سلامتی کونسل کے سربراہی اجلاس میں ڈونلڈٹرمپ کی تقریرمیں
شمالی کوریاکو مکمل تباہ کرنے کی برملا دھمکی سے نہ صرف خود امریکی دفاعی
اور سیاسی تجزیہ نگاروں بلکہ اقوام عالم میں شدیدتشویش کی لہردوڑگئی تھی
تاہم نائن الیون کے فوری بعد امریکی رہنماؤں کی کوشش رہی ہے کہ جوہری جنگ
کے حوالے سے تیاری کریں۔ ان تیاریوں کی وجوہات میں روس کا بنتا بگڑتا موڈ
بھی شامل تھا مگر اب چین بھی بیچ میں آگیا ہے۔ شنیدہے کہ امریکی
اسٹیبلشمنٹ ٹرمپ کی قصرسفیدمیںآمدکی راہ کوہموارکرنے کے بعداب اپنے مخصوص
مقاصد کی تکمیل یعنی ’ورلڈآرڈر‘ کی کامیابی کے لیے چین سے کوئی ایسی جنگ
لڑنے کے موڈ میں ہے جو فیصلہ کن ثابت ہو اور عالمی سیاست و معیشت پر امریکی
و یورپی غلبہ مستحکم ہوجائے۔ طفل تسلیوں سے بہلنے کی ضرورت ہے نہ گنجائش،اس
لیے اب یہ ٹولہ واضح اور فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔
تاہم امریکا اور چین میں سے کوئی بھی کھل کر بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ
کوئی بڑا تصادم کب رونما ہوسکتا ہے۔ تنازعات بہت سے ہیں جن پر معاملات
بگڑنے سے معاملات تصادم کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ یہ تصادم سینکاکو جزائر کے
تنازع پر بھی ہوسکتا ہے اور تائیوان کو چین میں ضم کرنے کے سوال پر بھی۔
امریکی افواج چین کے بہت نزدیک تعینات ہیں۔ معاملات اگرچہ قابو میں ہیں اور
سرد جنگ کے ماحول کی طرح امریکا نے فی الحال غیر معمولی تحمل کی پالیسی
اپنائی ہوئی ہے۔ چینی افواج کسی بھی امریکی حملے کا سامنا کرنے کے لیے
تیاری کی حالت میں ہیں تاہم وہ صرف ان سرحدوں پر تعینات ہیں جن کا چینی
قیادت نے باضابطہ اور جامع تعین کیا ہے۔ چینی قیادت کا اندازہ ہے کہ امریکا
اس کی تسلیم شدہ سرحدوں پر کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر ایک بڑی استعماری طاقت کی حیثیت سے جاپان کی
پوزیشن کے صفر ہو جانے پر امریکا نے بحرالکاہل کے خطے میں اپنی برتری قائم
کی، جو اب تک برقرار ہے۔ امریکی قیادت چاہتی ہے کہ یہ برتری ہر حال میں، ہر
قیمت پر برقرار رہے۔ دوسری طرف چینی قیادت کی بھرپور کوشش ہے کہ بحری
سرحدوں کا مکمل تحفظ یقینی بنایا جائے تاکہ جاپان، ملائیشیا، ویت نام اور
فلپائن کی طرف سے بحیرہ جنوبی چین میں مختلف جزائر اور چٹانوں کی ملکیت کے
دعووں کا بھرپور طریقے سے سامنا کیا جاسکے۔ چینی قیادت تائیوان کو بھی
دوبارہ چین کا حصہ بنانا چاہتی ہے، جسے امریکا نے ۱۹۵۰ء میں چین سے الگ
کرکے بظاہر آزاد ملک کی حیثیت دے کر اپنے زیرِ اثر کررکھاہے۔ تائیوان کے
ذریعے چین پر دباؤ ڈالنے کا امریکی اثر ۷ عشروں سے جاری ہے۔
بحیرہ ٔجنوبی چین کے خطے میں امریکی بحری جہازوں کا گشت اور لڑاکا طیاروں
کی اڑانیں ایک زمانے سے جاری ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد چین کے مرکزی زمینی
حصے پر کسی بھی وقت حملے کے لیے تیاری کی حالت میں رہنا ہے۔ چین کے نواح
میں جارحانہ انداز کے گشت سے چینی قیادت پر دباؤ ڈالنے اوراسے مشتعل کرنے
کی پالیسی جاری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکا کے جارحانہ انداز کو دیکھتے
ہوئے چین ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ اس نے بھی عسکری قوت بڑھانے پر خاطر
خواہ توجہ دی ہے۔ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ ایک طرف تو امریکا کی حملہ کرنے
کی صلاحیت کوکمزور کیا جائے اور دوسری طرف تائیوان کو دوبارہ مین لینڈ
چائنا کا حصہ بنایا جائے۔ اس حوالے سے چین کی تیاریاں کسی بھی اعتبار سے
ایسی نہیں کہ انہیں آسانی سے نظر انداز کردیا جائے۔
امریکا اور چین کی افواج کے درمیان معرکہ آرائی ہوچکی ہے مگر یہ سب کچھ
کسی تیسرے ملک کی زمین پر ہوا ہے۔ کوریا اور انڈو چائنا کے علاقے میں
امریکا اور پیپلز لبریشن آرمی لڑچکی ہیں۔ چین کی سرزمین پر چونکہ اب تک
کوئی معرکہ آرائی نہیں ہوئی اس لیے کہا نہیں جاسکتا کہ ایسی کسی بھی صورت
میں معاملات کیا رخ اختیار کریں گے اور خود امریکا پر اس کا کیا اثر مرتب
ہوگا۔ بحیرہ جنوبی چین میں معرکہ آرائی کو محدود رکھنا ممکن ہوسکتا ہے مگر
جاپان سے سینکاکو جزائر کے حوالے سے یا امریکا سے تائیوان کے تناظر میں جنگ
چھڑی تو اسے محدود رکھنا انتہائی دشوار ہوگا۔ ایسی کسی بھی جنگ کی صورت میں
امریکی افواج چین کی افواج کو اس کی اپنی سرزمین پر نشانہ بنانے سے دریغ
نہیں کریں گی۔ چین کی ملٹری ڈاکٹرائن بالکل فطری انداز سے کہتی ہے کہ اگر
چین کی سرزمین پر امریکی حملہ ہو تو امریکی فوجی اڈوں اور مین لینڈ کو
نشانہ بنانے سے کسی بھی حال میں گریز نہ کیا جائے گا۔
چین نے اب تک امریکا یا کسی اور ملک سے جنگ میں پہل نہ کرنے کی پالیسی اپنا
رکھی ہے اور اس پالیسی کے تحت ہی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ بظاہر
نہیں ہے مگر جنگ چھڑ جائے تو صورت حال کے دباوؤکے تحت کچھ بھی کرنا درست
ہو جاتا ہے۔ اگر امریکی افواج نے چین کی سرزمین پر حملہ کیا تو چینی قیادت
اِسے چین کی جوہری صلاحیت کو ناکارہ بنانے کی بھرپور کوشش کے طور پر دیکھے
گی اور ایسے میں چینی فوج کا ردعمل غیر معمولی قوت کا حامل ہوگا اور اگر
معاملات آسانی سے درست نہ ہوئے تو نوبت جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک بھی
پہنچ سکتی ہے۔ اگر چینی قیادت امریکا کے کسی بھی حملے کو ریاست کے وجود کے
لیے خطرہ محسوس کرے گی تونہ صرف امریکا پر سائبر حملے کے ساتھ امریکی جوہری
تنصیبات پر حملے بھی یقینی بنائے جائیں گے بلکہ اس کے اہم اتحادی بھی نشانہ
پرہوں گے۔
مشہورامریکی سفارتکاراورسابق نائب سیکرٹری دفاع چاس فریڈم نے اپنے ایک
مضمون میں متنبہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ ’انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ
امریکا کے اعلیٰ سیاسی حلقوں سمیت پوری اشرافیہ میں جوہری حملوں کے ممکنہ
نتائج کے حوالے سے باتیں ہونے لگی ہیں۔ اب تک امریکا میں اس حوالے سے بات
کرنے کا رواج نہ تھا کیونکہ سبھی کو اندازہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے ہونے
والی ممکنہ تباہی کے پیش نظر ان ہتھیاروں کے استعمال تک نوبت پہنچے گی ہی
نہیں۔ مگر اب ایسا لگتا ہے کہ امریکی اشرافیہ میڈیا کے ذریعے عوام کی بھی
ذہن سازی کر رہی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے معاملے میں جو الرجی اب
تک پائی جاتی رہی ہے، وہ اب دم توڑ رہی ہے۔ واشنگٹن اس وقت ٹیکٹیکل جوہری
ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے پروگرامز کی فنڈنگ کر رہا ہے۔ چھوٹے پیمانے
پر استعمال کے حوالے سے تیار کیے جانے والے جوہری ہتھیاروں کی ڈیزائننگ پر
خاص توجہ دی جارہی ہے۔ اس آپا دھاپی میں یہ نقطہ یکسر نظر انداز کردیا گیا
ہے کہ روس، چین یا کسی اور دشمن سے جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال تک
نوبت پہنچی تو دشمنوں کے ساتھ خود امریکا کا کیا حشر ہوگا۔
شمالی کوریا کے معاملے میں غیر معمولی جذباتیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
امریکا کا میزائل پروگرام بعض معاملات میں اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول
میں ناکامی سے بھی دوچار ہوسکتا ہے۔ سبھی کو یہ فکر لاحق ہے کہ کسی نہ کسی
طور پر شمالی کوریا کو نشانہ بنایا جائے مگر اس نقطے پر کوئی غور کرنے کو
تیار نہیں کہ معاملات کہیں کہیں ناکامی پر بھی منتج ہوسکتے ہیں۔ یہ حقیقت
بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ امریکا اور چین کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے
درمیان رابطے اِس قدر گرم جوشی پر مبنی نہیں جس قدر سابق سوویت یونین کے
ساتھ سرد جنگ کے دور میں تھے۔ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان اعتماد کی شدید
کمی دکھائی دے رہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر زیادہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔
امریکا کے اعلیٰ فوجی حکام چین کے عسکری تصورات اور نظریات کو یا تو بالکل
نہیں سمجھتے یا پھر بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے تاخیر تو ہوچکی ہے
مگر پھر بھی ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوگیا۔ امریکا کو چین کے عسکری عزائم اور
صلاحیت و سکت کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ لازم ہے کہ امریکی فوج میں ایسے اعلیٰ
افسران ہوں، جو چین کو عسکری سطح پر ڈھنگ سے سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
امریکا اور چین دونوں ہی بعض مواقع پر غیر منطقی ردعمل کا مظاہرہ کرتے رہے
ہیں۔ کبھی کبھی کسی صورتحال کے تناظر میں کسی کا بھی ردعمل سمجھنا آسان
نہیں ہوتا، مگر ایک بات طے ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی جنگ نہیں چاہتا۔
اگر دونوں میں سے کوئی بھی ملک جنگ نہیں چاہتا تو پھر پریشانی کی بات کیا
ہے؟ فریقین کیوں پریشان ہیں؟ اس کے 2 بنیادی عوامل ہیں۔ ایک قلیل المیعاد
اور ایک طویل المیعاد۔ پہلا سبب تائیوان ہے، جس کے دفاع کا ذمہ امریکا نے
لے رکھا ہے۔ اس وقت تائیوان میں ایک ایسی جماعت کی حکومت ہے، جو چین سے
انضمام کے خلاف اور آزادی کے حق میں ہے۔ تائیوان کے معاملے میں امریکا نے
پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔ واضح نہیں کہ وہ تائیوان کے دفاع کے
اپنے عزم و عہد پر قائم رہے گا یا نہیں اور اگر قائم رہے گا تو کب تک؟اس
وقت چین کے پاس اتنی عسکری قوت ہے کہ وہ امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود
تائیوان کو خود میں ضم کرلے مگر چینی قیادت معاملات کو خواہ مخواہ طاقت کے
استعمال تک لے جانا نہیں چاہتی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں چند
ایسے ریمارکس ٹوئٹ کیے ہیں، جن کی روشنی میں چین کے لیے الجھن کھڑی ہوگئی
ہے کہ وہ تائیوان کے معاملے میں کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے
کہ امریکی عزائم کے بارے میں کوئی غلط اندازہ لگاتے ہوئے چین کی فوج
تائیوان پر حملہ کردے اور اسے مین لینڈ چائنا میں ضم کرلے۔
2021ء میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی ایک صدی مکمل ہوجائے گی۔ رواں
برس کمیونسٹ پارٹی کی سالانہ کانگریس کے بعد تائیوان کے بارے میں کوئی حتمی
فیصلہ کرنے کے حوالے سے تحریک کے سلسلے میں دباؤ یقینی طور پر بڑھ جائے
گا۔ اگر ایسا ہوا تو چین اور امریکا کے درمیان وہ خوں ریزی ٹالی نہیں جاسکے
گی، جس سے اب تک گریز کیا جاتا رہا ہے اور چین کا تائیوان کے بارے میں بدلا
ہوا رویہ اس بات کو بھی طے کرے گا کہ ہم چین کو منقسم رکھنے سے متعلق سرد
جنگ کے اپنے کمٹمنٹ کے معاملے میں کس حد تک سنجیدہ اور پرعزم ہیں۔
اب تک امریکا نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ چین کے ارد گرد کے خطے پر ہمیشہ راج
کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ امریکا کی طاقت میں کمی واقع
ہو رہی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے خطے میں امریکا کی ساکھ کمزور تر ہوتی
جارہی ہے۔ امریکا نے دفاع کے شعبے میں غیر معمولی اخراجات سے منہ نہیں موڑا
مگراب امریکی اتحادی ہر معاملے میں امریکا کی طرف دیکھتے رہنے کے روادار
نہیں رہے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک سے متعلق چند ایسی حقیقتیں بھی ابھر
کر سامنے آئی ہیں جنہیں امریکا کے غیر معمولی دفاعی اخراجات نے تبدیل نہیں
کیا۔ امریکا اور چین کے درمیان سیاسی، معاشی اور عسکری مخاصمت بڑھتی ہی
جائے گی۔ امریکا اپنے دفاعی بجٹ میں جس قدر اضافہ کرتا جائے گا، چین بھی
اسی کے بہ قدر اضافہ کرتا جائے گا یعنی اس کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا جائے
گا۔ اس کے نتیجے میں بحرالکاہل کے خطے میں امریکا کی عسکری مہم جوئی
بالآخر رائیگاں ہی جائے گی۔
امریکا اور چین کے درمیان جوں جوں معاملات کشیدگی کی طرف جائیں گے، امریکا
کے لیے بحرالکاہل کے خطے میں اپنی عسکری موجودگی برقرار رکھنے کے اخراجات
میں غیر معمولی شرح سے اضافہ ہوتا جائے گا اور ساتھ ہی چین سے کسی حقیقی
اور واقعی جنگ کا خطرہ بھی بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ کشیدگی کے بڑھنے پر خطے
کے ممالک ترجیحی طور پر چین کی طرف جھکیں گے۔ چند ممالک امریکا کی طرف بھی
جھک سکتے ہیں مگر زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ ایک طرف ہٹ کر امریکا اور
چین کو لڑتے ہوئے دیکھنا پسند کریں گے۔
اس خطے کے ممالک کا برسوں کا تجربہ ہے کہ امریکا سے اتحاد کی صورت میں
انہیں کچھ خاص ملتا نہیں۔ ایسے میں وہ اپنی ساکھ کیوں داو پر لگائیں گے؟
امریکا کو اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ چین سے باضابطہ جنگ کی صورت
میں بحرالکاہل کے چند ہی ممالک اس کی طرف آئیں گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایسا
بھی نہ ہو۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ امریکاچین سے جنگ ٹال سکتاہے یا نہیں؟ اور یہ سوال
اِس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اس کو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ چین کو برہم کرنے
کی صورت میں وہ اپنی سر زمین پر کس قدر جانی و مالی نقصان برداشت کرسکتاہے۔
ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ امریکا جنگ چھیڑے اور اس کے باشندوں کو نقصان
سے دوچار نہ ہونا پڑے۔اکیسویں صدی میں امریکی فوجی دور افتادہ علاقوں میں
اجنبیوں کو قتل کر رہے ہیں۔ اس کا خمیازہ امریکی شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ سلسلہ مزید جاری رہ سکتا ہے۔ اگر امریکی فوجی اپنی سرزمین سے بہت دور بے
قصور لوگوں کو مارتے رہیں گے تو ان کے اپنے بے قصور شہری بھی مارے جاتے
رہیں گے۔ سنجیدہ ہونے کا وقت آگیا ہے۔ امریکی ہر معاملے پر قدرت نہیں
رکھتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ انہیں نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ چین اور اس کے
ہمسایہ ممالک کے معاملے میں امریکاکو ایسی پالیسی اپنانی چاہیے، جس میں
دوسروں کے احترام کا تاثر بھرپور انداز سے شامل ہو،وگرنہ قیامت سے پہلے
قیامت کوکوئی روک نہیں پائے گا- |