کب تک

تحریک انصاف کو جب مخالفین پاشا ماڈل ہونے کا طعنہ دیتے ہیں تو اس کی تڑپ دیدنی ہوتی ہے۔وقت کے ساتھ اس تڑپ میں کمی تو آئی مگر ختم نہیں ہوسکی۔اب وہ دوسری جماعتوں کو بھی اسی برادری کی قراردینے لگی ہے۔اب اسے وہ پچھتاوہ نہیں ہوتاجو پہلے ہوا کرتاتھا۔ ایک نئی بات یہ ہوئی کہ ایسا تاثردیا جارہا ہے گویا وہ پاشا ماڈل ہونے کو کوئی استحقاق تصور کرتی ہو۔وہ سمجھتی ہے کہ اگر بھٹو نے ایوب او ریحیٰ کی معیت سے فیض پایا۔اگر نوازشریف نے جنرل ضیاء او رجنرل جیلانی سے تربیت پائی تو پاشا سے کچھ پانے کو برائی کیوں سمجھا جائے۔اگردوسرے لوگ اس فارمولے سے نام کما گئے۔تو عمران خاں کو کیوں اس سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔تحریک انصاف کے گرد جمع ہجوم اس حق تلفی پر ناگواری دکھا رہاہے۔ایک دوسرے کو آمریت کی پیداوار کہتی سیاسی جماعتیں تماشہ بن رہی ہیں۔ ہردفعہ اسی انجام سے دوچار ہوجاتی ہیں کہ کسی کی دم جاتی رہتی ہے۔اور کسی کی چونچ نہیں رہتی۔اس کے باوجود ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچانہیں رک رہا۔پہلے تھوڑی لاج شرم تھی۔اب اس حمایت کو استحقاق تصور کیا جانے لگاہے۔

اہل جمہوری کی آپسی لڑائی کا فائدہ ان کا مشترکہ دشمن اٹھارہاہے۔سابق صد ر جنرل (ر) پرویز مشرف کی طرف سے اگلے الیکشن سے قبل وطن واپس آجانے کا اعلان اسی اہل جمہور میں پھوٹ کا نتیجہ ہے۔سابق صدر نے کہا ہے کہ نوازشریف ان کے ساتھ انتقامی رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ان کے فارغ ہونے کے بعد میرے لیے وطن واپس آنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔سابق صدرکی جانب سے سابق وزیر اعظم سے متعلق یہ رائے اس بات کا ثبوت ہے کہ نوازشریف سے انہیں خاص قسم کی ٹینشن کا سامنا رہا۔جو سہولت انہیں زرداری دو رمیں حاصل رہی۔نوازشریف دور میں چھن گئی۔پی پی دور میں ان کے خلاف اول تو کوئی مقدمہ بازی کی ہی نہیں گئی۔اگر بے نظیر اوربگتی قتل کیس کی بات چلی بھی تو اس قدر بے جان پیروی کی گئی کہ سابق صدر کا بال بیکا تک نہ کیا جاسکا۔دوسری طرف نوازشریف دور اس فوجی آمر کے لیے بڑا تلخ رہا۔ان کی راتوں کی نیند حرام رہی اوردن کا چین بھی جاتارہا۔ہر آمر کی طرح مشرف بھی کھایا پیا ہضم ہوجانے کی امید لگائے ہوئے تھے۔نوازشریف کے آگے ان کے تمام سفارشی ناکام رہے۔آخر میں سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھاکہ مشرف کو وطن سے باہر بھجوادیاجائے۔ملک میں دوبارہ حکمران بننے کا خواب مشر ف صاحب کے لیے خواب ہی بن کر رہ گیا۔نواز شریف اس میوزیکل چئیرکا کھیل جو یہاں ایک عرصے سے کھیلاجارہاتھا ایک بڑی رکاوٹ بن کرسامنے آئے۔سابق صدر کی جانب سے نوازشریف کی ناہلی کے بعد اپنی وطن واپسی کے راستے کھل جانے کا اعلان کرنے سے نوازشریف کی بدلتی سمت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اگر مشرف دوبارہ واپس آتے ہیں تو ایک تو ان کی پوزیشن پہلے سے کمزور ہے۔دوجے ان کے سب سے بڑے مخالف نوازشریف کو خطرناک حد تک کی مقبولیت حاصل ہوچکی۔ایسے میں سابق صدر کی واپسی ان کے لیے نئی مشکلات کے سوا کچھ نہ دے گی۔

ایک دوسرے کو آمریت کی پیدا وار کہتی جماعتیں تماشہ بن رہی ہیں۔نوازشریف اہل جمہورمیں سے بلوغت کی علامت بن کرسامنے آئے ہیں۔ان کے مخالفین انہیں آمر کی پیداوار کہہ کرچڑا رہی ہیں۔یہ الزام غلط نہیں یہ اتناہی سچاہے۔جتنابھٹو اور عمران خاں کو غیرجمہوری اطراف سے حمایت ملنے کا الزام۔تحریک انصاف اپنے استحقاق کے دفاع پر مطمئن ہے۔پی پی اور مسلم لیگ ن بھی ایوب۔یحیٰ اور ضیاء۔جیلانی سے تعلق کے بہتیرے بہانے گھڑ سکتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔کب تک ہمم اپنے الٹے سیدھے استحقاق پالتے رہیں گے۔نوازشریف نے اس بے سمت اور بے ترتیب بندوبست کو چیلنچ کیا ہے۔اگر دوسری لیڈر شپ بھی بلوغت کا ثبوت دے توآمریت کی پیداوار ہونے کاطعنہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اہل جمہورکے سرسے اترسکتاہے۔نوازشریف جمہوری قیادت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم عصر جمہوری قیاد ت کو ان کے ہم قدم ہونا چاہیے۔وہ اس کے متضاد فیصلہ بھی کرسکتی ہے۔ مگر آمریت کی حمایت سے سٹارٹ لینے کا غلط استحقاق آخر کب تک کام دے گا؟

 

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140939 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.