لودھراں کا انتخاب شائد پاکستان کا واحد انتخاب ہے جس پر
کسی جماعت نے دھاندلی کا الزام عائد نہیں کیا۔پی ٹی آئی جو کہ د ھاندلی کا
الزام لگانے میں عالمی شہرت کی حامل ہے اس نے بھی لودھراں کے انتخاب کو بلا
چون و چرا تسلیم کر لیا ہے اور اپنی شکست کو دھاندلی کے غلاف میں لپیٹ کر
مسلم لیگ (ن) کی فتح کو بے وقعت نہیں کیا۔پی ٹی آئی کیلئے اپنی ہار کو
دھاندلی کے سر منڈھ دینا آسان ترین راستہ تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا
حالانکہ وہ ایسا کر کے نئی بحث چھیڑ سکتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے سے گریزاں
ہے ۔بہر حال کچھ بھی ہو لودھراں الیکشن کے بعد پی ٹی آئی انتہائی دباؤ میں
ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی ہار کو دھاندلی کہنے سے گریزاں ہے۔عمران خان نے
اپنی ہار کو حد سے زیادہ خود اعتمادی کہہ کر تنقیدی توپوں کا زور کم کرنے
کی کوشش کی ہے لیکن اتنا کہہ دینے سے بھی بات نہیں بن رہی اور شکست کے داغ
سے جس طرح پی ٹی آئی کی مقبولیت کو ضعف پہنچا ہے اس سے گلو خلاصی ممکن نہیں
ہے ۔اس ہار کی پارلیمنٹ میں بھی باز گشت سنائی دی اور پی ٹی آئی شرمندگی کی
تصویر بنی رہی۔ میری ذاتی رائے ہے کہ دھاندلی اور الزامی سیاست کے گریز سے
یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہماری جمہوریت قدرے بالغ ہو رہی ہے ۔ یہ
ایک اچھی روائت ہے اور اس کا جاری رہنا جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے۔
انتخابات میں فتح و شکست تو ہوتی ہے کیونکہ ایک نے جیتنا اور دوسرے نے
ہارنا ہوتا ہے لیکن لودھراں میں جس طرح ہارنے والے جیتے ہیں اور جیتنے والے
ہارے ہیں اس سے پورے ملک میں نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔اس میں کوئی دو رائے
نہیں کہ قومی اسمبلی کے حلقہ ۱۵۴ کو پی ٹی آئی کی انتہائی محفوظ نشست تصور
کیا جاتا تھا کیونکہ جہانگیر ترین وہاں سے چالیس ہزارکے فرق سے جیتے تھے۔
مسلم لیگ (ن) خود بھی یہ سمجھتی تھی کہ لودھراں میں ترین فیملی کو ہرانا
آسان نہیں ہے اس لیئے اس نے بھی کوئی جارحانہ انتخابی مہم نہیں چلائی ۔
میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز اپنا چہرہ بچانے کی خاطر لودھراں نہیں
گئے کیونکہ انھیں علم تھا کہ ان کے امیدوار نے ہار جا نا ہے لہذا لودھران
کا سفر رائیگانی کے زمرے میں شامل ہو جا ئے گا ۔وہ سارے ملک میں جلسے کرتے
رہے ہیں لیکن لودھراں محض ا سلئے نہیں گئے کہ ان کے امیدوار کے ہارنے کی
صورت میں ان کی تحریکِ عدل کو ضعف پہنچنے کا احتمال تھا ۔مخالفین کو موقعہ
مل سکتا تھا کہ وہ میاں محمد نواز شریف کی تحریکِ عدل پر سوال اٹھاتے اور
اس کی افادیت کو ہدفِ تنقید بناتے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ عوام نے
سپریم کورٹ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے اور میاں محمد نواز شریف کی تحریکِ
عدل کو رد کر دیا ہے جبکہ میاں محمد نواز شریف کی ساری امیدیں تحریکِ عدل
سے وابستہ ہیں اور وہ اسی پر اپنا سارا زورِ بیان صرف کر رہے ہیں ۔ آج کل
ان کے اور عدلیہ کے درمیان جو معرکہ بپا ہے وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے
۔ ایک زمانہ تھا کہ یہی عدالتیں میاں محمد نواز شریف کو بہت محبوب تھیں
لیکن اب حالت یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کی کوئی تقریر عدلیہ پر حملوں
کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔اس وقت حالت یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت پر تنقید کم
کرتی ہے جبکہ چیف جسٹس ثاقب نثار زیادہ تنقید کرتے ہیں۔پارٹی عہدے والے
مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے چور اور ڈاکو کے ریمارکس نے ساری فضا
کو مکدر کر دیا ہے اور مسلم لیگ (ن) نے اپنی ساری توپوں کا رخ چیف جسٹس کی
جانب مبذول کر دیا ہے۔ عدلیہ کو سیاستدان بھلے ہی نا پسند ہوں لیکن اس طرح
کے الفاظ معزز جج صاحبان کے منہ سے اچھے نہیں لگتے ۔وہ منصف کی کرسی پر
جلوہ فرما ہیں اور انھیں سب کو ایک نظر سے دیکھنا ہے لیکن میاں محمد نواز
شریف کے مقدمے میں عدالت کی جذباتیت بڑی عیاں ہے ۔میاں محمد نواز شریف
چونکہ عدلیہ کے ایک فیصلے سے نا اہل ہوئے ہیں لہذا عدالتِ عظمی کو انتہائی
برداشت کا مظاہرہ کرنا چائیے۔ان کا کوئی ایک جملہ متاثرہ فریق کو طیش دلوا
سکتا ہے۔چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس پر وضاحتی بیان جاری کیاہے لیکن اگر پہلے
ہی احتیاط کا دامن تھام لیا جاتا تو وضاحت کی ضرورت پیش نہ آتی۔وضاحت شائد
الجھن اور مسئلہ کا حل نہیں ہوتی کیونکہ جو دھول اٹھنی ہوتی ہے وہ اٹھ چکی
ہوتی ہے۔چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف
عدالت کے اندر سے کسی بغاوت کو ابھارا جائے بالکل ویسے ہی جیسے سابق چیف
جسٹس سید سجاد علی شاہ کے خلاف ایک بغاوت ابھاری گئی تھی۔ اس وقت خوب بریف
کیس چلے تھے جو اب بھی چل سکتے ہیں کیونکہ میاں نواز شریف پیسہ سیاست کے
شناور ہیں ۔اس وقت پوری قوم پیسے کی ہوس میں 0یوانی ہو چکی ہوئی ہے لہذا
کسی بھی انہونی کو بعید از قیاس نہیں سمجھنا چائیے۔،۔
میاں محمد نواز شریف نیب میں اپنے خلاف چلنے والے مقدمات کو بغض اور عناد
کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں ۔وہ اسے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا باہمی گٹھ
جوڑھ قرار دے رہے ہیں ۔وہ اسے ووٹ پر شب خون سے تشبیہ دے رہے ہیں لہذا
عدلیہ سے ان کی محاذ آرائی کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے ۔عوام ان کی باتوں
کو بغور سن رہے ہیں اور انھیں تاریخی تناظر میں رکھ کر کسی حتمی نتیجے پر
پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا بیانیہ کیا عوام نے قبول کر لیا ہے؟ کیا
عوام ان کی صداقت کی گواہی دیں گے؟ کیا عوامی محبت ان کا نصیبہ بنے گی؟
کیاعوام ان کی نا اہلی کو رد کر دیں گے ؟کیا انھیں ایک دفعہ پھر اسی
سنگھاسن پر بٹھائیں گے جہاں سے عدالت نے انھیں ۲۸ جولائی کو نکال باہر
کیاتھا ؟ساری نظریں ۲۰۱۸ کے انتخابات پر جمی ہوئی ہیں اور عوام بے چینی سے
اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ اپنے ووٹ سے حتمی فیصلہ صادر کریں
گے۔میاں محمد نواز شریف کے جلسوں میں عوام کی شمولیت اور لودھراں کے انتخاب
میں جیت نے ان کے دل میں امید کی کرن روشن کر رکھی ہے۔وہ اپنے تئیں یہ سمجھ
رہے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں اور پنجاب کے تین ضمنی انتخابات میں مسلم
لیگ (ن) کی جیت ان کے بیانیہ کی جیت ہے۔پی ٹی آئی اپنی ہار کی کوئی ایسی
ٹھوس تاویل نہیں دے سکی جس سے یہ باور کیا جا سکے کہ عوام سپریم کورٹ کے
فیصلوں میں عدل کے تراوزو کو کسی ایک جانب جھکا ہوا نہیں دیکھ رہے اور میاں
محمد نواز شریف کے دلائل کو بے وزن اور بے وقعت سمجھ رہے ہیں ۔سوال یہ ہے
کہ کیا لودھراں میں شکست پی ٹی آئی کیلئے واٹر لو کا میدان ثابت ہو گی یا
وہ اس سے سنبھل جائیگی؟قرائن تو یہی بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی دفاعی پوزیشن
پر چلی گئی ہے اور مسلم لیگ (ن) جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے۔میاں محمد
نواز شریف اور مریم نواز کسی ایسے موقعہ کی تلاش میں ہیں جس سے ان کے
مخالفین کو گہرا گاؤ لگے ۔لودھراں کی جیت نے انھیں یہ موقعہ فراہم کر دیا
ہے جس سے وہ مزید شعلہ بیان ہو چکے ہیں۔مریم نواز جس طرح عدلیہ کو للکار
رہی ہیں اور ان کو جانبدار ٹھہرا نے پر مصر ہیں یہ ایک خطر ناک کھیل ہے جس
سے جمہوریت اور نظامِ عدل کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے ۔ اب تو
پارلیمنٹ نے اس مسئلہ کو اٹھا لیا ہے اور نئی قانون سازی کا عندیہ دے دیا
ہے۔ جہاں تک میاں محمد نواز شریف کی ذات کا سوال ہے تو ان کے پاس توکھو نے
کو کچھ بھی نہیں ہے۔وہ پہلے ہی نا اہل ہو چکے ہیں اور ان کی نا اہلی کو اب
پارلیمنٹ کے سوا کوئی اہلییت میں بدل نہیں سکتا اور اس کیلئے قومی اسمبلی
میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ ساتھ سینٹ میں بھی دو تہائی ارکان کی حمائت
لازمی ہے جو کہ فی الوقت مسلم لیگ (ن) کے پاس نہیں ہے ۔سینیٹ کے مارچ میں
ہو نے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتی ہے لیکن
یاروں نے انتخابات سے پہلے ہی بلوچستان سے اس کا بستر گول کر دیا ہے ۔
انھیں سینیٹ میں جس اکثریت کی امید تھی اسے بلوچستان بغاو ت سے شدید زک
پہنچی ہے۔اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ جیسے جیسے میاں محمد نواز شریف پر وزن بڑھا
رہی ہیں میاں محمد نواز شریف کا لہجہ اتنا ہی تلخ ہو تا جا رہا ہے ۔۲۱
فروری کا نیا فیصلہ اس دباؤ کا واضح اشارہ دے رہا ہے اور میاں محمد نواز
شریف کے لئے نئی مشکلات کھڑی کر رہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا میاں نواز
شریف اس دباؤ کے سامنے جھک جائیں گے یا اپنی جمہوری اور آئینی جنگ کو زیادہ
جرات و جوانمردی سے لڑ کر مخالفین کو شکست سے ہمکنار کریں گے ؟۔۔۔۔
|