اگر کسی سیاسی پارٹی کے نظریات کے بجائے کرائیے کے لوگ
جمع کرکے مجمع کی تعداد دیکھ کر سیاسی پارٹی کی مقبولیت کا فیصلہ کیا جائے
تو ایسے عوام کو جانور تصور کرنے میں کیا حرج ہے۔ اور جانوروں کے ملک میں
جانور ہی اقتدار میں آئیں گے۔ دوسو روپے کے لئے پردہ دار خواتین وہ بھی
صوبہ خیبر پختونخواہ کے پشتون غیرت والے اگر 100 کلومیٹر کا سفر طے کر کے
ایک ایسے جلسے میں شرکت کریں جہاں یہ تک پتہ نہ ہو کہ کون جلسہ کررہا ہے۔
کیوں جلسہ کررہا ہے۔ جلسے کے منتظمین اصل میں کیا کام کرتے ہیں۔ ان کا آپس
میں رشتہ کیا ہے۔ وہ جو چیخ و پکار کررہے ہیں وہ کس مقصد کے لئے ہے۔ اس سے
بھی بڑھ کر اگر 100 کلومیٹر کے سفر کا آنے جانے کا کرایہ ہی آپ لگالیں تو
500 روپے بنتے ہیں۔ جلسے میں دو سو روپے کے لئے شرکت کرنے والے افراد کو
200 اور 500 کے فرق کا ہی نہ پتہ ہو۔ ایسے لوگ ووٹ کے موسم میں گھر کے
قریبی پولنگ اسٹیشن جاکر 20 روپے کیلئے ووٹ نہیں ڈالیں گے؟ اگر ذہنی بیداری
کا لیول ہی یہ ہو کہ آپ کے ضمیر کی قیمت بیس روپے ہو تو پھر آپ کیسے کسی
تبدیلی کا موجب بن سکتے ہیں۔ اگر ووٹر کو ضمیر، ووٹ، ایمان ،تبدیلی اور 20
روپے کا فرق معلوم نہ ہو تو ایسے ملک میں ہونے والی کسی بھی برائی کے لئے
آپ کس کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں۔
عمومی رائے تو یہی صحیح لگتا ہے کہ عام آدمی کو آگاہی اور شعور دینے میں
ناکامی ان افراد کی ہے جن کو یہ زعم ہے کہ وہ معاشرے کو بدلنے کی کوشش میں
کردار ادا کرنے کے قابل ہیں۔ یہ دانشور ہونے کے دعویدار لوگ 70 سال میں ملک
میں کونسی تبدیلی کے موجب بنے ہیں۔ ان کی تقریروں سے یہی لگتا ہے کہ یہ لوگ
آسمان سے اترے ہوئے فرشتے ہیں ۔ کچھ حد تک ان کا فرشتہ ہونا ممکن بھی لگتا
ہے یہ ایسے فرشتے ہیں جو رائے تبدیل کرنے، مثبت سوچ کو فروغ دینے کے بجائے
فساد برپا کرنے کے لئے دنیا میں بھیجے گئے ہیں۔ اپنے ٹاک شوز میں لوگوں کو
بیٹھا کر روز بندر کا تماشا لگاتے ہیں اور اس تماشے سے یہ ثابت کرنے کی
کوشش کرتے ہیں کہ وہ سوچ کی تبدیلی میں کوئی کردار ادا کررہے ہیں حالانکہ
انہی ٹاک شوز کے ذریعے وہ ملک کے کرپٹ ترین افراد کو روز عوام کو دیکھا کر
ایک حساب سے ان کرپٹ افراد کے لئے ملک میں پسندیدگی کے اسباب پیدا کرنے کے
ذمہ دار ہیں۔ معاشرے کی تباہی میں سیاست دانوں سے زیادہ ان دانشواروں کا
کردار ہے۔ یہ ایسے افراد کو عوام کے سامنے کئی دہائیوں سے پیش کررہے ہیں جو
ملک کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں اور یہ اپنے شوز میں ان کو ہیروز کے طور
پر پیش کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ دانشور خود اور ان کے شوز میں آنے والے لوگوں
میں تبدیلی کو فروغ دینے میں کردار ادا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور نہ ہی
کوئی شوق۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تبدیلی جہاں سے شروع ہونی چاہئے ہم وہاں سے
شروع نہیں کرتے۔ہمیں تبدیلی پہلے دوسروں کے گھروں میں چاہئے اپنے گھر ،
اپنے آپ اور اپنے بچوں کو ہم کسی بھی تبدیلی کا حصہ بنانے کے لئے تیار نہیں
ہیں۔ یہ دوسروں کو پہلے تبدیل کرنے کی بیماری ہی اس سارے تماشے کو مزید
تماشا بنادیتی ہے۔ ہمارے دانشور طبقہ گزشتہ سات دہائیوں میں ایک چھوٹی سی
بات لوگوں کے ذہن میں نقش تو دور کی بات بٹھانے میں ناکام رہا ہے کہ ووٹ
اور اس کا تقدس کیا معنی رکھتاہے۔ نظریہ ہوتا کیا ہے۔ ایک عام آدمی نظریے
کو پرواں چڑھانے میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔ زندہ باد کے نعرے کہاں لگانے
ہیں اور یہ نعرہ مستانہ لگانے کی کوئی وجہ بھی ہوسکتی ہے یا سو سو روپے کے
دو نوٹ بھی زندہ باد کا نعرہ لگوانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ہمارا
دانشور طبقہ یہ بات عام آدمی کو بتانے کے تیار نہیں کہ یہ جودو سو روپے
عوام کو پکڑا کر ان کو جانوروں کی طرح جلسہ گاہوں تک لایا جاتا ہے وہ پیسہ
بھی انہی عوام کا ہے۔ جو کہ ان غفلت اور غلط انتخاب کی وجہ سے بار بار
چوروں کے ہاتھ لگ جاتا ہے اور اسی ٹیکس کے پیسوں سے انہی عوام سے ووٹ خریدا
جاتا ہے۔اگر قوم کا دانشور 70 سالوں میں قوم کو یہ سمجھانے میں ناکام ہے کہ
وہ انسان ہیں جانور نہیں جن کی خریدو فروخت کی جائے۔ توایسے دانشور کو
پڑھنے والے دو سو روپے میں اپنا وقت اور 20 روپے میں اپنا ووٹ بیچنے میں حق
بجانب ہیں۔ |