میاں صاحب اور مریم بی بی نے پشاور اور کشمیرجلسہ میں ایک
طرف تو اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور دوسری طرف اداروں کے بارے اپنے نا
مناسب جذبات کو کھلے ڈھلے انداز میں بیان کرتے ہوئے اقامہ نا اہلی کو عوامی
ریفرینڈم پر بھاری قرار دیتے ہوئے تنبیہ کی کہ نواز شریف مائنس کا خواب
دیکھنے والوں کا خواب آئندہ انتخابات میں ٹوٹ جائے گا کہ عوام عوامی عدالت
کی توہین کا بدلہ لیں گے اور خیبر پختونخواہ حکومت کے خلاف عوامی عدم
اعتماد ،ووٹ کے تقدس اور عدل کی بحالی کے لیے نواز شریف کا ہراول دستہ بنیں
گے ۔کشمیر ایشو کو پس پشت ڈال کر اپنا دکھڑا روتے رہے اور یہی راگ آلاپتے
رہے کہ اگر عوام نے اعتماد کیا تو تمام مسائل چٹکیوں میں حل کر دیں گے اور
مسئلہ کشمیر ’’بھی‘‘ حل ہوجائے گا۔عوام یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ چٹکی کا
دورانیہ کتنے سال کا ہے کیونکہ قبل ازیں موصوف تین چٹکیاں مار چکے ہیں جبکہ
اس دورانیے میں جو کام نہیں کیے اب ان کاموں کو اس حتمی چٹکی میں انجام
دینے کا عندیہ دے رہے ہیں اب اس چٹکی کے دورانیے کا علم صرف انھی کو ہے ۔
دوسری طرف خاد م اعلیٰ متحر ک ہو چکے ہیں انھوں نے واشگاف لفظوں میں کہہ
دیا ہے کہ اگر وہ حکومت میں آگئے تو جیسے دودھ کی نہریں پنجاب میں بہہ رہی
ہیں ویسی پورے پاکستان میں بہا دیں گے بلکہ انھوں نے تو قصور دورے سے واپسی
پر اپنا ہیلی کاپٹر کھیتوں میں اتار کر اینٹوں کے بھٹے کا دورہ کیا ،بھٹہ
مالک کو گرفتار کر لیاگیا کیونکہ وہاں بچے ’’کام ‘‘کر رہے تھے ۔خادم اعلیٰ
نے بھٹے میں موجودبچوں کو سکول بھیجنے کی تنبیہ کی اورکہا کہ ہم بھٹوں میں
بچوں کی محنت مشقت کسی صورت برداشت نہیں کریں گے،ہم نے قوم کے معماروں کو
مستقبل دیا ہے اور ان کے ہاتھوں کو گرد آلود نہیں ہونے دونگا ۔خادم اعلیٰ
کا خواب ایک خوشحال پاکستان کا ہے مگر ان کے ساتھی بد حال کرنے پر تلے ہوئے
ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی اچھا اقدام کیا گیا وہ مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا
اور یہ تو صرف ایک بھٹہ ہے ۔۔ہر جگہ بچے مزدوریاں کررہے ہیں بلکہ جگہ جگہ
بھیک مانگ رہے ہیں اور کوئی پرسان حال بھی نہیں ہے بریں وجہ دل بے ساختہ
کہہ اٹھتا ہے :
وہی حالات ہیں فقیروں کے ۔۔۔دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض ۔۔۔۔پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
اگر میاں صاحب اور بی بی مریم کی گذشتہ تقاریر اور حالیہ بیانات کا جائزہ
لیا جائے تو عوام الناس کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلائی جارہی ہے کہ
اشاروں کنایوں سے واضح کیا جارہا ہے کہ نا اہلی فیصلہ سنانے والوں کو سنگین
نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ہر وہ قانون ختم کر دیا جائے گا جو
اشرافیہ کو پابند سلاسل کرتا ہے ، حاکم وقت کو احساس دلاتا ہے کہ وہ عوامی
نمائندہ ہے اور اپنے ہر عمل کے لیے جواب دہ ہے کہ عوام منتخب کرتے ہیں تو
یقیناً پوچھنے کا حق بھی رکھتے ہیں ۔ویسے جنھیں پوچھنا تھا انھی سے میاں
صاحب نے پوچھ لیا کہ ان پر عوام کواعتماد ہے اور عوام انھیں خدانخواستہ
کرپٹ نہیں سمجھتے تو بتائیں کہ انھیں کیوں نکالا گیا ہے؟اب بیچارے سادہ لوح
کیا جانیں کہ ایون فیلڈ ضمنی ریفرینس کیا بلا ہے جس میں نیب کی تحقیقاتی
رپورٹ تیار ہو گئی ہے اور احتساب عدالت میں جمع کروادی گئی ہے جس کے مطابق
شریف فیملی بد عنوانی میں ملوث قرار پائی ہے ۔میاں نوز شریف نے ایون فیلڈ
فلیٹ خریدے اور یہ خریداری ان کی ظاہری آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی جبکہ
مریم بی بی نے ٹی وی انٹریو میں لندن جائیداد سے انکار کیا تھا ۔ویسے میاں
صاحب کے سبھی جانشین اور رفقاء کرپشن میں ملوث پائے جا رہے ہیں اور اگر یہ
کہا جائے کہ عوامی پیسہ اتنا کھایا کہ آپے میں نہ رہے تو بے جا نہ ہوگا یہی
وجہ ہے کہیں نہ کہیں سبھی توہین عدالت کے مرتکب ہو چکے ہیں مگر عدلیہ نے
بھی اپنی خاموشی توڑ دی ہے کہ نہال ہاشمی کو سزا دے دی ہے اور طلال اور
دانیال کو نوٹس بھیجے جا چکے ہیں ۔جناب چیف جسٹس نے ارادہ ظاہر کیا تھا کہ
مناسب وقت پر نوٹس لیا جائے گا یقیناً اب سبھی کو بار دیگر ہرزہ سرائی کا
جواب دینا پڑے گا ۔جناب چیف جسٹس نے عدالتی پالیسی سے متعلق اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بڑے بڑے مگرمچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے ،ایک
سال نیک نیتی اور جذبے کے ساتھ ملک کو دے دیں ،ایک سال بعد دیکھیں گے ملک
کا نقشہ بدل جائے گا ‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
قوم کو مایوس نہیں کریں گے ۔ہم پر امید ہیں جیسے کشمیری پر امید ہے اوراپنے
مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔
اس برس بھی ہمیشہ کی طرح کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے ان کے ساتھ
یکجہتی کے اظہار کیلئے قومی یکجہتی کشمیر کے نام سے 5 فروری پورے جوش و
خروش کے ساتھ منایا گیا ہے کہ کشمیر کاز پر سمینارز ، تقریبات ، پریس
کانفرسز ، جلسے ،جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں ، سیاست دانوں نے سیاسی پوائنٹ
اسکورنگ ، اینکروں نے ریٹنگ پوائنٹ اسکورنگ اور سماجی تنظیموں نے دن ٹپاؤ
اسکورنگ میں کامیاب احتجاج اور آوازہ بلند کیا ۔ لکھاریوں نے خوب سے خوب تر
کالم لکھے ، فیچررائٹروں نے کشمیر کاز کے فیچر واضح کئے اور شاعروں نے ہنر
کے جوہر دکھائے مگر یہ سب حسب دستور ماضی کی روایت کے مطابق ہی ہوا نہ کسی
چیز میں تبدیلی آئی اور نہ ہی کوئی نیا اقدام کیا گیا ۔ اگر ہم واقعی مسئلہ
کشمیر حل میں عملی پیش رفت چاہتے ہیں تو کشمیر کمیٹی کے چئیرمین کو بدلنا
ہوگا ،بھارت کے ساتھ ہرقسم کے تجارتی ،ثقافتی اورسیاسی روابط کو ختم کرتے
ہوئے بنیادی تنازعات کو پیش کرنا ہوگا جن میں مسئلہ کشمیر اور پانی سر
فہرست ہے ۔بھارت آئے روز سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا ہے اور پاکستان کے
خلاف گھٹیا اور غلط پراپیگنڈے کرتا ہے تاکہ پاکستان کو اقوام عالم میں دہشت
گرد ثابت کر سکے اور ہمارے حکمران اور ادبی براجمان مافیا دوستانہ بنائے
ہوئے ہیں کہ نریند مودی ہمارے سابق وزیراعظم کی نواسی کی شادی میں شریک
ہوتا ہے اور ہمارے وزیراعظم دل کی سرجری کروانے سے پہلے نریندر مودی کو فون
کرتے ہیں ۔۔مجھے کہنے دیجئے کہ ایسے یارانے میں بھارتی مظالم سوالیہ نشان
ہیں ؟ قول و فعل کے تضاد نے جمہوری اقدار کو تو پامال کیا ہے لیکن ملکی
استحکام اور نام کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اب ریحام خان کے
انٹرویو کو ہی لے لیں جو محترمہ نے انڈیامیں دیا ہے ۔جس میں عمران خان کے
کردار و اعمال کو تو نشانہ بنایا ہی لیکن دشمن ملک کے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر
عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید نے کئی سوال کھڑے کر دئیے ہیں تو اس طرح کے
واقعات کا ایسے اشخاص کے خلاف ملک کے ہر ذمہ دار ادارے کو عملی طور پر
لازماً نوٹس لینا چاہیے تاکہ دشمنوں کے ساتھ راز و نیاز کرنے والے لوگوں کی
منفی سرگرمیاں بند ہو سکیں ۔یہ اصولی بات ہے کہ آپس میں جس نے بھی جو
اختلاف کرنا ہے ڈٹ کر کرے لیکن ملکی وقار ،سالمیت اور عزت دار اداروں کے
خلاف منفی پراپیگنڈے نہیں ہونے چاہیے ۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ ریحام خان سیاسی ،سماجی ،صحافتی کسی بھی لحاظ سے اب
اتنی اہم نہیں ہیں کہ وہ انڈین ٹی وی پر انٹرویو دیتیں تو کس کی ایماء پر
انھیں اس قابل سمجھا گیا اور اس کے لیے بھارتی ٹی وی کا انتخاب ہی کیوں کیا
گیا ؟ریحام خان کی سیاسی دلچسپی نے انھیں خان صاحب سے دور کیا اب دفعتاً
ایسے کیا ضرورت پڑی کہ عمران خان کی شادی کی خبر زبان زد عام ہوئی تو وہ
میدان میں کود پڑیں ایسی لڑائی میں جس کے دونوں طرف وہ اکیلی ہی کھڑی ہیں ۔یہ
بھی کہنا پڑے گا کہ خان صاحب کا سیاسی رویہ مناسب نہیں ہے وہ وہی غلطیاں
دہرا رہے ہیں جو ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں ایسے میں نا پسندیدگی پیدا ہورہی ہے
جو الیکشن میں ان کے لیے مسائل پیدا کرے گی کیونکہ آصف زرداری کا اعتماد
دیدنی ہے کہ جیسے انھیں ہر طرف سے حمایت کا یقین ہو چکا ہے تبھی تو قمر
زمان کائرہ نے بھی میاں صاحب کوللکارتے ہوئے کہا ہے :’’میاں صاحب!سن لیں
لاہور کے وارث آگئے ہیں ،ہم عدالتوں سے بری الزماں اور آپ سپریم کورٹ سے
بھی سزا یافتہ ہیں‘‘ ۔بادی النظر میں اس وقت بلاول کا یہ بیان امر ہو چکا
ہے کہ مینڈکوں کے نکلنے اور ٹرانے کا موسم آگیا ہے تو اس طرح آج کل سیاسی
طور پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اور جس حد تک زیادتیوں پر مبنی ہو چکا ہے یہ
ملک و قوم کی کوئی خدمت نہیں بلکہ صرف ’’الیکشن ٹرکس ‘‘ہیں ۔دل تو نہیں
چاہتا کہ ان تمام پریشان حال سیاسی لیڈران کے اوپر کوئی تبصرہ کیا جائے
لیکن کیا کیا جائے کہ جب بات نکلتی ہے تو دور تک جاتی ہے اور اس پر تبصرہ
تو بنتا ہے ۔باقی تو وقت ثابت کرے گاجس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے
گا ۔ٹھگوں کی ٹھگیاں کام نہ آئیں گی پردرویشوں کی درویشی اپنا رنگ دکھائے
گی ۔ٹھگیوں سے ایک واقعہ یاد آگیا جوکہ پرانا ہے مگر حسب حال ہے :
کبھی ٹھگ یوں بھی کیا کرتے تھے کہ سادہ لوح لوگوں کو لوٹتے تھے ایسے ٹھگوں
کی ٹھگیاں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں بنیں مگر شعبدہ بازی اور مکاری بھی
مشکل مضمون ہے جسے سمجھنا اتنا بھی آسان نہیں کہ بڑے بڑے چالباز اور مکار
بھی مات کھا جاتے ہیں۔ ٹھگیاں عموماً غریب فارغ اوباش لگایاکرتے تھے مگرآ ج
کل یہ اشرافیہ کا ’’شغل ‘‘ ہے اور نسبتاً زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا
ہے ۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دیہاتی بکرا خرید کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ
ٹھگوں نے اسے دیکھ لیا اور ٹھگنے کا پروگرام بنا لیا ۔چاروں ٹھگوں نے
منصوبہ بندی کی اور اس کے راستے میں مختلف مقامات پر کھڑے ہو گئے ۔وہ
دیہاتی سرشاری میں جھومتا جا رہا تھا کہ ایک ٹھگ اس سے ٹکرایا اور کہا :
ـ’’بھائی یہ کتا کہاں لیے جا رہے ہو‘‘؟ دیہاتی نے اسے گھور کر دیکھا اورغصے
سے بولا: ’’بیوقوف تجھے نظر نہیں آتا یہ بکرا ہے کتا نہیں ہے ،چل راستے سے
ہٹ ‘‘۔ دیہاتی کچھ اور آگے بڑا اور دوسرا ٹھگ ٹکرایا : ’’یار ، یہ کتا تو
بڑا شاندار ہے ، کتنے کا خریدا ہے ‘‘؟دیہاتی نے اسے بھی جھڑک دیا ۔اب
دیہاتی تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر کی جانب بڑھا تو تیسرا ٹھگ جو کہ تاک
میں بیٹھا تھا سامنے آگیا اور پروگرام کے مطابق بولا : ’’جناب ،یہ کتا کہاں
سے لیا ہے ‘‘۔ اب دیہاتی بیچارا تشویش میں مبتلا ہو گیا کہ کہیں واقعی میرے
ساتھ ہاتھ تو نہیں ہوگیا کہ میں بکرے کی جگہ کتا لے آیا ہوں ۔اسی شش و پنج
میں وہ راستہ کاٹنے لگا تو چوتھا ٹھگ آٹکرایا اور فوراً ہی اس کے ہاتھ میں
پکڑی گھاس کی طرف اشارہ کر کے کہا : بھائی ! یہ گھاس اس کتے کو کھلاؤگے ‘‘؟
اب تو دیہاتی کے اوسان خطا ہوگئے اور اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ ’’یہ
واقعی کتاہے ‘‘اور وہ اس بکرے کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا اور ٹھگوں نے بکرا
ٹھگ لیا ۔آج پھر ہمارا وطن ٹھگوں کے نشانے پر ہے ،سیاسی ، دینی ، صحافتی ،
سماجی الغرض ہر شعبے میں کچھ ٹھگوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں ایسے میں سادہ لوح
عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اب کیا کریں کہ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے ۔۔انجام
گلستان کیا ہوگا ؟ |