تخت پر ”وہ“ بیٹھے ہوں تو قربانی کا بکرا پھر عوام لیکن نعرہ بدل جاتا ہے۔ اس بار ”ہم عوام کے ساتھ ہیں“۔ جملہ وہی۔ قربانی وہی۔ بکرا وہی۔ وقتی جذبات بدل جاتے ہیں۔
کیا سیاست اتنی سادہ ہے؟ جی ہاں۔ کیوں کہ ہم سادہ عوام ہیں۔ بلکہ یوں کہیں ہمیں ”سادہ“ رکھا گیا ہے۔ جب بھی کسی نے پوچھا کہ پہلے کیوں نہیں، تب کیوں نہیں، اب کیوں نہیں، تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ملک کی خاطر خاموش رہیں۔ یعنی سوال پوچھنا ملکی سالمیت پر حملہ ہے اور غلط وقت پر اعتراض دہشت گردی کے برابر۔ ایڈجسٹ کر جائیں۔ برداشت کر لیں۔ صبر کر لیں۔ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور یہ نازک دور کی عمر ماشااللہ 76 سال سے اوپر ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں ابھی چلتا رہے گا.
اب بات کرتے ہیں خیبر پختونخوا کی۔ جسے ہر حکومت نے سب سے زیادہ ”اہم“ کہا۔ ہر تقریر میں پہلا نام لیا۔ ہر وعدے میں سب سے آگے رکھا۔ اور بجٹ میں... خیر، یہاں بات بدل دی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا کو ہمیشہ کہا گیا کہ آپ ہمارے دل میں ہیں۔ بجٹ جیب میں ہوتا ہے۔ دل صاف، جیب خالی۔ یا یوں کہہ لیں دل کا وعدہ، جیب کا بہانہ۔ کیونکہ صوبوں کا حصہ دینا ”جب ہم حکومت میں ہوں“ ممکن ہے، مگر جب کوئی اور ہو تو خطرہ ہے، ملک کے لیے ممکن نہیں، اور عوام سے کہیں کہ مشکل فیصلے قومیں کرتی ہیں۔
یہ وہ لطیفہ ہے جس پر عوام ہر دور میں ہنستے بھی ہیں اور روتے بھی۔ لیکن یہ ہنسی اور رونا دونوں کنٹرولڈ ہوتے ہیں۔ میڈیا اگر زیادہ ہنسے تو اسے سنجیدہ رہنے کا کہا جاتا ہے۔ اگر زیادہ روئے تو کہا جاتا ہے منفی تاثر نہ پھیلائیں۔ اور اگر سوال کر دے تو اسے یاد دلایا جاتا ہے کہ ملک دشمن کون ہے اور ملک دوست کون۔
اب بات کریں کے پی کے کے عوام کی۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کے لوگ سادہ، بہادر اور خواب دیکھنے والے ہیں۔ لیکن خواب دودھ اور شہد کے نہیں۔ بس سڑک، پانی، بجلی اور اپنے حصے کی وہ رقم جو فیصلہ سازی کی میز پر اکثر ”اگلے اجلاس“ تک منتقل کر دی جاتی ہے۔ یہاں کے عوام صرف سوئے ہوئے نہیں، جنہیں سمجھایا گیا کہ سوئے رہو تو اچھا ہے۔ کوئی جگائے تو وہ سازش ہے۔ بعض کو لگتا ہے کہ کے پی کے عوام اب بھی مخلص ہیں، مگر شاید وہ مخلصی اب تھک چکی ہے۔ کیونکہ انتظار بھی کبھی کبھی احتجاج بن جاتا ہے۔
اگر سیاست یہ ہے کہ جب ہم ہوں تو اختیار پورا، اور جب نہ ہوں تو اختیار صفر۔ تو پھر یہ عوام آخر کس کے دور میں زندہ رہیں؟ سوال بنتا ہے کہ جب 2019 میں حالات نہیں تھے تو کیا بتایا گیا کہ حالات کب ہوں گے؟ یا یہ حالات صرف حکومت کے ساتھ آتے اور جاتے ہیں؟ کیا خزانہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشروط ہے؟ کیا معیشت جماعتی شناخت رکھتی ہے؟ کیا لوگوں کے گھروں میں چولہا حکومتی ٹینور دیکھ کر جلتا ہے؟
سیاست کے استاد کہتے ہیں صرف بیانیہ بدلو، حقیقت نہیں۔ عوام کی یاداشت پر انحصار رکھو، اور اگر کوئی پرانے کاغذ لہرائے تو کہہ دو کہ سیاق و سباق بدل گیا ہے۔ اور اگر وقت بدل گیا ہو تو بیان اپنی مراد خود بتا دیتا ہے۔ اور اگر کوئی ثابت کر دے کہ مراد وہ نہ تھی تو بھی معاملہ طے ہے۔ ”میرا مطلب یہ نہیں تھا“ وہ پاس ورڈ ہے جو ہر دور کی سیاست میں کارآمد ہے۔
غور کریں تو ہماری سیاست میں صرف دو موسم ہیں۔ اقتدار اور اپوزیشن۔ بارش صرف اپوزیشن پر برستی ہے۔ دھوپ صرف اقتدار کو ملتی ہے۔ اور عوام کی چھت لکیر کے دونوں طرف ٹپکتی رہتی ہے۔ کے پی کے عوام نے ہر دور میں اس چھت کے نیچے کھڑے ہو کر امید کی ہے کہ شاید اس بار درست فیصلے ہوں، لیکن فیصلے اکثر تخت کی مجبوریوں کے مطابق بدل جاتے ہیں۔ تخت بدل جائے تو منطق بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔
ایک سوال ذہن میں آتا ہے۔ کیا واقعی عوام سوئے ہوئے ہیں؟ نہیں۔ وہ جاگتے ہیں۔ سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں۔ شاید آواز نہیں اٹھاتے۔ شاید موقع نہیں ملتا۔ شاید بولنے کی قیمت زیادہ ہے۔ یا شاید وہ بھی اب دیکھ کر ہنستے ہیں جیسے مزاحیہ ڈراما دیکھ کر ہنسا جاتا ہے جس کا انجام پچھلے قسط میں ہی سمجھ آ چکا ہوتا ہے۔
آخر میں ایک مشورہ مفت میں۔ عوام اب سوئے نہیں۔ انہیں سلایا گیا۔ انہیں مصروف رکھا گیا۔ کبھی روٹی کی فکر میں، کبھی قرض کی لائن میں، کبھی وعدوں کی تقریر میں۔ سیاست دان آتے جاتے رہتے ہیں۔ تقریریں بدلتی رہتی ہیں۔ مگر سوال ابھی تک وہی ہے۔ اگر حالات 2019 میں نہیں تھے تو کب ہوں گے؟ اور اگر اس قوم کے حالات صرف حکومت کی پسند سے جڑے ہیں تو پھر عوام کا ووٹ نہیں، بس خاموشی اہم رہتی ہے۔
یہ کالم طنز ہے، مگر حقیقت کی بنیاد پر۔ ہنستے ہوئے سوچیں۔ کیونکہ سوچنا منع نہیں، صرف مشورہ ہے کہ زیادہ نہ سوچیں۔ بصورت دیگر سیاق و سباق کے چکر میں آپ بھی ”مخالف بیانیہ“ میں شمار ہو سکتے ہیں۔کیونکہ یہاں اصول سیدھا ہے۔ جب ہم ہوں تو سب جائز۔ جب وہ ہوں تو سب ناجائز۔ اور عوام؟ وہ ہمیشہ انتظار میں۔ کبھی جاگنے کے، کبھی جگائے جانے کے، اور کئی بار صرف اس لیے کہ خواب دیکھنا بند نہ ہو۔ عوام سوئے نہیں، بس سلا دیے جاتے ہیں۔ فرق سمجھنے میں وقت لگتا ہے، مگر سچ وہی رہتا ہے
#kikxnow #digitalcreator #political #junction #musarratullahjan
|