سیاحت کا شوق تو بچپن ہی سے تھا لیکن دیس سے پردیس
اورمختلف ثقافتوں سے ہم آہنگی نے اس شوق کو اور بھی نکھار دیا۔ پہلے پہل
تو بس گھومنے پھرنے کی حد تک محدود رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شوق
محبوب مشغلے میں بدل گیا۔ ایک قریبی دوست نے مشورہ دیا کہ میں اپنے اس شوق
کو دوسرے ایسے لوگوں سے بھی متعارف کروں جو سیروسیاحت کے شوقین ہیں۔ اس سے
دو فائدے ہوں گے۔ ایک میرا شوق، معلومات کی صورت میں دوسروں کےلئے رہنمائی
بنے گا اور دوسرا یہ کہ سیروساحت کا شغف رکھنے والوں کے تجربات سے
سیکھنےکوملے گا۔
بس پھر کیا تھا۔ ٹیکنالوجی سے آگاہی نے یہ کام آسان کردیا۔ ایک سوشل
میڈیا ویب پیج بنانے کی دیر تھی کہ جس نے مجھے انٹرنیٹ کی دینا میں سولو
ٹریولر متعارف کرا دیا۔ پہلے پہل تو دوستوں کی منت سماجت کر کے اپنے ساتھ
شامل کرتا رہا ۔ کچھ تو اپنے شوق سے اور بہت سارے میرا دل رکھنے کے لئے
شامل ہوتے رہے۔ لیکن جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ سیا حت ایک کیفیت کا نام
ہے جو صرف اُن لوگوں پرہی طاری ہوتی ہے جو دل سے اس کی طرف مائل ہوتے ہیں ۔اگر
آپ اللہ کی بنائی ہوئی خوبصورت دنیا دیکھنے اور پرکھنے کی دُہن میں مگن
ہیں اور آپکی لگن سچی ہے توپھر اسباب اور وسائل بھی بن ہی جاتے ہیں۔ ورنہ
سفر طویل،مسافعت بہت ، ہزار بہانے۔
ابتدا میں تو یہ کام کافی مشکل نظر آیالیکن محنت کبھی رایئگاں نہیں جاتی
اسی یقین کے ساتھ اپنے شوق کی تکمیل میں لگا رہا۔ آہستہ آہستہ لوگ اس
کارواں کا حصہ بنتے گئےاور اب دنیا کے مختلف تہذیب و تمدن سے تعلق رکھنے
والے ہر نسل اور زبان کے لوگ اسکا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔اور میرے اس مشغلےکی
تصاویر، ویڈیوز اور کالمز کی صورت میں حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے ہیں۔
زمین کو تمھارے لئے مسخر کر دیا گیا ہے۔بس اسی نظریے کے تحت ہر سال کسی نہ
کسی شہر ،ملک کی جانب کوچ کرتا ہوں اور وہاں موجود مختلف رنگ و نسل کے
لوگوں ،اُن کے تہذیب و تمدن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔اس سال گوروں کے
دیس میں جانے کا ارادہ کیا اور اپنے سفری کاغذات ویزہ کے لئے بھجوا دیے۔چند
دن میں ہی برطانیہ والوں نے مہرسبت کر دی کہ آپ اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں
اس لئےہمارے مہمان بن سکتے ہیں۔(مہربانی ان کی کہ وہ اچھا آدمی سمجھتے
ہیں)
روانگی
کچھ دوستوں سے رابطہ ہوا اوراپنے سفر کی خبر دی ۔اُنھوں نے گرم جوشی سے خوش
آمدید کہا۔ کچھ سفری معلومات لیں اور سفر کی تیاری شروع کردی۔(یہاں ایک
بات قابل ذکر ہے کہ پردیس میں رہنےوالے دیسی لوگ ویسٹرن کلچر کی تیز رفتار
اور چکا چوند کر دینے والی زندگی میں اس بری طرح جکٹرے ہوتے ہیں کہ اُن کے
پاس کسی مہمان کےلئےوقت نکالنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اوراگر کوئی آپ کے
لئے وقت نکال رہا ہے تو یقین جانئےوہ آپ کے لئے بہت بڑی قربانی دے رہا
ہے۔) بس میرے بھی کچھ ایسے ہی مخلص دوست تھے جنھوں نے نہ صرف تمام سفری
معلومات فراہم کیں بلکہ میرے سارے سفر کے دوران میرے لاکھ منع کرنے کے
باوجود بھرپور ساتھ بھی دینے کا وعدہ کیا۔
وہ ۱۴اگست کی یادگار اور حسین صبح تھی جب ہمارا جہاز تقریبا۵گھنٹے کی طویل
مسافت کے بعدہیتھرو ائیرپورٹ پر اُترنے والا تھا۔ کپتان نے اعلان کیا کہ
ہمیں لینڈنگ میں کچھ وقت لگ سکتا ہے کیونکہ لینڈنگ کی اجازت ملنا باقی
تھی۔اس دوران جہاز نے ائیرپورٹ کے اٖطراف میں ایک دو چکر لگائے۔جس کی بدولت
فضا سے نیچے موجود حسین مناظرکا مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آگیا۔ٹکڑوں میں
بٹے ہلکے گہرے بادلوں میں سے ہلکی ہلکی چھنچھناتی دھوپ ایک حسین اور ٹھنڈی
صبح کا پتہ دے رہی تھی۔ ائیرپورٹ کے اردگرد سرسبز و شاداب مناظر ایک پرلطف
اور حسین احساس بیدار کر رہے تھے۔
گوروں کے دیس میں آمد
لندن انگلستان اورمتحدہ ریاست برطانیہ کا دارالحکومت اورسب سے زیادہ گنجان
آباد شہر ہے۔جو دریائے ٹیمز کے کنارے آباد ہے۔لندن گزشتہ دو صدیوں سے اس
خطے میں آبادکاری کا مرکز رہا ہے۔ اس شہر کی بنیاد رومیوں نے رکھی جنھوں
نے اسکا نام لنڈینیم رکھا۔
پہلی بار کسی نئی سرزمین پر قدم رکھنے کا احساس بھی الگ ہی ہوتا ہے۔اُن
احساسات اور خیالات کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ امیگریشن کاونٹر پر
پہنچے تو ایک جمع غفیر تھا۔ پتہ چلا چونکہ بچوں کے سکولوں میں چھٹیاں ہیں
اور گورے سیاحت کے بے حد دلدادہ ہوتے ہیں اس لئے عام دنوں کے نسبت زیادہ
گہما گہمی تھی۔ خیر کوئی ایک گھنٹہ انتظار کے بعد میرا نمبر آیا توکاونٹر
پر موجودایک حسین دوشیزہ نے خوبصورت مسکراہٹ سے استقبال کیا (شاید گورے،
گورے چٹے ہوتے ہیں اس لئے ہمیں حسین لگتے ہیں)۔لیکن اس خاتون کی نیلی
آنکھیں اور صاف چہرہ حقیقت میں اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا
تھا۔انتہائی شائستگی سے اس نے کچھ سوالات کئے کہ خیریت سے آنا ہوا، کدھر
ٹھہریں گے کہاں کہاں جانے کا ارادہ ہے وغیرہ وغیرہ۔باتوں باتوں میں نے اُسے
پوچھ ہی لیا کہ سنا تھا کہ گوروں کے دیس کا موسم بھی یہاں کے لوگوں کے طرح
حسین اور دل موہ لینے والا ہوتا ہےتو پھر یہ گرمی کیسی۔وہ حسین خاتون جو
اپنی روٹین کی کاروائی میں مصروف تھی۔اُس نے اپنی پلکیں جھپکیں اور نظر
اُٹھا کرشان بے نیازی سے میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی ویلکم ٹو
لندن۔ اور میرے سفری کاغذات میرے حوالے کر دیے۔
(جاری ہے) |