ہر سال کی طرح ۱۱ فروری کو مقبول بٹ شہید کی برسی
منائی گئی مگر ماننا پڑے گا کہ اس سال دنیا بھر میں جہاں کئیں جموں کشمیر
کے باشندے موجود ہیں وہاں انہوں نے ماضی کے نسبت زیادہ منظم اور جوش و خروش
سے مقبول بٹ شہید کی برسی منائی جس کے لیے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔
موجودہ ٹیکنالوجی نے بھی کافی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ جبری طور پر منقسم
جموں کشمیر کے باشندوں اور تارکین وطن کے درمیان رابطے آسان اور مضبوط ہوئے
ہیں۔ ہمارے آبائی شہر کھوئیرٹہ میں اس دفعہ لبریشن فرنٹ کی مقامی شاخ اور
اسکا طلباء ونگ ایس ایل ایف مقبول بٹ کی برسی سے دو ہفتے قبل متحرک ہو گیا
تھا۔ مقامی شاخ کے صدر افضل باغی۔ جنرل سیکرٹری عامر بشیر ۔ رضوان جرال اور
ایس ایل ایف کے مرکزی رہنماء عدیل فرید مقامی صدر مرتضی علی۔ سیکرٹری آصف
بٹ پر مشتمل ٹیم نے کھوئیرٹہ کے مختلف علاقوں میں متعدد اجلاس کر کے لوگوں
کو متحرک کیا جس میں بھارتی جیل میں سترہ سال سزا کاٹنے والے حریت پسند
رہنماء سہیل کٹاریہ۔ وحید جنگی۔ تعظیم مغل اور وقار ملک نے اہم کردار ادا
کیا۔ وقار ملک اعوان ۔ عامر بشیر اور رضوان جرال کی قیادت میں سیری سے آنے
والے قافلہ کے ساتھ جب نیشنل لبریشن آرمی کے باوردی نوجوانوں کی ٹیم یاد
گار چوک کی طرف سے کھوئیرٹہ بازار میں داخل ہوئی تو عوام کے اندر ایک ہلچل
مچ گئی۔ پورا بازار آزادی کے نعروں سے گونج اٹھا مقامی قیادت خاصکر صدر
افضل باغی اب قافلے کے آگے چلنے کے بجائے پیچھے چل رہے تھے جو انکے خلوص کا
مظہر تھا انہوں نے آخر میں تقریر بھی نہیں کی اور ہر مقام پر نوجوانوں کو
زیادہ سے زیادہ اظہار کا موقع دیا۔ بیرون ملک سے آنے والے رضوان یوسف نے
بھی مائی طوطی دربار اور گرد و نواح کے نوجوانوں کو متحرک کرنے میں اہم
کردار ادا کیا مگر انہوں نے بھی تقریر نہیں کی۔ لاری اڈہ پر جب ریلی پہنچی
تو جگہ کم ہونے کی وجہ سے لوگ دور دور تک مکانوں اور دکانوں کی چھت پر نظر
آ رہے تھے جلسہ ختم ہونے تک کوئی ادمی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اس موقع پر
ریلی کے منتظمین میں سے ایک ادمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ اکثر
تاریخی حوالوں سے تقریر کیا کرتے ہیں مگر یہاں اس لیول کے لوگ نہیں ہیں
تفصیلی گفتگو آپ کوٹلی کرنا یہاں مختصر رکھیں تاکہ قافلہ وقت پر کوٹلی پہنچ
جائے۔ مجھے اس موقف سے اختلاف ہے۔ کھوئیرٹہ ایک اہم شہر ہے جہاں بھارت اور
پاکستان کی افواج اکثر گولہ باری کرتی رہتی ہیں جسکی وجہ سے لوگوں کی نقل
مکانی کا سلسلہ کبھی رکتا نہیں۔ جہاں تک لوگوں کے لیول کی بات ہے اسکا
اندازہ تحریک آزادی میں یہاں کے عوام کے کردار سے لگایا جا سکتا ہے۔ وادی
بناہ سے ہزاروں لوگ شہید ہوئے ہیں جام شہادت نوش کرنے والوں کے اندر آزادی
کی قدر و قیمت اور سمجھ تھی تبھی انہوں نے قربانیاں دیں ۔ زندگی کے ہر شعبہ
میں وادی بناہ کے لوگوں کا کردار مثالی رہا ہے۔ یہاں کے بچے آزاد کشمیر بھر
میں تعلیمی میدان میں سب سے آگے ہیں خاصکر میڈیکل ڈاکٹروں کا تناسب سب سے
زیادہ ہے لہذا یہ کہنا کہ کھوئیرٹہ تحصیل ہونے کی وجہ سے ضلع کوٹلی سے کسی
بھی لحاظ سے کم ہے اس لیے یہاں عالمی و تاریخی تذکروں کی ضرورت نہیں باالکل
غلط ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے بڑے مقامات پر بھی اجتماعات دیکھے ہیں
آزادی پسند تنظیموں کے اندر اب زیادہ تر ایسے لوگ گھس آئے ہیں جو خود کو
اجاگر کرنے کے لیے شہیدوں کے نام پر پروگرامات تو کرتے ہیں لیکن شہادت پر
یقین نہیں رکھتے۔ شہیدوں سے ان کی عقیدت کا اندازہ غازیوں کے ساتھ عداوت سے
لگایا جا سکتا ہے جسکی وجہ سے ن غازیوں کی اکثریت جنکی ابتدائی قربانیوں نے
مسلہ کشمیر کو فلیش پوئینٹ بنایا وہ پس منظر میں دھکیل دئیے گے ہیں ۔ تحریک
آزادی کی مخالف قوتیں بھی منفی اور ابن الوقت لوگوں کو آزمودہ کار حریت
پسندوں کے خلاف کھڑی کر رہی ہیں تاکہ انکو آسانی سے بوقت ضرورت استعمال کیا
جا سکے ۔ الجزائر کے بن بلا آزادی کے ہیرو تھے لیکن جوں ہی الجزائر آزاد
ہوا تو سامراجی قوتوں نے اسے اپنے ہی خود غرض ساتھیوں کے ہاتھوں قید کروا
دیا اور کئی سالوں تک دوران اسیری بن بلا کے ساتھ اس کے سیکورٹی افسران کو
بھی بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح بیمار ہوئے تو انکو
ہسپتال لے جانے والی ایمبولنس کا راستے میں پیٹرول ختم ہو گیا ۔ نیلسن
منڈیلا کی رہائی کے جب آثار پیدا ہوئے تو سامراجی قوتوں نے انکے خلاف
متوازی قیادت سامنے لانے کی کوشش کی مگر انکی قید کے بعد قیادت سنبھالنے
والے اولیور ٹامبو نے تمام سازشیں ناکام بنا دیں۔ جوں ہی نیلسن منڈیلا بری
ہوئے تو پارٹی الیکشن کروا کر نیلسن منڈیلا کو صدر بنوا دیا جو بعد میں ملک
کے بھی صدر بن گے ۔ نیلسن منڈیلا اگر چاہتے تو تاحیات صدر رہ سکتے تھے لیکن
انہوں نے اپنا پہلا دورانیہ پورا ہونے کے بعد نوجوان قیادت کو آ گے لا کر
خود گھر چلے گے جبکہ ہمارے چند ایک سابق اسیروں کے علاوہ کوئی بھی پارٹی کے
اندر نظر نہیں آ رہا ۔ نوجوان نسل پرانے لوگوں سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے
لیکن نمود و نمائش کے اسیران کو ہر وقت اپنی پروجیکشن کی فکر رہتی ہے۔ کئی
سالوں سے صرف شہیدوں کی برسیاں منائی جا رہی ہیں مگر کسی بھی اشو پر کام
نہیں کیا جاتا ۔ مخلص نوجوانوں کی کمی نہیں لیکن انکی کسی بھی قسم کی تربیت
نہیں کی جا رہی سنئیر قیادت کا فرض ہوتا ہے کہ نوجوانوں کا لیول بلند کرنے
کے لیے ان کے سامنے تاریخی حوالوں سے بات کی جائے لیکن بہت ساروں کو جب
دشنام طرازی اور ٹھٹھے مذاق اور حجت بازی سے روکا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ
یہ وقت کی ضرورت ہے۔ وہ دشنام طرازی کو جرات مندانہ رویوں سے تعبیر کرتے
ہیں۔ اخلاق سب سے بڑا ہتھیار ہے اور گفت و شنید کی میز پر دلیل کے لیے
متعلقہ معلومات کی ضرورت ہوتی ہے مگر اکثر جماعتیں آج نوجوانوں کو نعروں کے
علاوہ کچھ نہیں سکھا رہئیں۔ مقبول بٹ شہید کی برسی کے ساتھ ہی امان اﷲ خان
کی برسی کا اعلان کر دیا گیا ہے اس کے بعد سال بھر ان شہداء کی برسیوں کا
سلسلہ جاری رہے گا جنکے بیوی بچوں کی کبھی کسی نے خیریت تک دریافت نہیں کی۔
تحریک آزادی کی اس کمر شلائزیشن کو فوری طور پر بند کروانے کی ضرورت ہے اور
ایسا وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ جموں کشمیر کی وحدت کے لیے
قربان کر دیا ہے۔ ہر سال کی طرح مقبول بٹ اور افضل گورو کے جسد خاکی کی
حوالگی کا مطالبہ کیا گیا مگر عملی طور پر کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ یورپ
میں بسنے والے کشمیریوں نے یورپی اراکین پارلیمنٹ سے مقبول بٹ کے جسد خاکی
کی حوالگی کے لیے ایک قراداد منظور کروائی تو ایک یورپی ایم پی نے تجویز دی
کہ مسلمان ملکوں کی حکومتوں کو بھی اس طرح کی قرارداد منظوور کرنی چائیے ۔
اس بات کو دو سال گزر گئے ہیں لیکن کسی مسلمان حکمران کی غیرت نہیں جاگی- |