ہند۔ ایران تعلقات ۰۰ تجارت و سرمایہ کاری سے بھی آگے۰۰۰ حسن روحانی

ہند۔ایران کے درمیان تعلقات زمانہ قدیم سے ہیں۔ آزادی ہند کے بعد 1950میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ خوشگوار تعلقات قائم ہوئے۔ لیکن آزادی ہند کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان بعض موقعوں پر تعلقات میں دوری بھی پیدا ہوئی جس کے کئی وجوہ ہیں۔ ان دنوں بین الاقوامی سطح پر دوست اور دشمن سب آپس میں مل کر ترقی کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔ اندرونی طور پر کون کس کا دوست ہے اور کون کس کا دشمن بتانا مشکل ہے کیونکہ ماضی میں جن ممالک کے درمیان دوری تھی آج وہ سب دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر متحد دکھائی دے رہے ہیں لیکن بعض اوقات مشرقِ وسطیٰ کے حالات کی سنگینی کو دیکھنے کے بعد نمایاں ہوجاتا ہے کہ عالمِ اسلام کے خلاف دشمنانِ اسلامی متحدہ طور پر سازش کررہے ہیں۔ ان حالات کے باوجود عالمِ اسلام دشمنانِ اسلام کے ساتھ وسیع تر تعلقات کو فروغ دینے کوشاں نظر آتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں شیعہ ، سنی ، وہابی مسالک کے درمیان خطرناک دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ اس کے باوجود ان ممالک کے حکمراں اپنی ملک کی معیشت کو فروغ دینے اور معاشی سطح پر مضبوط و مستحکم ہونے کے لئے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں اور ان کے درمیان کروڑہا ڈالرس کے معاہدات طے پارہے ہیں ۔ اسی سلسلہ میں گذشتہ دنوں ایران کے صدر حسن روحانی نے ہندوستان کا سہ روزہ دورہ کیا ۔ انکے دورے ہند کے موقع پر ہندو ایران کے درمیان 9معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ایرانی صدر حسن روحانی 8؍ فبروری کو تاریخی شہر حیدرآباد آئے ۔ حسن روحانی شہر حیدرآباد میں علماء مشائخین او ر مسلم دانشوروں سے ہوٹل تاج کرشنا میں خطاب کیا۔ صدر ایران آمد کے دوسرے دن حیدرآباد کی تاریخی عمارتوں کا دورہ کئے اور پھر تاریخی مکہ مسجد میں جمعہ کی نماز اداکی۔نماز جمعہ کے بعد حسن روحانی نے حیدرآبادی مسلمانوں سے تاریخی مکہ مسجد میں خطاب کرتے ہوئے آپسی بھائی چارہ پر زور دیا انہوں نے اتحاد بین المسلمین پر زور دیتے ہوئے کہاکہ آج وقت کا تقاضہ ہیکہ مسلمان اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے دشمنانِ اسلام کی ناپاک سازشوں کا مقابلہ کریں۔ حسن روحانی اپنے تین روزہ دورہ کے آخر میں دہلی روانہ ہوئے جہاں انکا حیدرآباد ہاؤز میں استقبال کیا گیا۔راشٹرپتی بھون میں صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کوونداور وزیر اعظم نریندرمودی نے انکا رسمی خیر مقدم کیا اور انہیں فوج کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا ۔وزیر اعظم نرنیدر مودی اور صدر ایران حسن روحانی کے درمیان سرمایہ کاری، تجارت اور توانائی، رابطوں کو فروغ دینے کے علاوہ دفاع اور سلامتی سے متعلق کئی امور پر بات چیت ہوئی۔ دونوں ممالک کے درمیان مختلف معاہدات پر دستخط کئے گئے۔ وزیر اعظم اور حسن روحانی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ نریندر مودی نے اپنے خطاب میں صدر ایران کے دورے کو خوش آئند بتاتے ہوئے کہاکہ ہندوستان اور ایران کی تہذیب اور ثقافت کے ہزاروں برس پرانے تعلقات کی بنیاد پر مبنی ہمارے دوستانہ رشتوں میں مزید مضبوطی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری اور دو طرفہ توانائی شعبہ میں شراکت داری کو مضبوط کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم نے چاہ بہار بندرگار منصوبہ کو تکمیل تک پہنچانے میں ڈاکٹر حسن روحانی کی دلچسپی کی تعریف کی ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امن اور خوشحالی کے مفاد میں پڑوسی ملک افغانستان سمیت پورے علاقہ کو دہشت گردی ، تشدد ، مذہبی انتہا پسندی، اسمگلنگ وغیرہ بین الاقوامی جرائم کو روکنے کیلئے اور ان برائیوں کو پھیلانے والی طاقتوں پر قابو پانے کے لئے ہم پُر عزم ہے۔صدر ایران حسن روحانی نے اس موقع پرکہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ، تجارت و سرمایہ کاری سے بھی آگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک تاریخی پس منظر رکھتے ہیں۔

سعودی عرب ایک اور قدم آگے ۰۰۰ آئندہ ماہ فیشن شو کی میزبانی
مملکتِ سعودی عرب میں خواتین کو زندگی کے مختلف شعبوں میں آزادی دیئے جانے کیلئے پیشرفت ہورہی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی حکمرانی میں شہزادہ محمد بن سلمان تمام عرب روایات سے ہٹ کر سعودی خواتین کو مغربی و یوروپی تہذیب اپنانے کیلئے رفتہ رفتہ مکمل آزادی دینے کی سعی کررہے ہیں۔ سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے پر پابندی تھی کئی برسوں کے احتجاج کے بعد شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے گذشتہ سال جون میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اسی طرح گذشتہ برس ڈسمبر میں ٹریفک قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے گاڑی کے علاوہ موٹر سائیکل اور ٹرک تک چلانے کی خواتین کو اجازت دی ۔ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خواتین کے حقوق اور اختیارات پر پہلے سے موجود عائد پابندیوں کو کم کرنے کا آغاز کرتے ہوئے گذشتہ سال خواتین کوبغیر محرم کے سعودی عرب میں داخلے کی اجازت اور خواتین کو گھر سے باہر تفریحی مقامات کے علاوہ کھیل کے میدان اور سینما گھروں میں جانے کا موقع فراہم کیا۔چند روز قبل سعودی عرب کی کونسل آف سینئر اسکالرز کے رکن شیخ عبداﷲ الامطلق نے جمعہ کے خطبہ کے موقع پر خواتین سے کہا کہ خواتین اعتدال والے لباس پہنے انہیں عبایہ پہننا ضروری نہیں جبکہ سعودی خواتین کیلئے قانونی طور پر عبایہ پہننا لازم ہے۔شیخ عبداﷲ نے مزید کہا کہ دنیا کی 90فیصد سے زائد نیک مسلم خواتین عبایہ نہیں پہنتی ہیں چنانچہ ہمیں لوگوں کو عبایہ پہننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے اس بیان کے بعد ابھی تک حکومتی سطح پر کوئی ردّ عمل کا اظہار دیکھنے میں نہیں آیا۔ مملکت میں سعودی خواتین کے علاوہ دیگر ممالک کے مسلم و غیر مسلم خواتین کو بھی عبایہ پہننا لازم ہے ۔ ابھی عبایہ پہننے کے لزوم کو سعودی عرب میں کب برخواست کیا جائے گا اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا البتہ اس خبر نے دنیا کو حیرت زدہ کردیا کہ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں آئندہ ماہ ملک کی تاریخ کے پہلے فیشن شو کی میزبانی کی جائے گی، یہ فیشن شو 26؍ مارچ سے 31؍ مارچ تک جاری رہے گا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق شہزادی نورا بنت فیصل نے لندن میں صحافیوں کوبتایا کہ وہ عرب فیشن کونسل کی اعزازی صدر ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان ملک کو روایتی قدامت پسندی سے نکال کر ایک نئی راہ پر گامزن کرنے کی سعی کررہے ہیں اور وہ سعودی نوجوانوں کوملک میں ان تبدیلیوں کے ذریعہ روشن و تابناک مستقبل کی یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں۔ سمجھا جارہا ہے کہ اس فیشن شو میں جن ملبوسات کی نمائش کی جائے گی وہ سعودی عرب میں لباس کے حوالے سے قدرے قدامت پسند اقدار کی ہی عکاسی کریں گے۔ شہزادہ محمد بن سلمان ملک کی معیشت کو اپنے ویژن 2030کے تحت بہتری کی طرف لانے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا خواتین کو مختلف شعبوں میں آزادی دیئے بغیر انکے یہ ترقیاتی منصوبے کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیا ان اقدامات یا فیشن شو کے ذریعہ ملک کی معیشت مستحکم ہوپائے گی ۔اب خواتین کی مجلس شوریٰ کی ایک رکن نے خواتین کو اپنے اور ملک کے دفاع کے لئے فوجی تربیت دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ فی الحال تو اسے رد کردیا گیا ہے لیکن مستقبل میں کسی نہ کسی بہانے اسے بھی منظوری دے دی جائے گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق تفصیلات کے مطابق سعودی عرب مجلس شوریٰ کی سرکردہ خاتون رکن ڈاکٹر اقبال درندری نے سعودی خواتین کی تین ماہ سے ایک سال تک لازمی فوجی سروس کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب ان کے اس بیان پر بعض حلقوں کی طرف سے تنقید بھی سامنے آئی ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق سعودی شوریٰ کی خاتون رکن ڈاکٹر اقبال درندری نے ٹوئٹر پر پوسٹ ایک بیان میں لکھا کہ دفاع وطن اور اپنی ذات کے دفاع کیلئے سعودی خواتین کی تین ماہ سے ایک سال تک فوجی سروس ضروری ہے۔خواتین کو عسکری سروس میں شامل کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی بحران، جنگ یا کسی بھی خطے میں عسکری میدان میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ انہوں نے خواتین کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے خصوصی تعلیمی کورسز پر بھی زور دیا۔ڈاکٹر درندری نے کہا کہ وطن کا دفاع ہرایک کی ذمہ داری ہے۔ اس میں مرد و خواتین کے درمیان کوئی قید نہیں۔انکا کہنا ہیکہ خواتین کو اپنے دفاع اور ملک کے دفاع کیلئے دفاعی مہارت اور اہلیت حاصل کرنا قومی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ اپنے دفاع کیلئے جوڈو کراٹے اور دوسرے دفاعی طریقے سکھائے جاتے ہیں ،اس کے علاوہ خواتین کو اسلحہ چلانا بھی سیکھنا چاہیے۔دوسری جانب سعودی شوریٰ کونسل کی سیکیورٹی کمیٹی کے وائس چیئرمین میجر جنرل عبدالھادی العمری نے کہا کہ شوریٰ نے شہریوں کیلئے لازمی فوجی سروس کا مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔ مملکت میں خواتین اور مردوں میں سے کسی کیلئے بھی فوجی سروسز کو لازمی نہیں قرار دیا گیا۔اب دیکھنا ہے کہ سعودی عرب کی شاہی حکومت مستقبل قریب میں خواتین کو مزید با اختیار بنانے کے لئے کس قسم کے اعلانات کرتی ہے۔ سعودی شاہی حکومت کے ان فیصلوں کے خلاف ہوسکتا ہیکہ کئی مسلم مذہبی خاندان احتجاج کرتے لیکن گذشتہ کے حالات نے سعودی شہریوں کے دلوں میں ڈرو خوف پیدا کردیا ہے کیونکہ مملکت میں ان با اختیار ، کروڑپتی شہزادوں اورعہدیداروں کو رشوت ستانی معاملات میں قید کردیاگیا تھا ،جب شہزادوں کے خلاف اس قسم کی سخت کارروائی ہوسکتی ہے تو عام عوام کے ساتھ اگر وہ حکومت کے خلاف زبان کھولیں گے تو کس قسم کے برتاؤ کی امید رکھی جاسکتی ہے ۔یہی وجہ ہوسکتی ہیکہ شاہی حکومت کے فیصلوں کے خلاف ملک میں کسی قسم کا احتجاج دیکھنے میں نہیں آرہا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کسی نے احتجاج کرنے کی کوشش بھی کی ہوگی تو انہیں کسی نہ کسی طرح خاموشی کرادیا گیا ہوگا ۔

امریکہ دنیا میں اور سعودی مملکت عرب دنیا میں سرفہرست
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح اپنی پہلی صدارتی تقریر کے دوران کہا تھا کہ امریکہ ہر میدان میں اول رہے گا ۔ واقعی امریکہ ترقیاتی میدان میں ہو یا دہشت گردی کے میدان میں ، صف اول سے آگے ہی دکھائی دیتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں ورلڈ گولڈ کونسل نے کہا ہے کہ سونے کے محفوظ اثاثے رکھنے والے عرب ممالک میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ورلڈ گولڈ کونسل نے دنیا کے 98 ممالک میں سونے کے محفوظ اثاثوں کے بارے میں رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق سعودی عرب سونے کے 322.9 ٹن ذخائر کے ساتھ عرب ملکوں میں سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والا ملک ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں ماہ کے آغاز میں دنیا بھر میں سونے کے محفوظ ذخائر بڑھ کر 33 ہزار 790.8 ٹن ہوچکے ہیں جبکہ امریکہ اس قیمتی دھات کے 8133.5 ٹن محفوظ ذخائر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

خام تیل کی پیداوار میں امریکہ سرفہرست ہوسکتا ہے۰۰۰
سونے کی ذخیر ے میں امریکہ جس طرح آگے ہے اسی طرح خام تیل کی پیداوار میں بھی اسے بہت جلد لیڈر شپ مل سکتی ہے ۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ خام تیل کی پیداوار میں عالمی لیڈر بن سکتا ہے۔اس سے قبل سوئٹرز لینڈ کے شہر ڈیووس میں سعودی عرب کی وزارت توانائی اور معدنی وسائل کے وزیر خالد الفالح نے انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کا، تیل کی عالمی منڈی سے متعلق پیشن گوئی کو محض قیاس آرائیاں پر مبنی قرار دیا تھا اورکہا تھا کہ سعودی عرب تیل کی مارکیٹ میں اپنا کردار نہیں کھو رہاہے۔دوسری جانب آئی ای اے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرفتح بیرول نے واضح کیا کہ بڑھتی ہوئی تیل کی پیداوار مارکیٹ کیلئے اچھا رحجان نہیں ہے۔آئی ای اے کی جاری کردہ آئل مارکیٹ رپورٹ میں زور دیا گیا کہ رواں برس عالمی منڈی میں تیل کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہوگا اور اس سال امریکہ کی جانب سے تیل کی سپلائی غیر معمولی اضافے کے ساتھ اتنی ہو گی جو مجموعی عالمی طلب کے برابر ہو سکتی ہے۔آئی ای اے نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھاکہ نومبر2017 سے رواں ماہ تک امریکہ نے اپنے خام تیل کی پیداوار میں فی دن 8 لاکھ 46 ہزار بیرل تک بڑھا دی ہے جس سے جلد ہی سعودی عرب کی اجادری کو جھٹکا لگے گا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں برس کے آخری مہینے تک امریکہ خام تیل کی پیداوار میں روس کو بھی پیچھے دھکیل دے گا اور عالمی لیڈر بن جائیگا۔دوسری جانب امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن نے کہا ہے کہ امریکہ میں خام تیل کی پیداوار 5 ؍جنوری کو فی دن 94 لاکھ 90 ہزار بیرل تھی جو 2 فروری کو بڑھ کر فی دن ایک کروڑ 25 ہزار بیرل تک پہنچ گئی ہے۔دوسری جانب ایس اینڈ پی گلوبل پلٹس کے مطابق دنیا میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے رکن ممالک خام تیل کی پیداوار میں اضافے کیلئے منصوبہ سازی کررہے ہیں۔خام تیل کی پیداوار سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا کہ کویت رواں سال مارچ تک 2لاکھ 25ہزار، ایران پیداواری معاہدہ ختم ہونے کے فورا بعد1 لاکھ ، عراق رواں برس کے آخر تک 50 لاکھ، اور متحدہ عرب امارات 5 لاکھ بیرل فی دن کے حساب سے خام تیل نکالیں گے۔اوپیک کے سیکریٹری جنرل محمد بارکیندو نے یقین دہانی کرائی تھی کہ تیل کی قیمت 30 ڈالر فی بیرل سے کم نہیں ہوگی جیساکہ 2015اور 2016میں ہوا تھا لیکن متعدد ممالک ان کے بیان سے متفق نہیں ہیں۔خام تیل کی اتنی مقدار میں پیداوار ان ممالک کی معیشت پر کاری ضرب لگا سکتی ہے ۔
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 207336 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.