اس کے
بعد وزیر اعظم ہاؤس چھوڑ کر واپس لاہور کے لئے روانہ ہوئے اور ایک قافلہ
تشکیل دینے کی کوشش کی جو کہ ایک بہت بڑے جم غفیر میں تبدیل ہونے کی امید
پر جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور روانہ ہوئے اور پورے راستے حسب
توفیق ’’مجھے کیوں نکالا ‘‘۔۔ ’’مجھے کیوں نکالا ‘‘چلاتے ہوئے چلے ۔۔۔۔اس
وقت موصوف کی اس حکمت عملی کو ترتیب دینے کے لئے ماضی کی ایک کامیاب سیاسی
چال پیش نظر تھی اس کا پس منظر بھی یہاں بیان کرنا ازحد ضروری ہے جس سے
شریف برادران کی اس حکمت عملی کو سمجھنے میں آسانی ہوگی واقعہ کچھ یوں تھا
کہ جو اس سے قبل2008 ء میں ہوا تھا جب افتخار چوہدری کو چیف جسٹس سپریم
کورٹ آف پاکستان کو 3 نومبر2007 ء کی ایمرجنسی کے نتیجے میں اس وقت کے صد ر
مملکت جنرل پرویز مشرف نے ان کے عہدے سے برطرف کیا گیا تھا افتخار چوہدری
کی بحالی کے عدلیہ بحالی تحریک جوکہ کافی عرصہ تک جاری رہی مگر افتخار
چوہدری بحال نہ ہوسکے ،اسی دوران صدر پرویز مشرف کو بھی 18 اگست 2008 ء
کوبھی مستعفی ہونا پڑا اور زرداری صاحب صدر پاکستان بنے ، وفاق کی حکومت
بھی پیپلز پارٹی کی تھی اور نوازشریف اور پیپلز پارٹی کی شہید چےئرمین
محترمہ بینظیر بھٹو 2006 میں میثاق جمہوریت نامی ایک معاہدہ سائن کرچکی
تھیں ،اور نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے تعلقات اس قدر اچھے تھے کہ جب اس
وقت کے وزیر اعظم نے حلف لیا تو اس میں نواز لیگ کے بھی تقریباً6 کے قریب
وزراء نے شمولیت اختیار کی اور پیپلز پارٹی اور نواز لیگ جو ہمیشہ سے ایک
دوسرے کی حریف رہیں تھیں پہلی بار ایک اتحادی حکومت میں ایک ساتھ نظر آئیں
، مگر یہ غیر فطری اتحاد بہت جلدی ٹوٹ گیا اور نواز لیگ کے وزراء نے کابینہ
چھوڑ دی اس وقت وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی تھے جوکہ الیکشن سے قبل تو
معزول چیف جسٹس افتحار چوہدری کی بحالی کے بڑے حامی تھے مگر عہدے پر آنے کے
بعد کچھ پس و پیش کرنے لگے ، اور کچھ عرصہ میں ہی صدر زرداری صاحب نے پنجاب
میں میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں شہبازشریف کی حکومت کو معزول کرکے
وہاں کے گورنر سلمان تاثیر کے ذریعے گورنر راج نافذ کردیا ،نواز شریف اور
شہباز شریف کے لئے زرداری کا یہ عمل ناقابل قبول تھا اور ان دونوں بھائیوں
نے عدلیہ بحالی تحریک میں شمولیت کرلی اورعدلیہ بحالی لانگ مارچ نامی ایک
قافلہ لاہور سے چلا تھا جس کا مقصد جسٹس افتخار چوہدری اور دیگر کئی ججز جن
کو 3نومبر2007ء کی ایمرجنسی میں برطرف کیا گیا تھا انہیں بحال کرانا تھا
مگر یہاں بھی شریفوں کی ایک چال شامل تھی ججز کی بحالی سے زیادہ ان کو اپنی
صوبائی حکومت بحال کروانے کی فکر تھی اور یوں عدلیہ بحالی تحریک کے ذریعے
انہوں نے یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے عدلیہ
بحالی تحریک کا قافلہ جس کی منزل اسلام آباد تھی جہاں ایک بھر پور ایجی
ٹیشن کا پروگرام شریفوں نے بنایا ہوا تھا مگر جب یہ قافلہ گجرانوالہ پہنچا
تو مبینہ طور پر اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس
وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے مطالبہ کیا کہ معزول جج صاحبان کو
بحال کیا جائے تاکہ ملک میں مزید انتشار نہ پھیلے اس طر ح وزیر اعظم یوسف
رضا گیلانی نے قوم سے ایک مختصر خطاب کیا اور سپریم کورٹ کے برطرف شدہ تمام
ججز بشمول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کردیا ، اور ساتھ ساتھ گریبی میں
شہباز شریف کی پنجاب حکومت بھی بحال ہوگئی ،یعنی شریف برادران اپنی اس
سیاسی حکمت عملی یا چال میں کامیاب رہے اور اپنی صو بائی حکومت بحال کروالی
۔۔یہ فارمولا ان کے ذہن میں اس وقت بھی موجود تھا جب 28 جولائی 2017ء کے
سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت برطرف کی گئی اور
انہیں نااہل کیا گیا ،تو وہ ایک بڑی ریلی کی شکل میں وزیر اعظم ہاؤس چھوڑ
کر اپنے شہر لاہور کی جانب سے روانہ ہوئے ،پہلے ان کا پروگرام براستہ موٹر
وے ، لاہو ر جانے کا تھا مگر پھر اس میں تبدیلی کردی گئی اور وہ براستہ جی
ٹی روڈ اسلام آباد ، راولپنڈی اور پھر لاہور کے لئے روانہ ہوئے ، پہلے دن
یہ قافلہ انتہائی سست رفتاری سے چلتا رہا اور 24 گھنٹے کے عرصے میں بمشکل
پنڈی کے مضافات تک پہنچا سب سے بڑا مسئلہ اور خلاف توقع بات یہ ہوئی کہ
میاں نواز شریف کے اندازوں سے بہت کم لوگ اس قافلے میں موجود تھے اس لئے اس
کی رفتار ست رکھی گئی اس امید پر کہ مزید لوگ اس میں شامل ہوں گے اور ایک
اژدہام جب نواز شریف کی حمایت میں جی ٹی روڈ پر موجود ہوگا تو اس سے وہ
عدلیہ کو دباؤ میں لے کر اس فیصلے کو واپس کروا لیں گے بالکل اسی طرح جس
طرح عدلیہ بحالی تحریک میں انہوں نے سڑکوں پر لوگوں کی ایک کثیر تعداد جمع
کرکے پریشر بنایا اور اپنی مرضی کے فیصلے کروالئے مگر ۔۔راولپنڈی ، سے
گجرانوالہ تک کوئی قابل ذکر تعداد اکھٹی کرنے میں ناکامی کے بعد گجرانوالہ
میں کچھ قابل ذکر لوگ ان کا خطاب سننے آئے او ر گجرانوالہ سے آگے تعداد پھر
انتہائی کم رہ گئی یوں یہ فارمولہ ناکامی سے دوچار ہوا اور نواز شریف
بالآخر لاہور میں واقع اپنی وسیع و عریض شاہانہ رہائش گاہ جاتی امراء پیلس
پہنچ گئے ۔اس کے بعد انہو ں نے پورے ملک میں جلسوں کی ایک تحریک شروع کی جس
کا عنوان’’ مجھے کیوں نکالا‘‘ تھا مگر یہاں بھی نواز شریف صاحب کو کوئی خاص
کامیابی نہ مل سکی ،جیسا کہ پاکستان دیہی علاقوں یا چھوٹے شہروں اور قصبوں
کا رواج ہے کہ سیاسی جلسے میں کھانے کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے جوکہ ایک
بہت بڑی برائی ہے جس میں انتہائی غریب طبقے کے لوگ ہی شامل ہوتے ہیں اور ان
کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کون آیا ہے اور کیا مقصد ہے ان کے ذہن میں تو یہ
ہوتا ہے کہ کئی ماہ بعد ہمیں اچھا کھانا کھانے کو ملے گا اس سے زیادہ کچھ
نہیں اسی لالچ اور غریب لوگوں کی بھوک اور افلاس کو یہ اپنے مذموم سیاسی
مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں ،یہاں میں کسی پارٹی سے متعلق یہ بات نہیں
کہہ رہا بلکہ تمام ہی سیاسی پارٹیاں یہی طریقہ اپناتی ہیں اور لوگوں کی ایک
قابل ذکر تعداد اکھٹی کرلیتی ہیں اور پھر دور دراز دیہاتوں سے لانے کے لئے
لوگو ں کو مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت دی جاتی ہے یہ بھی عام دیہاتی لوگوں کے
لئے ایک تفریح کا سامان ہوتا ہے ۔اس طرح یہ جلسے ہوتے ہیں اور کامیاب ہوتے
ہیں۔تو نوازشریف صاحب نے اسی طرح کے جلسے ملک کے طول و عرض میں منعقد
کروائے اور انتہائی غریب ، ان پڑھ ،اور بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے لوگوں
کا مجمع اکھٹا کرکے ان سے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘
اور حسب توفیق عدلیہ کے فیصلے کی توہین بھی کرتے رہے اور کہتے رہے کہ پانچ
افراد نے آپ کے کروڑوں ووٹوں کی توہین کی ہے ، 22 کروڑ عوام کے منتخب وزیر
اعظم کو پانچ لوگوں نے نکال باہر کیا اور کیا آپ کو یہ فیصلہ منظور ہے ،تو
لوگ جواب میں کہتے اور ان کے چیلے ، چاٹے کہلواتے کہ نہیں ہمیں عدلیہ کا
فیصلہ منظور نہیں ہے ۔کوئی ان موصوف سے پوچھے کہ آپ کی پارٹی کو 2013 میں
ایک کروڑ کے آس پاس ووٹ ملے تھے پھر پرویز مشرف کی ق لیگ بھی آپ نے اپنی
پارٹی میں شامل کرلی تو بھائی 22 کروڑ لوگوں پر یہ تہمت کیوں لگاتے ہو کہ
انہوں نے آپ کو منتخب کیا ہے ؟ ساتھ ہی ساتھ ان کی صاحبزادی مریم صفدر بھی
ہر جلسے میں ان کے ساتھ ہوتی اور دونوں باپ بیٹی ، عدلیہ اور معزز جج
صاحبان کی تضحیک ، توہین کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں
مصروف نظر آتے ،مگر اس کا کوئی فائدہ تو ہوتا نظر نہیں آیا ،پتہ نہیں کون
احمق انہیں یہ مشورہ دے رہا تھا کہ اس طرح عدلیہ کے خلاف جارحانہ رویہ
اختیار کرنے سے تمہیں فائدہ ہوگا ۔۔اپنے آپ کے بے گناہ ثابت کرنے کا سب سے
بہترین فورم سپریم کورٹ تھا جہاں نواز شریف کے مقدمات زیر سماعت ہیں ان کو
چاہیے تھاکہ وہاں اپنے مؤقف کے حق میں ٹھوس ثبوت پیش کرتے اور تمام الزمات
سے بری ہوتے مگر انہوں نے عدالتوں میں کیس لڑنے کے بجائے سڑکوں اور جلسوں
پر اپنے حق میں فیصلہ لینے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے اور فیصلے بھی کس سے
لے رہے ہیں ان بھوک ،افلاس ، غربت ، جہالت اور بیماریوں کے مارے ہوئے ان
مظلوم پاکستانی عوام سے جن کا مبینہ طور پر300ارب روپے سے زائد کرپشن کرکے
یہ اور ان کے ساتھ ملک سے باہر لے گئے ہیں اور اس ملک کے ہر فرد کو 1 لاکھ
30 ہزار روپے کا مقررض کرچکے ہیں ،اس کارخیر میں تمام سیاسی پارٹیاں اور ان
کے سربراہان نے حصہ لیا مگر 3 بار وزیر اعظم اور5 بار سب سے بڑے صوبے کا
وزیر اعلیٰ رہنے والی پارٹی نوازشریف کی ن لیگ ہی ہے،اس لئے اگر ترقی ہوتی
تو اس کا کریڈٹ بھی انہی کو ملتا اور اگر ملک میں بدحالی ، تنزلی ، اور
قرضے کی آفت آئی ہے تواس کے ذمہ دار بھی یہی ہوں گے ۔ پاکستان کا ایک عام
غریب آدمی جوکہ روٹی کے چکر میں ہی پورا ہے ، آٹا،چاول، گھی ، چینی ،اور
دوائی اس کے پہنچ سے باہر ہے اس کو کیا پتہ سیاسی معاملات کا۔۔۔
اس طرح کے مسلسل جھوٹ اور جلسوں میں عدلیہ اور دفاعی ادارو ں کے خلاف دھول
اڑاتے ،اڑاتے ایک اور دھماکہ ہوگیا ،21 فروری2018ء کو سپریم کورٹ نے اس
آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے دیا جس میں نواز شریف نے اپنے آپ کو دوباہ
پارٹی صدر بنانے کے لئے جو ترمیم کی تھی سپریم کورٹ نے اس کو بھی کالعدم
قرار دے دیا اور پارٹی صدر کے طور پر 28جولائی کے بعد انہوں نے جو فیصلے ،
احکامات ،تقرری، نامزدگی یا جو بھی کام کیا تھا وہ سب کالعدم قرار دے دیا
گیا ۔اس طرح اقتدار ، اختیار ،کی ریت آہستہ آہستہ ہاتھ سے پھسلتی رہی ،ابھی
المیہ ،طربیہ اور سسپنس سے بھرپور یہ سیاسی فلم جاری ہے اور آئندہ کیا کیا
ہونے والا ہے اس کا انتظار کیجئے ،کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ تمام اشرافیہ
بشمول شریف فیملی کسی ادارے ،یا فرد کی نہیں اللہ کی پکڑ میں ہیں اور اس جس
طرح یہ تیزی سے زوال پذیر ہورہے ہیں یہ بات سچ بھی لگتی ہے ۔۔واللہ عالم
بالصواب۔۔ |