الیکشن کمیشن کی طرف سے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق افواہوں
نے پورے ملک کی سیاسی فضا میں بے چینی پیدا کر ڈالی ہے اور ہر طرف مختلف
قسم کی قیاس آرائیاں گردش کرتی سنائی دے رہی ہیں کہ پتہ نہیں کون سے حلقے
کو کس جگہ سے توڑ کر کسی دوسرے قومی یا صوبائی حلقہ میں شامل کر دیا جائے
جس طرح نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے بہت سے ایسے امیدوار متاثر ہورہے ہیں
جنہوں نے اپنے پرانے حلقوں میں اپنا بہت سارا کام مکمل کر لیا تھا وہیں
پرتحصیل کلر سیداں بالخصوص اس لہر کی لپیٹ میں آگئی ہے متوقع حلقہ بندیوں
کی وجہ نے پوری تحصیل کے عوام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور ہر طرف سے
بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ ضلع کوہسار ہو یا قومی و صوبائی حلقوں کی تبدیلی
تینوں صورتوں میں ان کے ساتھ زیادتی ہونے جارہی ہے اور یہ ان کوکسی بھی
حالت میں قابل قبول نہیں ہے عوام علاقہ کے ساتھ منتخب چیئرمینوں نے بھی
ایسی تمام تر صورتحال کی مخالفت کر دی ہے ایک ماہ قبل ایم سی کلر سیداں میں
تمام بلدیاتی نمائندوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مشترکہ طور پر یہ
فیصلہ کیا گیا کہ وہ این اے 52اور چوہدری نثارعلی خان سے کسی بھی طور پر
الگ نہیں ہونا چاہتے اوروہ این اے 50میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے اپنے
تمام تر حربے استعمال کریں گے اب تو کلر سیداں بارایسو سی ایشن نے بھی ضلع
کوہسار میں شمولیت کی کھل کر مخالفت کر دی ہے اور واضع کر دیا ہے کہ اگر
تحصیل کلر سیداں کو مجوزہ ضلع میں شامل کیا گیا تو کلر سیداں کے وکلاء
برادری ہر تال سمیت تمام آپشنز پر غور کرے گی بار کے عہدیداروں نے ایک
متفقہ قرارداد منظور کی ہے جس میں متعلقہ حکام کو متنبہ کیا گیا کہ مجوزہ
ضلع کوہسار میں شمولیت کی بھرپور طریقے سے مخالفت کی جائے گی اس سے واضع
ہوتا ہے کہ کلر سیداں کے زیادہ تر عوام ضلع کوہسار این اے 50اور پی پی ٹو
میں شمولیت پر نالاں ہیں اور وہ یہ بالکل نہیں چاہتے ہیں کہ ان کو مزید
مشکلات سے دوچار کیا جائے حلقہ بندیوں سے متعلق اطلاعات یہ ہیں کہ تحصیل
کلر سیداں کی غربی یونین کونسلز جس میں غزن آباد ، بشندوٹ ، گف اور ایم سی
کلر سیداں کو این اے 50میں شامل کر دیا گیا ہے اور ان یوسیز کو پی پی دو
میں شامل کرنے پر کام جاری ہے اور ااس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ایسا ہو
کر ہی رہے گا اگر تحصیل کلر سیداں کو ضلع کوہسار میں شامل کیاجاتا ہے تو
عام عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا جب تحصیل کلر سیداں کہوٹہ کا حصہ
تھی تو مقدمات کی پیشی کے سلسلہ میں جو لوگ کہوٹہ جایا کرتے تھے ان کی رات
بھر صرف اس خوف سے آنکھ نہ لگتی تھی کہ صبح اگر وہ پہلی بس کو نہ پہنچ سکے
تو ان کو بہت نقصان کا سامنا کرنے پڑے گا اور بعض دفعہ تو لیٹ پہنچنے پر
ضمانیتں بھی کینسل ہوجایا کرتی تھیں اب اگر ان کو اس سلسلہ میں ضلعی
عدالتوں میں پیشی کے لیے مری یا لہتراڑ جانا پڑ گیا رات بارہ بجے کے فورا
بعد ہی تیاری شروع کرنا پڑے گی تب ہی کہیں جاکر صبح آٹھ بجے پہنچا کریں گے
اگر صرف قومی اسمبلی کے حلقہ کے حوالے سے شامل کیا جاتا ہے تو سیاسی حالات
پرانے حلقہ سے بہت مختلف ہو جائیں گے حلقہ این اے 50جغرافیائی اعتبار سے
پاکستان کے مشکل ترین حلقوں میں شامل ہوتا ہے حلقہ میں ترقیاتی کام نہ ہونے
کی وجہ سے لوگ انتہائی مشکل گزر بسر کررہے ہیں رابطہ سڑکیں اور مشکل راستے
امیدواروں کے لیے کسی کٹھن چیلنج سے کم نہیں حلقہ این اے 50پہلے ہی ترقیاتی
کاموں کے حوالے سے نظر انداز ہے اس میں مزید تحصیل کلر سیداں کو شامل کرنے
سے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا جبکہ تحصیل کلر سیداں کے لوگ چوہدری نثار
علی خان کی حلقہ کے لیے والہانہ محبت کے عادی ہیں اور پہلی خواہش پر ہی
ترقیاتی کاموں کی امید رکھنے کی خواہش پایہ تکمیل تک بھی پہنچ جاتی ہے جبکہ
حلقہ این اے 50میں تمام تر صورتحال اس کے برعکس ہے چوہدری نثارعلی خان نے
ترقیاتی کاموں کے حوالے سے اس علاقہ کو پورے پاکستان میں مثالی بنایا ہوا
ہے جس طرف نظر پڑتی ہے ترقیاتی کام ہوتے ہوئے نظرا ٓتے ہیں اس حوالے سے بھی
ہمیں بہت نقصان ہوسکتا ہے اگر کلر سیداں کے اس حصہ کو پی پی 2میں شامل کر
دیا جاتا ہے تو پوری تحصیل کلر سیداں ، کہوٹہ اور حلقہ کے دیگر علاقہ جات
کی محتاج ہو کر رہ جائے گی کیونکہ پی پی 2میں تو پہلے ہی تیارہ شدہ حلقہ ہے
اس میں کسی بھی نئے امیدوار کی گنجائش ہی موجود نہیں ہے صرف ن لیگ ہی کو لے
لیا جائے تو وزیر اعظم اور ان کی ٹیم صوبائی اسمبلی کے حوالے سے راجہ محمد
صغیر کی کھل کر حمایت کر رہی ہے جبکہ پارٹی راجہ محمد علی کے حوالے سے کافی
متحرک ہے کیونکہ راجہ محمد ظفر الحق کے اثر رسوخ کے باعث ان کے فرزند کو
ٹکٹ کے حصول میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی ہے تو اس سے یہ بات بالکل واضع
ہے کہ وہاں پر کلر سیداں سے کسی بھی نئے یا پرانے امیدوار کے لیے کوئی
گنجائش ممکن ہی نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ تحصیل کلر سیداں کے عوام
تحصیل کہوٹہ کے بالکل محتاج ہوکر رہ جائیں گے تو اس تمام تر صورتحا ل سے یہ
سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا کلر سیداں کی مٹی اتنی ہی بانجھ ہے کہ وہ اپنا
لیڈر کسی اور جگہ سے لے کلر سیداں کے غیور عوام میں اپنا لیڈر چننے کی
بھرپور صلاحیت موجود ہے خواہ وہ آزاد حیثیت میں ہی کیوں نہ سامنے آجائے یہ
تمام تر حقیقتیں ہیں اور نہایت ہی غو ر طلب پہلو ہں جن پر سنجیدگی سے غور
کرنا ہوگا اب تمام امیدوار خواہ وہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے ہوں
مری کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ سے ہی ہوں گے کلر سیداں کے عوام صرف ووٹ ڈالیں
گے جس طرح اس ساری صورتحال میں تحصیل کلر سیداں سے تعلق رکھنے والے ن لیگ
کے امیدوار متاثر ہونگے وہاں پر پاکستان تحریک انصاف کے لیے بھی ایسی ہی
صورتحال پیدا ہواجائے گی پی پی دو کے لیے راجہ طارق مرتضی اور راجہ وحیدا
حمد خان بھی بطور امیدوار حلقہ میں کام کر رہے ہیں اور تحصیل کلر سیداں کے
تعلق رکھنے والے متوقع امیدوار ملک سہیل اشرف اور ہارون کمال ہاشمی کو بھی
نئے حلقہ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے بہت سے مسائل کا سامنا کرناپڑے گا اب
تمام امیدوار خواہ وہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے ہوں مری کوٹلی ستیاں
اور کہوٹہ سے ہی ہونگے کلر سیداں کے عوام صرف ووٹ ڈالنے تک ہی محدود رہیں
گے چوہدری نثارعلی خان اور قمر السلام راجہ جو خود بھی اس صورتحال سے متاثر
ہورہے ہیں کو چاہیے کہ تمام تر صورتحال پر نظر رکھیں اور اپنے حلقہ کی عوام
کو دوسروں کا محتاج ہونے سے بچائیں اور اس سلسلہ میں اپنا بھر پور کردار
ادا کریں بصورت دیگر پانی سر سے گزر جائے گا اور پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ
نہ آئے گا ۔ |