احد چیمہ کے حوالے سے نیب نے جوالزامات عائد کئے ہیں، ان
کی بنیاد پر ایک دلچسپ سٹوری سامنے آئی ہے ، یہ الزامات چونکہ ابھی ثابت
نہیں ہوئے، اس لئے ہم اسے مبینہ کہانی کہہ سکتے ہیں، عدالت سے یہ اگر ثابت
ہوگے، تب ان کی حیثیت مستند کی ہوجائے گی۔
یہ کہانی میبنہ طور پرآشیانہ اقبال نامی سکیم سے شروع ہوئی۔ وزیر اعلیٰ
پنجاب شہباز شریف نے اپنے پچھلے دور حکومت میں کم آمدنی والے افراد کے لئے
کم قیمت پر ذاتی گھر لینے کی غرض سے آشیانہ سکیمیں شروع کیں۔ آشیانہ
قائداعظم ون اور ٹو مکمل ہو چکی ہیں، انکے گھر بھی الاٹ کئے جا چکے ہیں۔
آشیانہ اقبال سکیم اس سلسلے کی تیسری کڑی ہے۔ پنجاب حکومت نے اور بہت سی
کمپنیوں کی طرح اس قسم کے پراجیکٹ کے لئے پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی بنا
رکھی ہے، احد چیمہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی ایل ڈی اے کے چیئرمین اور
پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے ڈائریکٹر تھے۔ آج کل احد چیمہ پاورکے حوالے
سے بنائی گئی کمپنی کے سربراہ ہیں۔
آشیانہ اقبال 3 ہزار کینال پر مشتمل سکیم ہے، آشیانہ قائداعظم ون اور ٹو
ایک معروف کمپنی نے بنائے اور وہ پراجیکٹ کامیاب رہے، حیران کن طور پر
آشیانہ اقبال سکیم کے لئے اس تجربہ کار اور اچھی شہرت والی کمپنی کو ٹھیکہ
نہیں دیا گیا۔ یہ ٹھیکہ پیراگون سوسائٹی کی ایک ذیلی یا سب سڈری کمپنی کاسا
کو دیا گیا۔ کاسا سی فور کیٹیگری کی کمپنی تھی ، جو 15 بیس کروڑ سے زیادہ
بڑا ٹھیکہ لینے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی تھی۔ اس کمپنی کو مگر 14 ارب روپے
کا آشیانہ اقبال پراجیکٹ سونپ دیا گیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پیراگون
سوسائٹی مسلم لیگ ن کے معروف رہنما اور وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی ملکیت
تصور ہوتی ہے ۔ اصول یہ طے ہوا کہ ایک ہزار کنال پر کنسٹرکشن کی جائے گی
اور دو ہزار کنال اس کے معاوضے کے طور پر کاسا کو دئیے جائیں گے۔ کاسا
پچھلے آٹھ 10 برسوں کے دوران پراجیکٹ مکمل نہیں کر سکا اور قومی خزانے کے
اربوں روپے ڈوبے تصور کئے جا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آشیانہ
قائداعظم بنانے والی کمپنی نے کاسا کو آشیانہ اقبال کا ٹھیکہ سونپے جانے
کا فیصلہ چیلنج کیا اور فیصلہ ان کے حق میں ہوگیا، مگر پنجاب حکومت نے
ٹھیکہ انہیں دینے کے بجائے انہیں پچاس یا ساٹھ لاکھ کے قریب جرمانہ ادا کر
دیا اور ٹھیکہ بدستور کاسا کے پاس رہا۔
نیب نے آشیانہ اقبال سکیم کی تحقیقات شروع کیں تو ان کے علم میں آ گیا کہ
اول تو ٹھیکہ غلط طور پر ایک ناتجربہ کار اور کم اہلیت رکھنے والی کمپنی کو
دیا گیا، حالانکہ اسی آشیانہ سکیم کے دو پراجیکٹ مکمل کرنے والی کمپنی
ٹھیکہ لینا چاہ رہی تھی، دوسرا انکشاف پہلے سے بھی زیادہ حیران کن ہے۔
مبینہ طور پر نیب کے علم میں آیا کہ احد چیمہ نے اس سکیم میں 32 کنال زمین
بھی حاصل کی ہے۔ 32 کنال کی زمین کے لئے سوا تین کروڑ کے قریب رقم ادا کی
گئی۔ اس رقم کے حساب سے بھی یہ زمین بہت سستی تھی، مگر مزید ستم ظریفی یہ
ہوئی کہ احد چیمہ نے صرف 25 لاکھ روپے ادا کئے اور باقی 3 کروڑ رقم پیراگون
سوسائٹی کے بینک اکائونٹ سے ادا کئے گئے۔ یعنی مبینہ طور پر پیراگون ہی کی
زیلی کمپنی کاسا بتیس کنال زمین احد چیمہ کو بیچنے والی اوراس کے لئے 3
کروڑ اسی پیراگون سوسائٹی کے اکاؤنٹ سے ادا کئے گئے ۔ رشوت دینے کی ایسی
بھونڈی مثال کم ہی ملے گی۔ شائد احد چیمہ اینڈ کمپنی کو یقین تھا کہ تاحیات
اس ملک پر شریف خاندان ہی مسلط رہے گا اور ان کے تمام تر گھپلے محفوظ رہیں
گے، کبھی سامنے نہیں آ سکیں گے۔
نیب نے احد چیمہ کو جب بلایا اور ان سے تحقیق کی کہ کاسا ڈویلپرز کو ٹھیکہ
کیوں دیا گیا، حالانکہ وہ سی فور کمپنی ہے اور اتنا بڑا ٹھیکہ ہینڈل کرنے
کی استعداد ہی نہیں رکھتی۔ ایک بار پھر مبینہ طور پر چیمہ صاحب نے
وزیراعلیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ ان کی جانب سے اثر ورسوخ استعمال کیا گیا۔
اس حوالے سے ایک اہم خط بھی نیب کو دے دیا گیا۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری
فواد حسن فواد کو بھی اسی حوالے سے تفتیس کے لئے بلایا گیا کہ ان پر بھی
الزام ہے کہ اس ٹھیکے کے لئے کہا تھا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف صاحب کو جب نیب
نے بلایا تو وہ شروع کا آدھا گھنٹہ آشیانہ قائداعظم کے گیت گاتے رہے،
آخر نیب نے انہیں کہا کہ جناب اعلیٰ آپ کو آشیانہ اقبال کے لئے بلایا
ہے، آشیانہ قائداعظم کا تو ہم نے نام ہی نہیں لیا۔ جب انہیں کہا گیا کہ
آپ نے وہ ٹھیکہ کاسا کو دینے کا خط لکھا تھا تو مبینہ طور پر خادم اعلیٰ
سٹپٹائے، بعد میں جب ان کے علم میں آیا کہ یہ کام ان کے منظور نظر
بیوروکریٹ نے کیا ہے تو پھر تو کہتے ہیں کہ انکے چہرے کا یہ حال تھا کہ
کاٹو تو لہو نہیں۔ اس کے بعد ہی رات بھر میٹنگز چلتی رہیں جن میں میبنہ طور
پر یہ فیصلہ ہوا کہ احد چیمہ کو ملک سے باہر بھیج دیا جائے ۔ اسی لئے نیب
نے اگلی صبح چیمہ صاحب کو حراست میں لے لیا۔ یہی وہ گرفتاری ہے جس پر جمعہ
کے دن پنجاب کی اعلیٰ بیوروکریسی احتجاج کرتی رہے اور سول سیکرٹریٹ پر تالے
لگا دئیے گئے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا احتجاج ہے اور یہ اندازہ لگانا مشکل
نہیں کہ اس کی سرپرستی کہاں سے ہو رہی ہے۔
اس کہانی سے یہ اندازہ لگانا بھی دشوار نہیں کہ نیب آخر احد چیمہ کو اتنے
قوی شواہد کے ہوتے ہوئے بھی گرفتار کیوں نہ کرتی؟ بیوروکریسی کا احتجاج
البتہ سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں پھندا اپنی گردنوں کے گرد تنگ ہوتا لگ رہا
ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ احد چیمہ کے خلاف آشیانہ والا
معاملہ صرف آئس برک کا معمولی حصہ ہے، اور بہت سی کہانیاں، غیر ملکی
اکائونٹس کے معاملات کی بھی چھان بین ہو رہی ہے ۔
نوٹ: یہ وہ کہانی ہے جس کا بیشتر حصہ اخبارات میں شائع ہوچکے اور ٹی وی پر
نشر ہو چکے ہیں، میں نے انہیں جوڑ کر ترتیب دی دیا ہے، تاہم یہ ایک سائیڈ
کا موقف ہے، اگر کوئی ن لیگی قلمکار یا ن لیگی سوشل میڈیا آرمی کا کوئی
کمانڈر اپنی طرف کا سچ بیان کرنا چاہیے تو ہم اسے بھی پیش کر سکتے ہیں۔
ملک میں مارشل لا لگتے رہے، پنجاب کی بیوروکریسی نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔
بدترین ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے پوری سپریم کورٹ فارغ کر دی، دو سال تک مزاحمت
کرنے والے جج گھروں میں بیٹھے رہے، بیوری کریسی ٹھنڈ پروگرام پر عمل کرتے
ہوئے مزے سے کام کرتی رہی۔ بڑے سے بڑا واقعہ ہوا، ان کے کان پر جوں تک نہ
رینگی۔ درجنوں بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، انہیں مار دیا گیا، ایک بھی
بیوروکریٹ نے نعرہ احتجاج بلند نہیں کیا، اپنے ساتھی بیوروکریٹس کی نااہلی
پر تنقید نہیں کی۔ ایک کرپٹ بیوروکریٹ جس پر کئی برسوں سے کرپشن کے الزامات
عائد کئے جا رہے تھے، اسے ٹھوس شواہد کی بنیاد پر نیب نے گرفتار کیا تو
اچانک ہی پوری بیوروکریسی ہڑتال پر چلی گئی، سول سیکرٹریٹ پر تالے لگا
دئیے۔
اس ہڑتال کی کوئی ایک بھی دلیل ہے کسی کے پاس؟ مجھے حیرت ہے کہ میڈیا بھی
اس انتہائی سنگین واقعے کو بھرپور کوریج نہیں دے رہا۔
یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ بغاوت نہیں، ان بدبخت، کرپشن کا ساتھ دینے والے
بیوروکریٹس کے خلاف بغاوت کا مقدمہ نہیں درج کرانا چاہیے ؟ ان کی پس پردہ
سپورٹ کرنے والے حکمرانوں کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہونا چاہیے؟
|