ایک صاحب مرنے کے بعد جب اوپر پہنچے تو دیکھا ایک دیوال
پر بہت سی گھڑیاں ٹنگی ہیں۔ ان صاحب نے ایک حور سے پوچھا ’’یہ گھڑیاں کیسی
ہیں؟ ‘ تو حور نے جواب دیا’’دنیا کے ہر انسان کے نام کی گھڑی یہاں ٹنگی ہے۔
جو گھڑیاں چل رہی ہیں وہ زندہ لوگوں کی ہیں اور جو بند ہیں وہ لوگ مر چکے
ہیں۔ دنیا میں جب کوئی آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کے نام کی گھڑی کی سوئی
ایک پوائنٹ آگے بڑھ جاتی ہے۔ ایک گھڑی جس کی سوئی زیرو پر روکی ہوئی تھی،
اس کے بارے میں پوچھنے پر حور نے بتایا کہ یہ راجہ ہریش چندر کی گھڑی ہے،
جو کبھی جھوٹ نہیں بولے۔اپنی گھڑی کے بارے میں پوچھا، اپنے دوستوں کی
گھڑیوں کے بارے میں پوچھتے رہے، اچانک انھیں یاد آیا اور پوچھا ’مودی جی کی
گھڑی کہا ں ہے؟‘ حور نے جواب دیا ’اُسے میں نے اپنے کمرے میں لگا رکھا ہے
اور پنکھے کی طرح استعمال کرتی ہوں‘‘۔
یہ لطیفہ پڑھ کر مودی بھکت خوش ہو جائیں گے کہ پرلوک میں مودی جی کی گھڑی
اتنی تیز چل رہی ہے کہ حوریں پنکھے کی طرح استعمال کر رہی ہیں۔اور
ـــــ․․․․پھر․․․․․ مودی!․․مودی!․․مودی!کی گونج۔بہر حال !قدرت نے جس کے لیے
جو کچھ لکھ دیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا چاہے ہریش چندر کی گھڑی کی سوئی
زیرو پر اٹکی رہے یا مودی کی گھڑی پنکھے کی طرح چلتی رہے۔مودی جی نے ایک
اور بیان بھونیشور میں دیا کہ ’’مسلم خواتین تین طلاق سے بہت پریشان ہیں،
اس پریشان حال مسلم خواتین کی مدد کی جانی چاہئے کیونکہ حکومت ان کی
پریشانیوں کو ان دیکھا نہیں کر سکتی۔انھوں نے یہ بھی کہاکہ ان کے مسائل کے
حل کے لیے ضلع سطح پرکام کرنا ہوگا۔
مودی جی کی اس تقریر کا خلاصہ کرتے ہوئے مرکزی وزیر نِتِن گڈکری نے کہا
کہ’’اگرسماج میں کوئی غلط رسم چلی آرہی ہے تو اس کے لیے بیداری لائی جانی
چاہئے اور انصاف دلانے کی پوری کوشش کی جانی چاہئے کیونکہ ہمیں ایک مضبوط
بھارت کا نرمان کرنا ہے اس کے لیے ہمیں یہ یقینی بنانا پڑے گا معاشرتی اور
معاشی معاملات میں نا برابری تو نہیں ہو رہی ہے ،اور مذہبی سطح پر امتیازی
سلوک تو نہیں برتاجا رہا ہے؟
کچھ خریدی ہوئی عورتوں کو برقہ پہنا کر مودی جی کی مسلمانوں سے دشمنی
نکالنے والی ہمدردی۔اپنے آنکھ کی شہتیر ان کو نہیں دیکھائی دے رہی ہے۔مایا
پربھو جو بھارت اور جرمنی کے مشترکہ ورثہ کی مصنفہ ہیں جنہوں نے اپنے کیرئر
کی شروعات کینیا اور یوگانڈا سے کی ہے۔۲۰۱۶ء میں وہ دلّی میں تھیں لیکن حال
ہی میں انھوں نے بنگلور میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ مایا پربھو (اصلی ڈگریوں کے
ساتھ) ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں انہیں کی ایک رپورٹ کا خلاصہ مودی جی کی
آنکھیں کھولنے اور قارئین کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے ذیل میں پیش
ہے۔
جب ’کملا‘(فرضی نام) بہت صبح گھر لوٹتی ہے، تو اس کا شوہر ہمیشہ کی طرح
آرام کی نیند سوتا رہتا ہے جبکہ وہ ساری رات اپنا جسم بیچ کر اور پیسہ کما
کر آئی ہے، اب وہ نہائے گی، ناشتہ تیار کریگی اور بچوں کو اسکول بھیجنے کے
بعد کچھ آرام کریگی۔نجف گڑھ کی یہ کملا کس طرح رہ رہی ہے کسی سے ڈھکا چھپا
نہیں ہے۔یہ’ پیرنا ‘قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔اس قبیلے کی عورتیں اور لڑکیاں
شادی کے بعدایک بچہ پیدا کر لینے پر ان کے گھر والے ہی ان کو جسم کی تجارت
میں دھکیل دیتے ہیں۔عموماً شوہر خود اپنی بیوی کے لیے گاہک تلاش کر کے لاتا
ہے۔
کملانے بتایا کہ ’’میرا پہلا بچہ پیدا ہونے کے کچھ دن بعد ہی مر گیا
تھا۔میری جب دوسری لڑکی پیدا ہوئی اور جب ایک سال کی ہوئی تب سے ہی میں نے
یہ کام شروع کر دیا تھا۔وہ تیرہ سال کی عمر میں ہی ’پیرنا‘ قوم کے ایک شخص
سے بیاہ دی گئی جس سے وہ پہلے کبھی نہیں ملی تھی۔کملا نے بتایا کہ وہ ۱۷؍
سال کی عمر میں اپنے نئے پریوار کے لیے کمائی کا ذریعہ بن گئی‘‘۔
اس نے ایک اندازہ کے مطابق بتایا کہ اُس کی عمر اِس وقت ۲۰؍سال کی ہوگی۔وہ
ہر رات کو اپنے قبیلے کی دوسری عورتوں کے ساتھ گاہک کی تلاش میں نکلتی ہے
اور مختلف مقامات جیسے بس اڈّا،پارکوں اور سنسان مقاموں میں گاہک تلاش کرتی
ہے ۔وہ اس بات کی بھی فکر رکھتی ہیں کہ پولیس کے ہتّھے نہ چڑھ پائے۔
اس نے آگے بتایا کہ وہ جلد سے جلد گاہک کوموٹر کار کے اندر یا کسی بھی
آڑمیں جلد سے جلدنپٹا لیتی ہے۔کبھی کبھی گاہک کا دوست جو قریب میں ہی چھپا
ہوتا ہے وہ بھی آ جاتا ہے۔ہرگاہک دو سو سے تین سو تک فیس ایک ٹرپ کی ادا
کرتا ہے۔کملا کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم ایک ہزار روپیہ ایک رات میں کما
لے۔
یہ ایک کملا کی کی کہانی نہیں ہے، نجف گڑھ کے ہر گھر کی بہوئیں کملا ہوتی
ہیں۔ہر کملا کو اپنے جسم کی تجارت ہنسی خوشی کرنی ہوتی ہے،یہ نجف گڑھ، کا
دستور ہے۔ان کے شوہر کوئی کام نہیں کرتے صرف اپنی بیویوں سے جسم کی تجارت
کراتے ہیں۔مخالفت کرنے پر اُسے گھر سے کپڑے اُتر وا کرنکالنے کی دھمکی دی
جاتی ہے۔
دلّی سے ۲۱؍کلومیٹر اور نئی دلّی ریلوے اسٹیشن سے۲۷؍کلو میٹر کی دوری پر
نجف گڑھ ہے۔مرزا نجف خاں(1733–1782) جو بادشاہ ، شاہ عالم کے کمانڈر اِن
چیف تھے، انہیں کے نام پر اس مقام کا نام نجف گڑھ پڑا۔۱۸۵۷ء کی بغاوت کے
دوران باغیوں اور انگریزی فوج کے درمیان اسی نجف گڑھ میں جنگ ہوئی تھی۔مغل
فوج کے جنگ ہار جانے پردلّی پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا
تھا(۱۸۵۸)۔آزادی کے بعد یہ دلّی ودھان سبھا کا مکمل انتخابی حلقہ ہے ۔
نجف گڑھ کی ’پیرنا قوم‘ سے الگ دیو کنیاؤں کی حالت نہیں ہے۔ جنوبی بھارت
میں عورتوں کو ’دھرم اور آستھا ‘ کے نام پر’ دیو کنیا ‘بنائی گئیں اور بعد
میں لاچار اور مجبور ہو کر جسم فروشی کے دلدل میں پھنس گئیں۔سماجی اور
پریوارکے دباؤکے چلتے یہ عورتیں دھارمک کُریت‘ کا حصہ بننے کو مجبور
ہوئیں۔دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے مندروں میں ناچتی تھیں۔دھیرے دھیرے یہ
عورتیں عوامی جائداد بن کر رہ گئیں۔کرناٹک میں دس اور آندھرا پردیش میں
چودہ ضلعوں میں یہ رسم اب بھی بدستور جاری ہے۔اس رسم کو لیکرکئی غیر سرکاری
تنظیمیں اپنا احتجاج درج کراتی رہی ہیں لیکن مودی جی کی نظر تین طلاق پر
اٹکی ہوئی ہے۔
مودی جی کی ہمدردی ان ہندو عورتوں سے کیوں نہیں ہے؟ان کے لیے بیداری مہم
کیوں نہیں چلا رہے ہیں؟ان کے لیے کوئی قانون کیوں نہیں بن رہا ہے؟ان کو
گندگی سے نکالنے کی فکر کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟میرایہ کہنا مناسب نہیں
ہوگا کہ’’ صرف اس لیے ان کی حالت نہیں سدھاری جا رہی ہے تاکہ غیر شادی شدہ
لوگ اپنی جسمانی ضروریات ان سے پوری کر سکیں،شادی کے مکڑ جال میں نہ
پڑیں‘‘۔
یہ ہیں بھارت کی اصل گندگیاں جو پارکوں میں جھاڑو لگانے سے یاسڑکوں پر یوگا
کرنے سے صاف نہیں ہونی ہیں۔ |