جدید نسل کے جدید مسائل

وضع میں تم ہونصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
۱۴۵۰میں جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوئی، وہ وقت ٹیکنالوجی کو گلے لگانے کا تھا لیکن تب مسلمانوں نے فتوے لگائے او ر آج جب ٹیکنالوجی کو ضرورت کے تحت استعمال کرنے کی ضرورت ہے تو اسکا بے جا، بے دھڑک ، بے دریغ اور بے خوف استعمال کیا جارہا ہے، بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کڑوا سچ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمان فتوے لگاتے رہے اور باقی ممالک میں علم پھیلتا گیافتوے لگانے اور پرنٹنگ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ہم۵۰۰سال پیچھے رہ گئے یہی وجہ ہے کہ پچھلی پانچ صدیوں میں مسلمانوں کی ایجادات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

دورِ حاضر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور ترقی نے کافی حد تک بہتری حاصل کر لی ہے ، نت نئی ایجادات کے نام پر ایسی ایسی مشینیں بنا لی گئی ہیں کہ انسان سہل پسندی کی دلدل میں دھنس چکا ہے ،انسانوں کا جتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، انسانیت اتنی ہی تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے۔ ہاں تعلیم تو ہم نے حاصل کر لی مگر شعور کے لفظ سے دُور دور تک کوئی شنا سائی نہیں ! ہم ڈیجیٹل دنیا میں اتنا غرق ہو گئے ہیں کہ خونی رشتوں کا بھی احساس کھو چکے ہیں ۔کسی مشہور شخصیت کا کسی سوشل سائیٹ پر لائیو آنا تو کسی قدر سمجھ آ تا ہے،لیکنایک کم سن طالب علم کا جو ابھی تعلیم کی بنیادی سیڑھیا ں بھی طے نہیں کر پایا ،اسکا لائیوآنااور اپنا وقت اپنے ہی ہاتھوں ضائع کرنا میری سمجھ سے بالا تر ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ اسطرح کی کئی سرگرمیاں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جن کا سوائے وقت، پیسہ ، اور انرجی ضائع کرنے کے اور کوئی فائدہ نہیں ۔اردو زبان جو ہماری قومی زبان کا درجہ رکھتی ہے اسے بولنے میں ہم جاہل اور شرمسار ہوتے ہیں لیکن انگریزی زبان کو بولنے میں ہم خود کو تعلیم یافتہ اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ہم مادیت پرستی کی اس گہری وادی میں پہنچ چکے ہیں جہاں واپسی کے دور دور تک کوئی امکانا ت نظر نہیں آتے اور کسی دن اسی گہری وادی میں ہی موت کافرشتہ پہنچ جائے گا اور پھر ہمارا نام و نشان بھی اس صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ڈیوائسز جن کا استعمال بے جا حد تک بڑھ چکا ہے یہ کس طرح جسمانی لحاظ سے ہمیں نقصان پہنچاتی ہیں جیسا کہ الیکٹر ومیگنیٹک ریڈی ایشنز اور ریڈیو ویوز ہمارے جسمانی خلیوں کو تبا ہ کرنے کے لیے کافی ہے اسکی ایک ویو بھی اگر ڈی این ایتک پہنچ جائے تو انسانی نظام تبا ہ کر سکتی ہے ۔ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان ریڈ ی ایشنز کا رداس تین سے چار فٹ ہوتا ہے الیکن ہم لیپ ٹاپ گود میں رکھ کے بے دھڑک استعمال کر رہے ہوتے ہیں توکبھی گھنٹوں گھنٹوں موبائل ہمارے ہاتھ میں رہتا ہے اور ہم بے خوف و خطرلطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں ، یہ ویوز چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہیں پچھلے کچھ سالوں میں کینسر اور دل کے امراض کی بنیادی وجہ یہی ریڈی ایشنز ہیں ۔اسی طرح بینائی اور نظام انہضام کے مسائل بھی عام دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ان ڈیوائسز نے صرف جسمانی لحاظ سے ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے جو ڈاکہ ڈالا ہے اسکی ہمیں کہیں نظیر نہیں ملتی۔

یورپ ہماری بربادیوں کی داستان لکھ چکا ہے اس کو اب مسلمانوں پر فتح کے لیے میزائل ، ایٹمی طاقت اور حتیٰ کہ ڈرونز بھی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ الیکٹرونک ٹیکنالوجی کا جو ہائڈروجن بم ہمارے خلاف استعمال کر چکا ہے جسکی وجہ سے ہم احساس و اخلاق سے عاری ایک زندہ لاش بن گئے ہیں ،وہ ایمانی قوت جس سے کفار ہیبت زدہ رہتے تھے ، پاش پاش ہو کر خزاں کے زرد پتوں کی طرح بکھر گئی اب بھلا وہ کیونکر ا ہم جیسے دیمک زدہ لوگوں پر اپنی ایٹمی طاقت ،پیسہ اور وقت برباد کرے گا وہ جانتا ہے کہ اس نے ہمیں کھوکھلا کر اور دیمک زدہ کر دیا ہے ۔جنہیں نہ صحت کی فکر ہے ، نہ خونی رشتوں کی نہ ہی اپنے مسلمان بھائی کی۔لیکن ہمیں ابھی تک کوئی پریشانی نہیں کیونکہ ہم اپنا نام گینز بک میں دیکھنے کی خواہش تو رکھتے ہیں لیکن اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہم کسی مسیحا کو سوشل سائیٹس پر ڈھونڈھنے میں مصروف عمل ہیں ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ اللہ تعالیٰ انکی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ، ایسی قوم سے شکوہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ؂
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو!
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

میری اللہ تعالیٰ سے بس ایک ہی التجا ہے کہ یا تو ہمارے لیے مسحا کو بھیج دے یا پھر ہمارے ضمیر کو جو مرنے کے بہت قریب ہے ، قبل اس کے کہ وہ مر جائے ، اے میرے اللہ اسکو جگا دے۔آمین !

Usman Nadeem
About the Author: Usman Nadeem Read More Articles by Usman Nadeem: 4 Articles with 3195 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.