قبرستان
میں اذان ؟ مگر جاوید ہاشمی کے بقول وہ یہ فریضہ نبھا رہے ہیں، تاہم جس
قبرستان میں وہ موذن کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں وہ آئین و جمہوریت کا
قبرستان ہے۔ انہوں نے نہایت جذباتی انداز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے
خوشیوں کے شادیانے بجانے والوں کو خبردار کیا ہے کہ ’’․․․ ملک جل رہا ہے،
اگر پوری قوم ملک بچانے کے لئے باہر نہ نکلی تو کچھ نہیں بچے گا ․․․ 70 برس
سے عدلیہ نے قوم کو ہرایا ہے اور فوج نے آئین کے پرخچے اڑائے ہیں،جب تک یہ
دونوں ادارے آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کو دل سے تسلیم نہیں کرتے ملک
نہیں چل سکتا․․․ میں کسی کی کرپشن کا جواب دینے نہیں آیا․․․ آئین اور
جمہوریت کے لئے میاں نواز شریف کے شانہ بشانہ کھڑا ہونگا ․․․عمران خان ہیلی
کاپٹر سے نیچے نہیں اترتے․․․‘‘۔ جاوید ہاشمی بہت جذباتی آدمی ہیں، وہ اکثر
اوقات غصے میں ہی دکھائی دیتے ہیں،اس ماحول اور موڈ میں انسان مخالف کو
کھری کھری سناتا ہے، اب وہ چونکہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں تقریباً واپس آچکے
ہیں، اس لئے اب ان کے جذبات کا محور میاں نواز شریف ہیں، اور نشانہ عدلیہ
اور فوج۔
ہمارا اصل موضوع اذان ہے، وہ بھی آئین اور جمہوریت کے قبرستان میں۔ وہ
غصیلی قسم کی پریس کانفرنس کر رہے تھے کہ اس دوران اذان کی آواز آگئی، کسی
صحافی نے توجہ اذان کی طرف دلائی تو انہوں نے اذان کو بھی ’جملہ میں
استعمال‘ کرتے ہوئے مندرجہ بالا بیان جاری کردیا۔ یہاں زِندوں میں اذان
دینے پر کوئی خاص توجہ نہیں ملتی، کہ دنیا کی رونقیں جوں کی توں ہیں، مگر
دن میں پانچ وقت اذان سن کر بھی قوم مسجد کی طرف رُخ نہیں کرتی، توقبرستان
میں اذان دینے سے کون آئے گا؟ اگر مخدوم صاحب قبرستان میں اذان دے کر ’’نمازیوں‘‘
کے منتظر ہیں تو اُن کا یہ تخیل بلاتبصرہ ہی بہتر ہے، کیونکہ ایسی سوچ
رکھنے والے ’پر عزم‘ لوگ کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ اور اگر قبرستان آئین اور
جمہوریت کا ہے تو پھر مُردہ کے زندہ ہونے کی نوید کہاں سے آئے گی؟ اور مردہ
کو سنانے کا حاصل؟ نیم مردہ کو تو کوئی حیات بخش ادویات دے کر نئی زندگی
بخشنے کی کوشش کی جاسکتی ہے، مگر قبرستان میں اذان دینا اپنی توانائیاں
ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ جاوید ہاشمی کا جذباتی ہونا چونکہ نئی بات نہیں،
وہ جس کی مخالفت میں بولتے ہیں اسی طرح جذباتی ہو کر بولتے ہیں، تاہم اب
وقت ایسا آگیا ہے کہ حق میں بولنے کے لئے بھی جذباتی ہونا پڑتا ہے۔میاں
نواز شریف چونکہ آجکل زیرعتاب ہیں، اس لئے ان کے ساتھی بھی ان کی حمایت میں
فطری طور پر بہت زیادہ جذباتی ہو رہے ہیں۔ لیکن ہاشمی صاحب کا کہنا ہے کہ
وہ کسی شخص کے مفاد کے لئے میدان میں نہیں آئے، نہ کسی کی کرپشن کی صفائی
پیش کر رہے ہیں، بلکہ آئین اور جمہوریت کی حفاظت کے لئے وہ برسرِ پیکار ہیں۔
جاوید ہاشمی خوب جانتے ہیں کہ نمازِ جنازہ کے لئے اذان نہیں دی جاتی بلکہ
براہ راست نماز پڑھی جاتی ہے۔ اس لئے اِ ن دونوں اداروں کے اگر قبرستان بھی
بن چکے ہیں تو وہاں نماز کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے، بلکہ معاملہ صرف
فاتحہ خوانی تک ہی محدود رہتا ہے۔ مگر فاتحہ خوانی کی جگہ پر اذان دینا تو
’’ناداں گِر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘ والی بات ہوگئی۔ ہاشمی صاحب
حُسنِ اتفاق سے مخدوم بھی ہیں، چھوٹی بڑی گدّی تو اُن کے پاس بھی ہوگی، اس
لئے فاتحہ خوانی کی مہارت بھی وہ رکھتے ہوں گے۔ ایک اور دلچسپ بات انہوں نے
عمران خان کے بارے میں بھی کہی کہ وہ ہیلی کاپٹر سے ہی نہیں اترتے۔ جاوید
ہاشمی کو چند برس قبل جب برین ہیمبرج ہو گیا تھا تو سو فیصد رائے یہی تھی
کہ میاں برادران کے رویے سے مایوس ہو کر ہاشمی صاحب خرابی صحت کی اس منزل
کو پہنچے ہیں، میاں صاحبان نے اُنہیں مسلسل نظر انداز کیا تھا۔ صحت یابی کے
باوجود مایوسی یہاں تک بڑھی کہ وہ پی ٹی آئی تک پہنچ گئے۔ میاں برادران بھی
جہاز سے نیچے نہیں آتے، نہ ایوان میں آتے ہیں، نہ کچن کابینہ کے علاوہ کسی
کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں (سوائے مشکل د
نوں کے) ۔ جاوید ہاشمی سیاسی پارٹیوں میں قائدین (پارٹی مالکان) کی طرف سے
پائے جانے والے غیر جمہوری رویے کے خود گواہ ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے قبرستان
میں بھی اذان دینے کا بندوبست فرمائیں، اگرسیاسی پارٹیاں جمہوریت کی قائل
نہیں تو اقتدار کے حصول کے لئے جمہوریت کیوں ضروری ہے۔ |