12فروری کا دن غیر متوقع نتائج کا سورج لے کر طلوع ہوا
لیکن یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ نتائج کیا ہونگے اور جیت کا سہرا کس کے سر
سجے گا اور جب نتائج آئے تو وہ لوگوں کی توقعات کے برعکس تھے۔ NA-154کے
ضمنی انتخابات کا میدان پیر سید اقبال شاہ نے مار لیا جو کہ بظاہر ایک عام
آدمی تھا اور لوگوں کی نظر میں ان کا کوئی سیاسی قد کاٹھ بھی نہیں ہے لیکن
یہ صرف بظاہر ہی ہے وہ سیاست سے وابستہ ہیں ان کے دو بیٹے ہیں اور ایک بیٹا
رکن صوبائی اسمبلی ہے۔ اور اسکے ساتھ ساتھ پیر و مریدی بھی کرتا ہے۔
2005میں پیر اقبال شاہ خود تحصیل ناظم تھے اور حالیہ بلدیاتی الیکشن میں وہ
چیئرمین کی سیٹ جیت کر آئے تھے۔ اس ضمنی الیکشن کو لڑنے کے لیے انہوں نے
اپنی چیئرمین کی سیٹ سے استعفیٰ دیا۔ جبکہ دوسری طرف علی خان ترین جوکہ
جہانگیر ترین کے صاحبزادے ہیں اور حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم بی
اے ڈگری مکمل کرکے لوٹے ہیں۔ جن کا پیر صاحب کے مقابلے میں سیاسی قد کاٹھ
زیادہ مانا جا رہا تھا جبکہ ایسا نہیں ہوا۔یہ سیٹ جہانگیر ترین کی سپریم
کورٹ سے نا اہلی کے بعد خالی ہوئی تھی اس وجہ سے اس حلقہ کو جہانگیر ترین
کا آبائی علاقہ ہونے کی وجہ سے بھی خاص اہمیت حاصل تھی اور یہ قیاس آرائی
کی جارہی تھی کہ یہ سیٹ ہر حال میں پی ٹی آئی کی ہے کیونکہ یہ سیٹ جہانگیر
ترین 40000ووٹوں سے جیت چکے تھے اور اب کی بار ان کا ماننا یہ تھا کہ یہ
سیٹ 50000کی لیڈ سے جیتی جا سکتی ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ضمنی الیکشن جیتنے
کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے یہ پانچواں الیکشن بھی مسلم لیگ نواز نے ہی
جیتا۔
اس جیت کی کیا وجوہات اور محرکات ہوسکتے ہیں؟ کیا نواز لیگ کی مقبولیت ان
کے خلاف فیصلہ آنے کے باوجود بڑھ گئی ہے؟ کیا پی ٹی آئی اپنے منشور سے ہٹ
گئی ہے؟ علی ترین کی شکست نے ایسے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جن کے
جوابات تلاش کرنا پی ٹی آئی کے لیے بہت ضروری ہے اور ہمارے لیے بھی کیا ہم
کوئی تبدیلی نہیں چاہتے۔ موروثی سیاست کی طرح موروثی قیادت کے بھی عادی
ہوچکے ہیں-
علی ترین کی شکست کی وجہ پی ٹی آئی کی اس حلقے میں ضرورت سے زیادہ خود
اعتمادی، کمزور الیکشن کمپین بھی تصور کی جاتی ہے۔ دوسری طرف جہانگیر ترین
کی سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد ان کی جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی کی سیٹ سے
فارغ ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں ہی دو گروپس بن گئے ہیں۔ جس میں سے ایک
دھڑا شاہ محمود قریشی اور ان کے حواریوں کا ہے اور دوسرا جہانگیر ترین اور
عمران خان پر مشتمل ہے۔ شاہ محمود قریشی اپنے دھڑے میں سے کسی کو جنرل
سیکرٹری لانا چاہتے اور اس رسہ کشی نے پی ٹی آئی کو اندرونی طور پر کمزور
کیا۔ اسی گروپ بندی کی وجہ سے جہانگیر ترین نے شاہ محمود قریشی جیسے سینئر
رہنما کو کسی میٹنگ میں شامل نہیں کیا۔
دوسری طرف جہانگیر ترین سیاسی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ بزنس مین بھی ہیں جن
کی شوگر ملز بھی ہیں اور جنوبی پنجاب میں گنے کا کاشتکاربہت مشکلات کا شکار
ہے اور ان کی جہانگیر ترین سے اس بحران سے نکلنے کے حوالے سے بہت سی توقعات
وابستہ تھیں جن پر وہ پورا نہ اتر سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس حلقے میں صدیق بلوچ نے نااہلی کے بعد اپنی مخالفت اور
گروپ بندی جہانگیر ترین کے خلاف زیادہ مضبوط کر لی ہے۔ جس کا سب سے زیادہ
فائدہ مسلم لیگ نواز کو ہوا ہے۔ وہاں کے بڑے گروپ جن میں صدیق بلوچ، کانجو
گروپ اور چار بڑے دھڑوں سے مل کر پی ٹی آئی کے خلاف grand allianceکیا اور
پیر صاحب کی جیت کو یقینی بنایا۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پیر اقبال شاہ کے والد بھی وہاں کے لوگوں کی فلاح و
بہبود کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی زمین میں سے ڈیڑھ مربع
لوگوں کی فلاح کے لیے عطیہ کیا جس پر ہسپتال اور سکول تعمیر کیا گیا۔ ابھی
لودھراں میں ٹراما سنٹر بھی انہی کی زمین پر بنا ہے۔ اپنے امیدوار کو مزید
مضبوط کرنے کے لیے مسلم لیگ نواز حلقہ این اے 120 والی پالیسی اپناتے ہوئے
دن رات یہاں پر ترقیاتی کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرکے مکمل کیا جن
میں بجلی کے ٹرانسفارمرز لگوانا جہاں سڑکیں موجود نہیں ہیں وہاں ٹف ٹائلز
لگوائیں۔ لودھراں خانیوال سڑک 43کلومیٹر مکمل کی گئی اس طرح 125بیڈز پر
مشتمل سرکاری ہسپتال بھی بنایا گیا تھا یہ سب وہ کام ہیں جو ہر حکومت اور
لیڈر کی اپنے حلقے میں کروانا ذمہ داری ہے جو کہ صرف الیکشن کے وقت ہی پوری
کی جاتی ہے۔
دوسری طرف ہم جس بے حس اور کرپٹ معاشرے کا حصہ ہیں وہاں عام آدمی کا کرپشن
کے لیے Tolerance level برداشت کا مادہ یا صلاحیت بہت بڑھ گئی ہے۔ چھوٹے سے
کام سے لے کر بڑے کام تک سبھی کو ایک ہی مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے اس وجہ سے
یہاں پر کسی کی کرپشن، اقامہ، اثاثہ جات اور پاناما کوئی معنی نہیں رکھتا۔
یہاں کی عوام تعلیمی و ذہنی پسماندگی، معاشی مسائل میں اتنا جکڑ چکی ہے کہ
ہر ایک کی سوچ محدود اور صرف اپنے تک ہی محدود ہوچکی ہے۔ وہ ترقی اور بہتری
کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے صرف اپنے گھر کا چولہا جلنے کے بارے میں
سوچتے ہیں۔ وہ یہ سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ معاشرہ کوپلنے بڑھنے کے
لیے کن عوامل اور لیڈروں کی ضرورت ہے۔یہاں جو ایک بانسری بجاتا ہے باقی سب
اس کے پیچھے چلتے جاتے ہیں وہ کہاں لے کر جائے گا اور کیا کرے گا اس بات سے
بے غرض اور لاعلم ہیں۔
عمران خان صاحب جو کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر سیاست کے میدان میں اترے تھے
آج وہ اس نعرہ کو بھول چکے ہیں اور ان کی جماعت بھی تمام نا اہل لیڈروں پر
مشتمل ہو چکی ہے کیونکہ یہاں ہر ووٹ بنک بنایا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں
ووٹ شخصیت کا ہے چاہے تو شاہ محمودقریشی پی پی پی میں رہے یا پھر پی ٹی آئی
میں وہ جہاں بھی جائے گا اپنا ووٹ بنک ساتھ لے کر جائے گا۔ اپنے منشور سے
ہٹ جانا بھی پی ٹی آئی کی ناکامی کی وجہ نظر آتی ہے اور ایسی جماعت جو کہ
اقتدار میں آنے سے پہلے ہی الیکشن ہار چکی ہے اور اپنا اقتدار کھوتی جا رہی
ہے۔
ان تمام پہلوؤں کے باوجود ایک بات سب سے اہم یہ ہے کہ کیا ہم اور ہماری
عوام اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پیر سید اقبال شاہ کی جیت اس
بات پر مہر ثبت کرتی ہے کہ ہم آج بھی ذہنی طور پر پسماندہ ہیں تبدیلی بڑی
بڑی عمارتیں، میٹرو بس، اورنج ٹرین بنانے سے نہیں آتی۔ اگر گزشتہ سے پیوستہ
کیا جائے تو میرے گزشتہ کالم جس میں تعلیم کو موضوع بحث بنایا گیا تھا اس
میں یہی بات سمجھانے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ تعلیم بہت ضروری
ہے اس کے بغیر معاشرے کی سوچ بدلنا بہت مشکل ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو آج
آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھنے والا الیکشن نہ ہارتا اور ایک اردو نہ بول پانے
والاشخص ہمارا لیڈر نہ ہوتا۔
تحریر: ڈاکٹر رابعہ اختر
|