این اے 154 کے رزلٹ اورعبد ا لر حمن خان کا نجو نے ایک
مر تبہ پھر ثا بت کر دیا کہ وہ ضلع لو دھراں کی سیا ست کے جا دو گر ہیں۔ ان
کی ضلع لو دھرا ں کی سیا ست پر گر فت اور سیا سی حلقو ں میں پذیرا ئی تا حا
ل شد و مد کے سا تھ مو جو د ہے اورنا را ض دو ستو ں کو منا نے کا فن ان پر
ختم ہے ضلع لو دھرا ں کے این اے154 کا حلقہ جس میں جہا نگیر خا ن تر ین کی
سپر یم کو ر ٹ سے نا اہلی کے بعد ایم این اے کی خا لی ہو نے والی سیٹ پر گز
شتہ روز12 فروری کو الیکشن ہوا ہے ۔جس میں پا کستا ن تحر یک انصا ف کی جا
نب سے جہا نگیر خا ن تر ین کے فر زند علی خا ن تر ین نے الیکشن لڑا جبکہ مد
مقا بل ن لیگ کی ٹکٹ پر ایم پی اے عا مر اقبا ل شا ہ کے والد پیر اقبا ل شا
ہ تھے ۔جن کے بارے میں گمان تھا کہ اس الیکشن میں صر ف خا نہ پر ی کیلئے
انہیں مد مقا بل لا یا گیا ہے۔کیو نکہ سا بق ایم این اے صد یق خان بلو چ نے
جہا نگیر خا ن تر ین سے مر عو ب ہو کر الیکشن میں حصہ لینے سے صا ف انکار
کر دیا تھا جبکہ اپنے بیٹے عمیر خا ن کے کا غذا ت نا مز دگی بھی بادل
نخواستہ جمع کر ا ئے تھے ان کا الیکشن میں حصہ لینے کا قطعی کو ئی ارادہ
نہیں تھا اور اس وقت ان کی جا ن میں جا ن آئی جب دنیا پور سے پیر اقبا ل شا
ہ کو پا کستا ن مسلم لیگ نواز کی جا نب سے ٹکٹ دے دیا گیا ۔پیر اقبا ل شا ہ
کو اس وقت کے حا لا ت اور ظاہری منظر نامہ کے مطا بق’’ قر با نی کا بکرا‘‘
بنا یا گیا تھا ۔کیونکہ الیکشن میں حصہ اور دلچسپی نہ لینے کی دیگر وجوہا ت
کے ساتھ سا تھ ایک وجہ ایم این اے شپ کا دورا نیہ انتہا ئی قلیل ہو نا تھا
صرف ڈیڑھ سے دو ما ہ کی ایم این اے شپ کیلئے جسما نی ، ذہنی اور ما لی مشقت
سے ن لیگ کی جا نب سے پہلوتہی برتنا صا ف وا ضح تھا جبکہ دو سر ی طر ف جہا
نگیر خا ن تر ین اور پی ٹی آئی کے حلقو ں میں علی خا ن تر ین کی جیت سے ہٹ
کر لیڈ بڑ ھا نے کے دعو ے ٰکئے جا رہے تھے ان کے مطا بق جیت تو سو فیصد
یقینی تھی اور منظر نا مہ بھی یہی پیش کر رہا تھا ن لیگ کے حلقے حتی کہ ایم
پی ایز نے بھی اپنا ذہن بنا یا ہو ا تھا کہ علی تر ین 10 ہزا ر ووٹ کی لیڈ
سے جیت جا ئے گااور اس طر حہ ضلع لو دھرا ں سمیت ملک کے دیگر شہر وں میں
باقاعدہ شر ط اور جوا بھی کھیلا گیا کہ علی تر ین بڑ ی لیڈ سے اس سیٹ کو
WIN کر ے گا -
آخر کا روفا قی وزیر مملکت برائے اور سیز پا کستا نیز اینڈ ہومن ریسورسز
عبد الرحمن خا ن کا نجو نے اس حلقے میں قد م رکھا اور گر وپ لیڈ ر ہو نے کا
ثبوت دیتے ہو ئے اپنے والد مرحوم صد یق خا ن کا نجو کے نقشے قد م پر چلتے
ہو ئے حلقے میں مو جو د سیا سی زعما اور عما ئد ین سے ملا قا تیں کی ان میں
سب سے زیا دہ اہمیت وکر دار سابق ایم پی اے احمد بلو چ کا تھا جو کہ عرصہ
درا ز سے نا را ض چلے آرہے تھے عبد الرحمن کا نجو نے انہیں ’’جا دو کی
جھپی‘‘ دی اور انہیں الیکشن میں حما یت ا ور سپورٹ پر را ضی کر لیا احمد خا
ن بلو چ کی ن لیگ میں با قا عد ہ حما یت اور سپور ٹ سے ن لیگ کو بہت تقویت
ملی کیو نکہ احمد خان بلوچ جہا نگیر خا ن تر ین کے سب سے سخت تر ین حر یف
کے طور پر جا نے جا تے تھے ان کی آمد سے جہا نگیر تر ین کو ڈبل نقصا ن
اُٹھا نا پڑا ۔صد یق خا ن بلو چ اور ن لیگ کی مخا لفت میں جو ووٹ علی تر ین
کو ملنا تھا وہ نہ مل سکا اوروہی ووٹ ان ہی کے خلا ف کا سٹ ہوا ۔اسی طر ح
پیررفیع الد ین شا ہ کی نا را ضگی کو بھی عبد الر حمن خا ن کا نجو نے اپنے
روایتی اندا ز میں دو ر کر دیا اور انہو ں نے بھی دل سے ن لیگ اور عبد الر
حمن خا ن کا نجو کو سپو ر ٹ کر نے کی حا می بھر لی اوربعینہ صور ت حا ل یہا
ں پر بھی علی خا ن تر ین اور پی ٹی آئی کو بھگتنا پڑی ۔ جس کی وجہ سے شر وع
شر وع کا منظرنامہ اب ففٹی ففٹی پر آگیا تھا کیو نکہ صد یق خا ن بلو چ کی
مخا لفت کی بنا ء پر ملنے والا ووٹ اب ن لیگ کی ٹو کر یو ں میں جا نا تھا ۔
عبد الرحمن خا ن کا نجو نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی تو جہ شہر ی
حلقو ں کی طر ف مبذول کی یہا ں پر بھی صد یق خا ن بلوچ کی مخا لفت کھل کر
سا منے آئی اور سابقہ الیکشن میں شہر میں صد یق خا ن بلو چ کو چو نکہ برُ ی
طر ح شکست کا سا منا کرنا پڑا تھا اسی بنا ء پر عبد ا لر حمن خا ن کا نجو
نے افتخار الد ین تاری سے مل کرشہر بھر کی تما م یو نینز اور وارڈسے نا را
ض ورکر ز،ووٹرز اور سپورٹرز کو منا لیا جس کا واضح فر ق پیر اقبا ل شا ہ کی
جیت میں دکھا ئی دیا ۔دوسری طرف اسی دوران پا کستا ن تحر یک انصا ف کی جا
نب سے عمران خان سمیت مر کز ی قیا د ت نے لودھرا ں میں ڈیرے ڈال لئے اور
جلسے کئے لیکن ووٹرز کو قا ئل نہ کر سکے ۔اور عبد ا لر حمن خا ن کا نجو کی
خا مو ش اور موثر انداز میں کمپین نے الیکشن کے رزلٹ میں بہت بڑا اپ سیٹ
کردیا کہ پوری سیاسی ہسٹری میں اس کی مثال خال خال ملتی ہے بہرحال 154 کے
زرلٹ نے ثابت کردیا کہ لودھراں کا ضلع شہید کانجوگروپ کا ضلع ہے اور
عبدالرحمن خان کانجو اس وقت بے تاج بادشاہ اور جادوگر کے روپ میں ضلعی
سیاست میں حکمرانی کررہے ہیں۔مختصر یہ کہ جہانگیر ترین اور علی ترین کی
شکست میں جہاں عبدالرحمن کانجو کا کردار ناقابل فراموش ہے وہیں پر جہانگیر
ترین کی ان کے حلقے میں گرفت اور ووٹرز میں مقبولیت پر بہت سے سوالیہ نشان
چھوڑ رہے ہیں جبکہ علی خان ترین کی پہلی فلائٹ ہی پرواز نہ کرسکی جس کی وجہ
سے ان کا سیاسی مستقبل انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار ہوچکا ہے اور آمدہ
جنرل الیکشن میں اس کے بھرپور نتائج ان کو بھگتنا پڑیں گے اور مسلم لیگ
بالخصوص شہید کانجو گروپ کو مستقبل میں مزید تقویت ملے گی۔ |