ملکی وغیرملکی تجزیہ کارپاکستان کے بارے میں کئی حوالوں
سے بات کرتے ہیں،جن میں غالباً ”سکیورٹی اسٹیٹ” کا حوالہ زیادہ معروف ہے۔
اگرچہ پاکستان نے کسی نیشنل سیکورٹی پلان کااعلان نہیں کیا،تاہم یہ
تصوّرحقیقت سے قریب ترہے۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ کسی ملک کیلئے یہ ضروری
نہیں کہ وہ اپنی سکیورٹی ڈاکٹرائن کااعلان کرے۔ یہ متحرک ہونی چاہئے کیوں
کہ سکیورٹی چیلنجز کبھی مستقل نہیں ہوتے اور نت نئے تغیرات سے ہم آہنگ رہتے
ہیں۔
چند سال قبل اس سیاسی اورسفارتی بحران کی پیش گوئی کرنا ایک مشکل امرتھاجس
کاسامناخلیج تعاون تنظیم کےممالک کررہے ہیں،جواپنے دوست اوردشمن کے بارے
میں نئے سرے سے سوچنے پرمجبورہوگئے ہیں۔یہی بات روس اورترکی کے بڑھتے ہوئے
سفارتی تعلقات پربھی لاگوہوتی ہے۔پاکستان کامعاملہ بہت زیادہ پیچیدہ نہیں
ہے۔ کچھ رجحانات کے شواہد موجود ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ
یہی حالات قوم کی رہنمائی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔پاکستان کولا حق ا
سٹریٹجک اور سفارتی چیلنجز محض افغانستان کی وجہ سے نہیں ہیں،بلکہ ان میں
اندرونی سکیورٹی معاملات کابھی حصہ ہے۔ اسلام آباداورواشنگٹن کے مابین
حالیہ تناؤبھی اسی امرکااظہارہے۔
پاکستان کادفاعی ڈاکٹرائن یقیناًبھارتی فوجی طاقت کے گردگھومتاہےلیکن
پاکستان آہستہ آہستہ افغانستان کی دلدل میں دھنستاچلاگیااواب ان حالات سے
چھٹکارا مشکل ہورہاہے۔ متفرق جغرافیائی وسیاسی آپشنزمیں تنوع لانا پاکستان
کیلئے انتہائی اہمیت کاحامل ہے کیوںکہ اس کے اسٹریٹجک شراکت دار،بالخصوص
چین اورممکنہ شراکت دارروس افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔نئے وپرانے
اندرونی اورعلاقائی سکیورٹی چیلنجزنے پاکستان کومجبورکردیاہے کہ وہ اپنی
سکیورٹی،دفاعی اورجغرافیائی ترجیحات کاازسرِنوجائزہ لے۔حکومت اور سکیورٹی
اداروں نے اسٹریٹجک معاملات کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔ ملٹری
انسٹیٹیوشنز میں ہونے والی کچھ مشقوں کے علاوہ وفاقی حکومت نے بھی بعض
اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ ایک خصوصی ملاقات میں مجھے قومی سلامتی کے
مشیرلیفٹیننٹ جنرل(ر)ناصرجنجوعہ نے یہ بتایاکہ دسمبر۲۰۱۷میں وزیرِاعظم شاہد
خاقان عباسی نے قومی سلامتی پالیسی کاکام سونپا جواب دستاویزات کی صورت میں
متعلقہ کمیٹیوں کو فراہم کر دیا گیا ہے۔امید ہے کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی
رواں سال جاری کر دی جائے گی۔
کثیرالجہتی قومی پالیسی عالمی، علاقائی اور ملکی تناظرات کا احاطہ کرتی ہے
جس میں پاکستانی شہریوں کی فلاح اور تحفظ و سلامتی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
حکومت نے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو بھی یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ نیشنل
انٹرنل سکیورٹی پالیسی کی تشکیلِ نو کرے۔ پہلی نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی
۲۰۱۴ءمیں مرتب کی گئی تاہم اس کا صحیح طور پرنفاذ نہ ہوسکا۔ کاونٹر ٹیررازم
کیلئے بنائی گئی یہ پالیسی محدود تناظر میں مرتب کی گئی تھی یا پھر اس
دوران کچھ اہم چیلنجز کومدِ نظر نہیں رکھا گیا تھا۔امکان ہے کہ جون ۲۰۱۸ء
سے پہلے اس پر مشاورتی عمل مکمل کرلیاجائے گا۔بلا شبہ یہ تمام پیش رفت ان
امورکی غمازی کرتی ہے کہ بالآخر پاکستان نیشنل سکیورٹی پالیسی کا اعلان
کرنے جارہاہے جونیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی کے تحت پایہِ تکمیل کو پہنچے
گی۔یہ تما م عمل اچانک رونما نہیں ہوااورنہ اس کاتعلق موجودہ امریکی سفارتی
بحران سے ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان نے اندرونی خطرات کا مقابلہ
کرنے کیلئے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ،ریپڈریسپانس فورس، نیشنل
کاؤنٹرٹیررازم اتھارٹی اورسب سے اہم سکیورٹی معاملات کے حوالے سے کیبنٹ
کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
قومی سلامتی کیلئے کیبنٹ کمیٹی کاقیام نائن الیون کے بعدعمل میں لایا گیا
جو قومی سکیورٹی معاملات کے حوالے سے فیصلہ سازی کااہم ادارہ بن چکا ہےتاہم
ان اداروں کودواہم چیلنجزکاسامناہے۔پہلامبہم پالیسی اورلائحہِ عمل جبکہ
دوسراچیلنج پارلیمانی اورسول نگرانی کی کمی ہے۔داخلی سلامتی کے معاملات میں
عسکری اداروں کی حد سے زیادہ دلچسپی بجائے خود حکومت اورداخلی سلامتی کے
اداروں کیلئے ایک مسئلہ بن گئی ہے اورانہیں اپنی طاقت،اپنے وسائل اورحتیٰ
کہ اپنے اختیارات بھی فوج کے ذیلی اداروں سے شیئرکرناپڑرہے ہیں جبکہ عسکری
اداروں نے پچھلے کئی سالوں سے سول مقتدراداروں کونیشنل ایکشن پلان پران کی
ذمہ داریوں پران کی مجرمانہ سست روی کی بارہانشاندہی بھی کی جس کے بعدبہ
امرمجبوری ملکی سلامتی کیلئے انہیں یہ راست اقدام اٹھانے پرمجبورکیاگیا ۔یہی
وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عسکری اداروں کے تمام اہم
اداروں کے سربراہوں نے خودسینیٹ میں جاکربراہ راست عوامی نمائندوں کے تمام
تنداورتلخ سوالوں کے جوابات دئے اوربرملاان عوامی نمائندوں کوان کی ذمہ
داریوں سے پہلوتہی کاشکوہ بھی کیااوروہاں پرفیصلہ کیا گیاکہ آئندہ قومی
سلامتی کی کابینہ کمیٹی کوعسکری معاملات اورملکی سلامتی کیلئے اہم پالیسی
نکات فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دینے کے بعدان پر فوری عملداری کی رپورٹ
قوم کے سامنے بھی رکھی جائے گی تاکہ آئندہ عوام کوئی یکطرفہ رائے سے
گریزکرے البتہ اس عمل سے یہ واضح ہوگیاکہ پارلیمنٹ اور حکومت کوئی پالیسی
انفراسٹرکچر نہیں بنا سکی جوپالیسی کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتا اور
پارلیمانی وعوامی رائے کو لائحہِ عمل کا حصہ بنانے کا موجب ہوتاحتیٰ کہ
جاری نیشنل سکیورٹی پالیسی کےتکمیلی مراحل میں پارلیمنٹ کو آن بورڈ لیا گیا
اور نہ ہی پارلیمنٹ نے یہ ضرورت محسوس کی کہ وہ قومی سلامتی پالیسی پر کسی
بحث کا آغاز کرتی یا پھر اس کے حوالے سے اپنا نقطہِ نظر پیش کرتی۔حکومت نے
بالآخرآج ایوان صدرمیں قومی پالیسی پر اپنی رائے پیش کردی ہے مگراہم بات یہ
ہے کہ موجودہ حکومت نے اس پربھی پارلیمنٹ کواعتماد میں نہیں لیا،جس کی یہ
بنیادی ذمہ داری ہے۔ایک سپریم،آئین وقانون سازاورعوامی نمائندہ ادارے کو اس
طرح کے اہم مباحثے میں شریک نہ کیے جانے کانتیجہ کیاہوگا؟یہ عمل نہ صرف
قانون سازی وذمہ داری کے حوالے سے مسائل پیداکرتا ہے بلکہ کسی ایسے حسا س
اورسنجیدہ معاملے پر پارلیمنٹیرینزاورسول سوسائٹی کی آراء کونظرانداز کرنے
کی وجہ بنتاہے جوان مسائل کوزیادہ عمدہ طریقے سے زیرِبحث لاسکتے ہیں۔ اب
تویہ بحث بھی چل نکلی ہے کہ مجوزہ سسٹم پاکستان میں مکمل ناکام ہوچکاہے
اورہم طاغوتی نظام کوجمہوریت کانام دیکر اپنے بیرونی آقائوں کوتو خوش کررہے
ہیں لیکن اس بات کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کہ ہم اپنے خالق سے بغاوت کے
مرتکب ہورہے ہیں۔ اقوام عالم اپنے باغیوں سے کیاسلوک کرتی ہے یہ ہم سب
کوعلم ہے تو پھر ہماری عقلوں پریہ پردہ کیوں پڑگیاہے کہ تمام جہانوں کاخالق
اپنے باغیوں سے مزید کوئی رورعائت کرے گا۔مثال کے طورپرکالعدم تنظیموں
کامعاملہ، جس کے سبب پاکستان سالوں سے اندرونی وبیرونی سکیورٹی مسائل کی
پیچیدگیوں کاسامنا کر رہاہے،محدود یابیوروکریسی کی سطح پرڈیل نہیں
کرناچاہیے بلکہ ان کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کااختیارخود پارلیمنٹ
نے نیشنل ایکشن پلان میں عسکری اداروں کوسونپاہے جس کے تحت فوجی عدالتیں
قائم کی گئیں لیکن بعد ازاں اس اختیارکواعلیِ عدالتوں میں چیلنج
کردیاگیاجبکہ پارلیمنٹ کواس قدر بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ سپریم کورٹ کویہ
اطلاع فراہم کر سکے کہ یہ سارامعاملہ پارلیمنٹ نے ہی طے کیاہے اورملکی
سلامتی کے پیش نظرہمیں اس پر مکمل یکجہتی کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ان کالعدم
تنظیموں کے متعلق،جن کو بیرونی دنیا ریاستی پراکسیزسمجھتی ہے۔ گروہوں کی
بحالی کسی باقاعدہ ریاستی پالیسی کاحصہ نہیں تھی اورنہ ہی اس سلسلے میں
پارلیمنٹ اپنی اجتماعی دانش سے کالعدم تنظیموں کے مستقبل سے متعلق کسی
رہنماپالیسی کی فراہمی سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کا بوجھ کم کرنے میں معاون ثابت
ہو سکی۔ دوسرا اہم معاملہ جو پالیسی کی تشکیل میں انتہائی مبہم دکھائی
دیتاہے وہ پالیسی کے نفاذ اور مانیٹرنگ کیلئے مطلوبہ میکنزم کامعاملہ ہے۔
یہ سقم نیشنل ایکشن پلان میں بھی دیکھنے کو ملا تھا۔
تاحال کوئی بھی نیشنل ایکشن پلان کی ذمہ داری لینے کوتیار
نہیں۔متعدداتھارٹیز اس کے نفاذ کی ذمہ دار سمجھی جارہی ہیں۔ پارلیمانی
نگرانی اس مسئلے کو حل کرسکتی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کوبھی نیشنل انٹرنل
سکیورٹی پالیسی کی مشاورت میں زیرِ بحث آنا چاہیے۔زیادہ تر ماہرین نیشنل
ایکشن پلان کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے پر متفق ہیں، ایک انسداد دہشت
گردی اور دوسرے کو انتہا پسندی کے معاملات سے نمٹنا چاہیے۔ نظرثانی شدہ
نیشنل ایکشن پلان کو نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی کاحصہ بھی بنایاجاسکتاہے۔
سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اب تک فوجی عدالتوں نے کسی بھی طرح کی سکیورٹی
پالیسی میں بنیادی انسانی حقوق کامکمل خیال رکھاہے جس کے بارے میں کوئی
دورائے نہیں۔حقیقی طورپرقانون کی عملداری اوراتھارٹی کی طرف سے اختیارات کے
ناجائزاستعمال کوروکنے کیلئے بھی فوری اورموثراقدامات کی اشدضرورت ہے تب
جاکریہ عمل ملک کوسکیورٹی اسٹیٹ کے ٹیگ سے چھٹکارادلاسکتا ہے۔ مجھے اس بات
پرقدرے یہ اطمینان توضرور ہے کہ ملکی سلامتی کے پیش نظرپہلی مرتبہ انقلابی
اقدامات توشروع کردیئے گئے ہیں جس کے نتائج چند ماہ تک سامنے آنا شروع
ہوجائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ آئندہ دنوں مارچ میں سینیٹ میں برتری حاصل
کرنے کیئے جوسیاسی جوڑتوڑ اورسیاسی ابتری کاعمل بلوچستان سے شروع ہوگیاہے
اوراس کیلئے سیاسی جماعتوں کی ٹرائیکاجوکل تک ایک دوسرے کوکرپٹ اوربے تحاشہ
دوسرے الزامات سے نوازتی تھی آج کیوں اس قدرشیرو شکرہوگئے ہیں؟یادرکھیں کہ
افغانستان میں امریکی اپنی ہولناک شکست اورہزیمت سے بلبلااٹھے ہیں اورسی
پیک کامنصوبہ نے بھی ان کی نیندیں حرام کررکھی ہیں جس کیلئے وہ ملک میں
افراتفری اورملکی سلامتی کومحفوظ بنانے والے واحدادارے کوناکام بنانے کیلئے
اس افراتفری سے ضرورفائدہ اٹھائیں گے جس کیلئے اقتدارکی خاطردرپردہ سیاسی
رہنمائوں میں مکمل اتفاق طے پاچکاہے لیکن عوام کوبیوقوف بنانے کیلئے ہرکوئی
اپنے ہاتھ میں ڈگڈگی تھامے اپنے کرتب دکھانے کیلئے بے تاب ہے- |