ڈیورنڈ لائن کی مسلمہ حیثیت و حقیقت

ماضی کے امیر افغانستان عبدالرحمان خان کے زمانے سے ڈیورنڈ لائن ایک طے شدہ بین الاقوامی سرحد ہے تاہم افغانستان کی حکومت بار بار بھارتی ایماء پر پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھاتی رہتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بلوچ شورش پسندوں کی قیادت کو محفوظ پناہ گاہیں ، تخریب کاری کی تربیت، ہتھیاروں اور وسائل کی فراہمی بھی پاکستان دشمنی میں کرتی رہتی ہے۔ تاہم پاکستان کی پختون آبادی نے کبھی پختونستان کے نظریے کی تائید و حمایت نہیں کی۔ ماسوائے سیاست میں اُن چند غداروں کے جن کے آباؤ اجداد نے ماضی میں افغانستان کی میزبانی اور افغان حکمرانوں کی حمایت سے فوائد سمیٹے تھے۔ بہرحال یہ وقت ہے کہ افغان حکمران حقائق کو قبول کریں اور پاکستان کے ساتھ سرحد پر باڑ بچھانے کے کام کی تائید و حمایت کریں تاکہ دہشت گردوں کی سرحد پار آمدو رفت روکی جا سکے۔ پاکستان کے قبائلی صحافی شاہ زلمے خان نے ایک اور آرٹیکل پشتونستان خرافات یا حقیقت میں تاریخی پس منظر اور تازہ زمینی حقائق نے دلائل کے ساتھ پشتونستان سے متعلق حقائق بیان کیے ہیں۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن خرافات یا حقیقت کے عنوان کے تحت مضمون میں بھی مضمون نگار نے واضح کیا ہے کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک انٹرنیشنل بارڈر ہے جس کو بہت سارے افغانستان اور برطانوی حکومت کے درمیان تشکیل دیئے گئے کمشنوں میں بھی تسلیم کیا گیا۔ ڈیورنڈ لائن کی حقیقت کو دستاویزی ثبوتوں سے اجاگر کیا گیا ہے۔

بہرحال جہاں تک افغانستان کی سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں شدید دہشت گردی، تخریب کاری اور عدم استحکام پیدا ہوا اُس کا اپنا ایک تاریخی پس منظر ہے ۔بھارت 1947ء میں برصغیر کی تقسیم سے ہی پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ٗ اسکی پرتشدد کارروائیاں بلوچستان ٗ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) اور ملک کے دیگر حصوں میں جاری ہیں۔ یہ تمام کارروائیاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ RAW سرانجام دیتی ہے جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پر اس حد تک کمزور کرنا ہے کہ وہ خطے میں بھارتی بہیمانہ عزائم کی راہ میں رُکاوٹ نہ بن سکے۔ بھارت افغانستان میں قونصل خانوں کے نام پر تیزی سے ’’را‘‘ کے مراکز قائم کر رہا ہے ٗ انہی مراکز کے ذریعے پاکستان اور افغانستان سے باغیانہ سوچ رکھنے والے بلوچ نوجوانوں کو بھرتی کرکے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ طالبان اور القاعدہ کیخلاف آپریشن کو بھی اسی طرح منصوبہ بندی سے افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ ملک میں بے یقینی کی فضا پیدا کی جا سکے۔ ان حالات میں پاک افغان سرحد کے دونوں طرف آباد قبائل کی آزادی نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیاہے۔

’’را‘‘ بلوچستان میں شدت پسندوں کو بھڑکانے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کیلئے افغان وزارت داخلہ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی ’’خاد‘‘ KHAD جس کا نام نام ’’رام‘‘ RAM ہے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ 1980ء کے وسط میں ’’را‘‘ نے کاؤنٹر انٹیلی جنس ٹیم ایکس (CIT-X) اور کاؤنٹر انٹیلی جنس ٹیم جے (CIT-J) کے ناموں سے دو خفیہ گروپ بنائے جن کا مقصد پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملے کرناتھا۔
’’را‘‘ ایسی کارروائیوں کیلئے افغان خفیہ ایجنسی ’’رام‘‘ اور افغان انتظامیہ میں شامل پاکستان مخالف عناصر کی مدد حاصل کرتی ہے۔ ’’را‘‘ کیلئے کام کرنے والے افراد میں نہ صرف بھارتی سیاستدان شامل ہیں بلکہ افغانستان میں تعمیرنو کیلئے آنے والی بھارتی تعمیراتی کمپنیوں کے ملازمین میں بھی اسکے تربیت یافتہ جاسوس موجود ہیں۔ 2009ء میں 3 بلوچ قوم پرست رہنماؤں کے قتل میں بھی ’’را‘‘ ملوث تھی ٗ یہ رہنما بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے اغواء کئے گئے اقوام متحدہ کے پاکستان میں نمائندہ جان سولیکی کو رہا کروانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ جاسوس بلوچستان میں موجود ہیں جن کا مقصد صوبے میں قیام امن کی کوششوں کو ناکام بنانا اور بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کو رقوم کی ترسیل ہے۔
بھارتی خفیہ ادارے افغانستان میں اپنے سفارتخانے ٗ چار قونصل خانوں ٗ تیرہ معلوماتی مراکز اور درجنوں دیگر مراکز کے ذریعے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ یہ مراکز بظاہر فلاحی ٗ ثقافتی اور دیگر سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں لیکن اُن کا اصل ہدف پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئے وسائل مہیا کرنا ہے۔ کابل میں بھارتی سفارتخانہ اور اسکے قونصل خانے جعلی پاکستانی کرنسی نوٹ پھیلانے میں بھی مصروف ہیں۔’’را‘‘ اپنے مقاصد کیلئے کمپنیوں ٗ غیرسرکاری تنظیموں حتیٰ کہ ثقافتی مراکز کو بھی استعمال کرتی ہے ٗ اسی وجہ سے افغانستان کے حساس اداروں اور تنظیموں میں بھارتی مشیروں اور ماہرین کی معتدبہ تعداد کام کرتی ہے۔ یہ افراد ’’را‘‘ سے رہنمائی حاصل کرکے پاکستان کے مفادات کیخلاف کام کرتے ہیں۔ ’’را‘‘ اس وقت بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ اس کیلئے وہ بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (BLF) کی مدد کر رہی ہے۔

پاکستان میں افراتفری پھیلانے اور اسے غیرمستحکم کرنے کیلئے ’’را‘‘ افغانستان کی بھارت نواز حکومت اور خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر منصوبوں پر عمل کرتی ہے۔ پاکستان کی مغربی سرحد پر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے ’’را‘‘ ایرانی سرزمین بھی استعمال کرتی ہے۔ ان دو ملکوں میں قائم اپنے مراکز کے ذریعے ’’را‘‘ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں پاکستان مخالف قوتوں کو براہ راست مدد فراہم کرتی ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ نے شمالی اتحاد کی مدد سے دہشت گردی کے کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ ان کیمپوں میں بگٹی ٗ مری قبائل ٗ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے جنگجوؤں ٗ افغانستان کی سپیشل ٹاسک فورس کے اہلکاروں ٗ افسران اور ملک دشمن پاکستانی عناصر کو تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں میں تقریباً 600 سے زیادہ جنگجوؤں اور بلوچستان کے باغی قبائلیوں کو دھماکہ خیز مواد استعمال کرنے ٗ بم بنانے اور خطرناک ہتھیاروں کو چلانے کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد ان افراد کو دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے پاکستان میں داخل کر دیا جاتاہے۔ بلوچ جنگجوؤں کیلئے تربیتی کیمپ سپن بولدک اور شوراوک میں بھی قائم کئے گئے ہیں۔ صوبہ پروان میں درہ پنج شیر سے ملحقہ جبل سراج نامی کیمپ دارالحکومت کابل سے 70 کلومیٹر دور شمال میں تاجکستان کی سرحد کے قریب قائم کیا گیا ہے۔ یہ علاقہ احمد شاہ مسعود کے ساتھیوں کے قبضے میں ہے۔ درہ نور نامی تربیتی کیمپ ننگرہار میں قائم کیا گیا ہے۔ یہ کیمپ صوبہ ننگرہار ٗ نغمان اور کونار کے سنگم پر واقع ہے۔ ’’را‘‘ اس علاقے میں ایک اور تربیتی کیمپ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صوبہ پکتیا میں گومل اور شارانا کے نام سے 2چھوٹے تربیتی کیمپ کام کر رہے ہیں۔ سابق افغان وزیر خارجہ ڈاکٹر عبداﷲ عبداﷲ نے پکتیا میں ’’را‘‘ کی مدد سے سپاشتا نامی کیمپ قائم کیا۔ اِس کیمپ میں دہشت گردی کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔ ’’را‘‘ نے جلال آباد ٗ ہرات اور مزار شریف میں بڑی تعداد میں اپنے ذیلی دفاتر کھول رکھے ہیں ٗ اِسکے جاسوس مختلف غیرسرکاری تنظیموں کے ملازمین کے روپ میں پاک افغان سرحدی علاقے میں کام کرتے ہیں اور شمال مغربی سرحدی صوبے NWFP اور بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کیلئے مدد فراہم کرتے ہیں۔ ’’را‘‘ نے افغانستان میں تربیتی سکولوں کا جال بچھا رکھا ہے تاکہ فاٹا اور بلوچستان کے لوگوں کو پاکستان کیخلاف کام کرنے کیلئے تیار کیا جا سکے۔ ان تربیتی سکولوں میں سے کچھ کابل ٗ جلال آباد ٗ خواجہ گڑھ ٗ خوست ٗ پکتیا ٗ اربن ٗ قندھار ٗ سپن بولدک اور صوبہ بدخشاں کے علاقے درنج میں قائم کئے گئے ہیں۔

اِسی طرح ’’را‘‘ نے کنٹر ٗ جلال آباد ٗ خوست ارزگان ٗ ہلمند اور قندھار میں ڈی ٹیچمنٹ کمانڈ سنٹرز کھول رکھے ہیں۔ پاکستان مخالف عزائم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سڑکیں تعمیر کرنے والی کمپنیوں کی آڑ میں کام کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں خوست شہر سے تانیا قبائل کے علاقے تک سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ جس شخص کو دیا گیا ہے وہ اصل میں بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل ہے۔ اسی طرح ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیاں بھی ’’را‘‘ کی مدد کرتی ہیں۔ اُن کے لوگ زیادہ تر اسلامی ناموں کے ساتھ کام کرتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ تمام افراد ہندو ہوتے ہیں۔ ’’را‘‘ صوبہ ہلمند کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کیلئے اڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ’’را‘‘ افغان حکومت کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں قندھار ٗ سپن بولدک ٗ ہلمند اور نمروز میں بلوچ جنگجوؤں کیلئے مہاجر کیمپ قائم کر رہی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو پاکستان کیخلاف کام کرنے کیلئے بلوچستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO) کے ذریعے بھرتی کیا جاتا ہے۔ ان نوجوانوں کو افغان پاسپورٹ دیکر کابل بھیجا جاتا ہے جہاں سے ان نوجوانوں کو دہشت گردی کی تربیت کیلئے مختلف ملکوں میں بھیج دیا جاتاہے۔ ’’را‘‘ بلوچوں میں پاکستان کیخلاف نفرت پیدا کرنے کیلئے کوئٹہ ٗ خضدار ٗ گوادر اور ڈیرہ بگٹی سمیت دیگر علاقوں میں بلوچی زبان میں پاکستان مخالف تحریری مواد تقسیم کرتی ہے۔

’’را‘‘ افغان خفیہ ایجنسی ’’رام‘‘ (یہ درحقیقت ’’را‘‘ ہی کا دوسرا روپ ہے اب این ڈی ایس کے نام سے کام کررہی ہے) کے ذریعے براہمداغ بگٹی کو مالی وسائل مہیاکر رہی ہے تاکہ وہ دہشت گردانہ کارروائیں کیلئے بلوچستان میں اپنے لوگوں کو منظم کرے۔ براہمداغ بگٹی ٗ ریاض گل بگٹی ٗ زمران مری اور حمزہ مری افغانستان میں موجود ہیں اور ان افراد کے ’’را‘‘ کے افسران کے ساتھ قریبی روابط ہیں ٗ براہمداغ بگٹی ’’را‘‘ کے افسران سے بھارت اور دبئی میں ملاقاتیں بھی کر چکا ہے۔ اُس نے اِن ملاقاتوں کیلئے افغان پاسپورٹ پر سفرکیا۔

کابل میں بھارتی سفارتخانہ بلوچ لبریشن آرمی کے خاص لوگوں کو بھارت بھجواتا ہے تاکہ اُنہیں ’’را‘‘ کے افسران سے ملوایا جائے جو اُنہیں بلوچستان اور پاکستان کے دیگر حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے منصوبے اور مالی وسائل مہیا کرتے ہیں۔براہمداغ بگٹی نے 5اپریل 2009ء کو سلطان نعمانی کے ہمراہ بھارت کا سفر کیا۔ سلطان نعمانی عبداﷲ نعمانی کا کزن ہے اور وہ عبداﷲ نعمانی کے بعد قندھار میں بلوچ جنگجوؤں کی دیکھ بھال کرتاہے۔ براہمداغ بگٹی بھارت میں 10دن تک اندری پراستھا اپولو ہسپتال میں زیرعلاج رہا۔ ہسپتال میں بھارتی سفارتخانے کا ایک اہلکار اسکے ساتھ رہا۔ اس دورے میں براہمداغ بگٹی نے ’’را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں بھی کیں۔ 23اپریل 2009ء کو واپس افغانستان روانگی سے قبل ’’را‘‘ نے براہمداغ بگٹی کو افغانستان میں مقیم بلوچ مہاجرین کیلئے ایک لاکھ امریکی ڈالرز بھی دیئے۔

اِسی طرح براہمداغ بگٹی کے نائب ریاض گل بگٹی اور حق نواز بگٹی نے بھی 2009ء میں دو مرتبہ افغانستان سے بھارت کا سفر کیا اور اُن کا بھی اندری پراستھا اپولو ہسپتال میں علاج کیا گیا اور ’’را‘‘ کے سینئر افسران سے ملاقاتیں کرائی گئیں۔ اِن افراد نے 3ستمبر سے 13ستمبر 2009ء تک بھارت میں قیام کیا۔ بھارتی ویزہ حاصل کرنے کیلئے ریاض گل بگٹی نے احمدجاوید کے نام سے افغان پاسپورٹ استعمال کیا۔ اِن باغی رہنماؤں کے خاندانوں کو بھی افغان شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کئے گئے ہیں۔ اسی طرح عام جنگجوؤں کو بھی افغانی شناختی کارڈ اور دیگر سفارتی دستاویزات مہیا کی گئی ہیں۔ افغان وزارت سرحدی و قبائلی اُمور پاکستان کے اندر دہشت گردوں کو اسلحہ اور مالیاتی تقویت فراہم کرنے میں ’’را‘‘ کی مدد کرتی ہے۔ یہ وزارت نہ صرف پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ساتھ روابط قائم کرنے میں بھارتیوں کی مدد کرتی ہے بلکہ افرادی قوت پیسوں اور اسلحہ کے ساتھ فراہم کرتی ہے۔ اس وزارت کی ذمہ داریوں میں بھارتی ایجنٹوں کی پاک افغان سرحد پر نقل و حرکت کو آسان بنانا اور اُنہیں وہاں پاکستان کے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے قبائلی جنگجوؤں سے ملانا بھی شامل ہے۔ بھرتی باقاعدہ تربیت اور دہشت گردوں کو اسلحے کی فراہمی جاری ہے۔ ’’را‘‘ بلوچستان میں دہشت گردوں کو کروڑوں ڈالرز دیکر پاکستان میں بغاوت کو ہوا دے رہی ہے۔ دہشت گردوں کو یہ رقوم افغانستان سے ’’حوالہ‘‘ بزنس کے ذریعے پاکستان پہنچائی جاتی ہیں۔ ’’را‘‘ کی طرف سے معقول رقوم کے عوض بھرتی کئے گئے کئی دہشت گرد فاٹا ٗ وزیرستان اور جنوب مشرقی علاقوں سے پکڑے گئے ہیں۔ اِن سے ملنے والی انتہائی اہم معلومات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ بھارت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر خطے میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔

Raja Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Javed Ali Bhatti: 141 Articles with 104852 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.