وزیر اعظم نریندر مودی پر اقتدار سنبھالتے ہی غیر ملکی
دوروں کا جنون سوار ہوگیا تھا۔ اپنے پہلے دوسال میں ان کے قدم بھارت میں
رکتے ہی نہیں تھے۔ عوام کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ہندوستان بھی مختصر
دورے پر آتے ہیں اور پھر سے دنیا کی سیر پر روانہ ہوجاتے ہیں لیکن اب یہ
سلسلہ رک سا گیا ہے ۔ یوروپ اور امریکہ والوں نے ان کو بلانا ہی بند کردیا
گیا اس لیے وہ مشرق بعید یا مشرق وسطیٰ میں گھوم ٹہل کر اپنا دل بہلا لیتے
ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے ہندوستانی عوام کی مانند دنیا بھر کے رہنماوں
کا ان سے ’موہ بھنگ‘ ہوگیا ہے۔ دوسرے مودی جی کی سمجھ میں آگیا ہے بیرون
ملک ناٹک بازی کا ہندوستان کی عوام پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا لیکن ایک
تیسری بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ ابتدائی دو سالوں میں مودی جی جہاں کہیں بھی
گئے اکثر لوگ اقتدار سے محروم ہوگئے اس لیے بعد والوں نے عبرت پکڑ کر انہیں
بلانا بند کردیا ۔ یہ محض مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
مودی جی نے سب سے پہلے ہمسایہ ہندو راشٹر نیپال کا دورہ کیا اور سشیل کمار
کوئرالا سے ملاقات کی۔ اس کے بعد دو مرتبہ انتخاب ہوئے لیکن بےچارے کوئرالا
اقتدار میں نہیں آسکے اور تو او نیپال نے دستور میں ترمیم کرکے اپنے آئین
کو ہندو راشٹر سے سیکولر ملک بناڈالا ۔ مودی جی دھونس دھمکی سے تنگ آکر
ہندوستان کے بجائے چین کی پناہ میں چلے گئے۔ اس کے بعد مودی جی برکس کی
کانفرنس میں شرکت کے لیے جنوبی امریکہ کے ملک برازیل تشریف لے گئے اور صدر
دلما روسیف کو میزبانی کا شرف بخشا ۔ دلما میں بعد میں انتخاب میں کامیابی
حاصل کی لیکن پھر بھی انہیں بدعنوانی کے الزام میں رسوا کرکے ہٹا دیا گیا
۔امریکہ میں صدر براک اوبامہ سے مودی جی کی خوب چھنی مگر مسلمانوں کی دشمنی
میں مودی بھکتوں نے سملم دشمنی میں اوبامہ کی پارٹی کے پیٹھ میں چھرا گھونپ
کر ڈونالڈ ٹرمپ کو کامیاب کردیا اور اب اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں ۔
آسٹریلیا جاکر مودی جی اڈانی سمیت وزیراعظم ٹونی ایبوٹ سے لپٹ گئے نتیجہ
یہ نکلا کہ وہ بھی انتخاب ہار گئے۔
فرانس کے فرانکوئس سے ملنے بھی گئے اور ان کو ہندوستان بھی بلایا لیکن وہ
انتخاب میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ کینیڈا کے صدر اسٹیفن ہارپر نے مودی جی کا
بڑا خیر مقدم کیا اپنی اہلیہ کو ساڑی پہنا کر مودی جی سے ملاقات کے لیے
لائے لیکن ہندوستانی رائے دہندگان نے ان کا بھی ساتھ نہیں دیا اور انہیں
بھی شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ برطانیہ میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے مودی
جی بڑا استقبال کیا اور ان کے ساتھ عوامی جلسے میں بھی تشریف لائے جو ان کے
شایانِ شان نہیں تھا لیکن وہ بیچارے تو بے موت مارے گئے۔ انتخاب کے بجائے
استصواب کے سبب انہیں استعفیٰ دینا پڑا۔جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوماکو جن
کےساتھ مودی جی گاندھی جی اور نیلسن منڈیلا کو خراج عقیدت پیش کیا تھا
،بدعنوانی کے الزام میں گھر بھیج دیا گیا سب سے عبرتناک انجام مودی جی خاص
دوست نواز شریف کا ہوا ۔ ان کے پاس تو وزیراعظم بنا بلائے پہنچ گئے نتیجہ
یہ ہواکہ بدعنوانی کے الزام میں نواز شریف کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور اب وہ
عدلیہ میں احتساب دے رہے ہیں ۔ ایسے میں کون اپنی لٹیا ڈبونے کے لیے مودی
جی کو اپنے یہاں بلائے؟ سوال یہ ہے للت ، سشیل اور نیرو جیسے بدعنوان
مودیوں کے سرپرست نریندر مودی جی اپنے انجام پر کب پہنچیں گے ؟ فی الحال
مودی جی کے دوستوں پر حبیب جالب کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
آثار یہ بتا رہے ہیں مودی جی کا اگلا شکار اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن
یاہو ہے ۔ یہ صاحب گزشتہ دوسالوں سے بدعنوانی کے الزامات سے جوجھ رہے ہیں ۔
پچھلے سال کے اوئل میں اسرائیلی پولیس نے بنیامنی نتن یاہو پر لگے کرپشن کے
الزامات کی تفتیش کرنے کے لیے اس کے گھر چھاپہ مارا۔ کوئی غیرتمند رہنما
ہوتا تو شرم سے استعفیٰ دے دیتا مگر یاہو نے ڈھٹائی کے ساتھ تمام الزامات
مسترد کردیئے۔ اس کے برعکس وزارتِ انصاف کے اہلکار نے تصدیق کی وزیر اعظم
سے کاروباری شخصیات سے فائدے حاصل کرنے کے حوالے سے تین افسران نے تین
گھنٹوں تک تفتیش کی ۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم پر کاروباری
شخصیات سے ’عنایات‘ یا بڑے پیمانے پر تحائف وصول کرنے کے الزامات ہیں۔حالیہ
مہینوں میں منظر عام پر آنے والے گھپلوں پر مخالفین نے تحقیقات کا مطالبہ
کیا تھا تاہم یاہو نے ایک پر بھی مقدمہ قائم نہیں ہونے دیا ۔
اسرائیلی وزیراعظم پر سرکاری خزانے کی دولت کوضائع کرنے کا الزام بھی ہے جس
میں برطانیہ کے ایک دورے میں ذاتی خوابگاہ پر ایک لاکھ ۲۷ ہزار ڈالر خرچ
کرنا شامل ہے۔ برطانیہ کی حکومت نے تو یاہو کو اپنے خزانے پر بوجھ بننے
نہیں دیا لیکن مودی حکومت نے بغض معاویہ میں ۶ دن کے دورے پر بلایا اور
سرکاری خرچ پر یاہو نے اپنی بیوی سارہ کے ساتھ خوب عیش کی ۔ تین دن دہلی
میں گزارے اور تاج محل بھی دیکھا پھر ایک دن احمدآباد اور ایک دن ممبئی
میں گزار کر چھٹے دن لوٹ گئے۔ دنیا کا کون سا ایسا سربراہ مملکت ہے جس کو
اس طرح چھٹیاں منانے کی فرصت ہے۔ نتن یاہو نہایت بے غیرتی کے ساتھ اقوام
متحدہ میں ہندوستان کی مخالفت کے باوجود دم ہلاتے رہے۔ کاش کے انہیں پتہ
ہوتا کس طرح مودی جی گرو گولوالکر نے جرمنی میں یہودیوں کے قتل عام کو حق
بجانب ٹھہرایا تھا اور ہٹلر کی کھلے عام حمایت کی تھی۔ خیر یاہو کی شکل میں
مودی کو اپنی تعریف کروانے والا ایک ڈھنڈورچی مل گیا۔
پچھلے سال اگست میں مودی جی نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا ۔ مودی کے لوٹنے کے
بعد یاہو کے ستارے ایسے گردش میں آئے کہ اس کے ایک قریبی ساتھی نے مبینہ
بدعنوانی کے مقدمے میں وزیر اعظم کے خلاف گواہی دینے کا اعلان کردیا۔آری
ہیرو کوئی معمولی آدمی نہیں ہے کہ جسے ڈرا دھمکا کر خاموش کیا جاسکے بلکہ
وہ سابق چیف آف سٹاف ہیں اور اب سرکاری گواہ بن گیا ہے ۔ نیتن یاہو اور اس
اہل خانہ پرایک امیر تاجر سے تحائف وصول کرنے کا الزام بھی ہے۔ مودی جی کی
طرح یاہوپر بھیاپنے حامی اخبارات کی سرپرستی اور حریف اخبار کے لیے مشکلات
کھڑی کرنے کا الزام ہے۔اسرائیل کے اندر حکومت اور وزیراعظم کی مالی
بدعنوانیوں کے خلاف جب مظاہروں نے زور پکڑا تو وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے
لیے اپنی اہلیہ سمیت بھارت چلے آئے۔ مودی جی کو فرصت ہی فرصت اس لیے وہ
کبھی ان کو لینے ہوائی اڈے تو کبھی دہلی کے اندر نجی دعوت اور وہاں سے
احمدآبادو ممبئی تک چلے آئے۔ ان تماشوں نہ مودی جی کے خلاف بے چینی ختم
ہوئی اور نہ یاہو کے خلاف مظاہرے بند ہوے۔ پہلے تو یاہو تنہا بدعنوانی کے
الزامات میں گھرے ہوئے تھے اور ان سے پوچھ تاچھ ہوتی رہتی تھی لیکن اب پوری
کابینہ اس میں گھر گئی ہے۔
یاہو اپنے ساتھ ۱۳۰ افراد کا وفد لے کر آئے تھے اور وہ سارے چاہتے تھے کہ
ہندوستان اسرائیل میں سرمایہ کاری اتفاق سے ہندوستانی سرمایہ داروں کو بھی
یہودیوں سے یہی توقع تھی ایسے میں دونوں کا ایک دوسرے سے مایوس ہونا لازمی
تھا اس لیے سودہ تو اسی وقت ہوتا ہے جب ایک گاہک اور دوسرا دوکاندار ہو۔
دونوں فریق اگر فروخت کار ہوں تو کاروبار کیسے ہو؟ سرکاری معاہدوں کی بات
اور ہے اس میں سے کئی کاغذی ہوتے ہیں اور ان سے فائدے یا نقصان کی پرواہ
کسی کو نہیں ہوتی ۔ بھارت میں اپنا دل بہلا کر یاہو واپس لوٹے تو مظاہرے تل
ابیب سے اسرائیل کے دیگر شہروں میں پھیل گئے نیز اسرائیلی پولیس نے نتن
یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمات میں فرد جرم عائد کرنے کی سفارش کردی ہے.
جبکہ یاہو کا اصرار ہے وہ بے قصور ہیں اور اپنی قوم کی خدمت اور رہنمائی
جاری رکھیں گے۔یہ کمال بے حیائی ہے کہ بدعنوانی کے سنگین الزام کے باوجود
انسان کرسی سے چمٹا رہے خیر دیکھنا یہ ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی
ہے؟
مودی جی نے جب اپنے دوست نتین یاہو کی حالت پتلی دیکھی تو اپنی طوطا چشمی
نظر پھیر لی۔ پچھلے سال جب وہ اسرائیل کے پہلے دورے پر گئے تھے تو انہوں نے
فلسطین کو پوری طرح نظر انداز کردیا تھا ۔ ان سے قبل کسی ہندوستانی
وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا تھا لیکن جو دیگر عہدیدار مثلاً صدور
اور وزراء جاتے تھے تو اسرائیلی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی رہنماوں سے
بھی ملاقات کرتے تھے ۔ مودی جی کو اپنی غلطی کا احساس کئی ماہ بعد ہوا تو
اس بار وہ ادن سے سیدھے راملاّ صدر محمود عباس سے ملاقات کرنے کے لیے پہنچ
گئے ۔ وہاں پر یاسر عرفات کی قبر پر خراج عقیدت پیش کیا ۔ قومی اعزاز وصول
کیا چند معاہدے بھی کیے لیکن اسرائیل کو نظر انداز کرکے لوٹ آئے۔خیر مودی
جی کی دوستی کا خمیازہ نیتن یاہو تو بھگت ہی رہے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اب
محمود عباس کا کیا حشر ہوتا ہے؟نیز لوٹتے ہوئے مودی جی نے اسرائیل کے سب سے
بڑے دشمن ایران کے صدر حسن روحانی دعوت دے کر ان کی روحانیت بھی خطرے میں
ڈال دی ہے۔مودی جی بے سمت خارجہ پالیسی دیکھ کر ان کے دوستوں کی زبان پر یہ
شعر آجاتا ہے؎
دوستی کی تم نے دشمن سےعجب تم دوست ہو
میں تمہاری دوستی میں مہرباں مارا گیا
|