کچھ لوگوں کی بالادستی کی قیمت چکانا ریاست کے لیے مشکل
ہوتاچلا جارہاہے۔یہ جسم کو لگی کوئی ایسی بیماری کی مانند ہے۔جس میں مریض
کی بقا اسی میں رہ جاتی ہے کہ کبھی اس کی سماعت قربان کردی جائے۔کبھی بصارت
گنوادی جائے ایک ایک کرکے جب سارے اجزاء اور اعضا اس بیماری کی نذر ہوجاتے
ہیں جب چاٹ جانے کو کچھ نہ بچے تو پھر سوائے اس کے کوئی راہ نہیں بچتی کہ
کسی دن بچا کچھا جسم دھڑام سے گر جائے۔ یہ قوتیں اپنی بالادستی کو قائم
رکھنے کے لیے ریاست کے ستونوں کو کمزور کرتی ہیں۔ان ستونوں کا کھوکھلا ہونا
ہی ان قوتوں کے مفاد میں ہے۔تاکہ کوئی ان کی من مانیوں کو چیلنچ نہ
کرسکے۔۔۔ڈاکٹر منظر صاحب کچھ دیر کے لیے رکے، میں نے اس وقفے کا فائدہ
اٹھایا۔عرض کیا ڈاکٹر صاحب اس لمبی چوڑی تمہید کا مقصد کیا ہے؟آپ کہنا کیا
چاہ رہے ہیں؟ بولے۔پہلے سپریم کورٹ نے میاں صاحب کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔ان
کی صد ار ت ختم کردی۔یہی نہیں بلکہ ا ن کی نااہلی کی مدت کے دوران تمام کیے
گئے فیصلوں کو کالعدم قراردے دیا گیا۔اب الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ ن کے
سینٹرز کو پارٹی نشان کے بغیر الیکشن لڑنے کا کہہ دیا ہے۔
ڈاکٹر منظر صاحب میر ے لنگوٹیے ہیں۔کبھی کبار بیٹھک ہوتی ہے تو کھل کر با
تیں ہوتی ہیں۔آج بھی اچانک ان دھمکے۔جس طر ح انہوں نے دروازہ کھولتے ہی
آواز لگائی کہ یار بڑی بری خبر ہے تو ماتھا ٹھنکا۔ان کے چہرے کی پریشان
دیکھ کر میرے چہرے پر بھی سنجیدگی آگئی۔ان کی کفتگو سپریم کورٹ کی طر ف سے
نااہل شخص کی پارٹی صدار ت سے متعلق فیصلہ صادر کرنے سے متعلق تھی۔جب وہ
اپنا مدعابیان کرچکے تومیں نے بھی خود کو ان کی پریشانی میں حصہ دار
پایا۔میں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کو سینٹ سے اس طرح آؤٹ کرنے سے نوازشریف کا
بیانیہ مزید تقویت پاجائے گا۔ڈاکٹر منظر صاحب کا کہناتھاکہ سپریم کورٹ کے
لیے کیا یہ مناسب ہے کہ وہ نوازشریف کی پارٹی صدارت کو ختم کرے جب کہ انہیں
پارلیمنٹ نے یہ صدار ت بخشی ہے؟پارلیمان میں نوازشریف کی پارٹی صدارت کی
دودفعہ تائید ہوچکی۔21نومبر2017 کو قومی اسمبلی میں اس صدارت کی دوبارہ
توثیق اس وقت ہوئی جب اپوزیشن کی طرف سے نااہل شخص کی صدار ت کے خلاف ایک
بل کی رائے شماری کی گئی۔صدار ت ختم کرنے کی حمایت میں 98ووٹ آئے جبکہ
163ووٹ اس کی مخالفت میں آئے۔اس سے پارلیمان میں نوازشریف کی صدارت کی
حمایت اکثریت کی طرف کی گئی۔جانے کیوں جس دن اپوزیشن کایہ بل مستر دہوااس
سے بالکل اگلے دن سپریم کورٹ نے نااہل شخص کی پارٹی صدارت کے خلاف شیخ رشید
و دیگر کی درخواست کے خلاف تمام اعتراضات کالعدم قرار دے کر سماعت کے لیے
منظور کرلیے جانے کا حکم سنادیا گیا۔اسی کیس کی سماعت کے دوران23جنوری
2018کو سپریم کورٹ نے شیخ رشید کی اس درخواست کو مسترد کردیاتھا۔جو
نوازشریف کی پارٹی صدارت کے لیے بنائے جانے قانون کی معطلی کے لیے
تھی۔عدالت کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ قانون معطل نہیں ہوسکتا۔اب
جانے کیوں عدالت پارلیمنٹ کے دیے اختیار کو معطل ہی نہیں بلکہ کالعدم ہی
قرار دے رہی ہے؟ ڈاکٹر منظر سخت مایوسی کے شکار تھے بولے آخر کب تک چلتارہے
گاکہ جب چاہے ایک چیز کوجائز کہہ ڈالو جب چاہے اسے ناجائز قرار دے دو؟ کیا
اداوں میں کوئی واضح پالیسی اختیار کرنے کا کلچر کبھی پیدا ہوگا۔یا ہم
ہمیشہ اسی طرح آج کچھ اور کل کچھ کوہلو کے بیل بنے رہیں گے۔ہم کب کچھ
معاملات کو مستقلاطے کرکے باقی معاملات کی طرف بڑھیں گے؟ نااہل شخص کی
پارٹی صدار ت کو ناجائز قراردیناتو کسی حد تک سمجھ آتاہے مگر اس کے نامزد
ان لوگوں کو ڈی سیٹ قراردینا کیسے مناسب ہوگا؟ انہیں عوام نے منتخب کرلیا
ہے۔کیاں لودھراں کے انتخاب کی طرح دیگر تمام ایسے حلقوں کے انتخابات اس لیے
کالعدم قراردے دیے جائیں کہ وہاں کے امیدواروں کو نوازشریف کے دستحط سے
میدان میں اتاراکیا۔ان حلقوں کے انتخابات کے کالعدم ہونے سے رائے دہندگان
کی مایوسی کو کسی کھاتے میں ڈالا جائے گا؟ میں نے تائید کی کہاکہ اگر ضمنی
الیکشنز کے معاملے کو الگ کرلیا جاتاتو شاید فیصلے کی سختی کم کی جاسکتی
تھی۔عدالت اگر ماضی کی طرح اب تک کے معاملات کو باقی رکھنے اور آئندہ کے
لیے نوازشریف کی نامزدگیوں کو غیرقانونی قرار دے کر یہ مسئلہ پیدانہ ہونے
کا بندوبست کرسکتی تھی۔
ڈاکٹر صاحب ازحد پریشان تھے۔اصل میں وہ اس عام آدمی کی عکاسی کررہے تھے۔جو
قانون اور آئین کی پیچیدگیوں میں الجھنے کی بجائے حالات حاضر ہ پرنظریں
جمائے ہوئے ہو۔وہ اس فیصلے کے بعض پہلووں کو لیکر نوازشریف کے بیانیے کی
تائید کرنے پر تلے ہوئے تھے۔میں جتنا قانون اور آئین کی تشریح کی طر ف
آتاوہ عدلیہ کی طرح حالیہ دنون میں سامنے آئے کسی نہ کسی ریمارکس کا ذکر
کردیتے۔کسی فیصلے کا کوئی ایسا پہلو نمایا ں کردیتے جو مجھے مشکل میں ڈال
دیتا۔جب مجھے باربار کی لاجوابی نے دق کردیا تو میں نے حسب روایت ڈاکٹر
منظر صاحب کی دکھتی رگ پر ہاتھ دھر دیا۔کہا کہ کیا وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ
موجودہ ابتر حالات کے پیدا کرنے والوں کے اوپر بھی کوئی قوت موجودہے؟ ڈاکٹر
صاحب تھوڑے ٹھنڈے پڑے۔میں نے کہانوازشریف کا بیانیہ درست ہے یا غلط اس کا
فیصلہ وقت کرے گا۔یہ فیصلہ آفاقی میرٹ پر ہوگا۔یہ قدرت کا وہ میرٹ ہے جہاں
فیصلے کمزور اور طاقتور کی بنا پر نہیں اچھے یا برے کی بنیا د پرکیے جاتے
ہیں۔جہاں معاملات تیزی طراری کی بجائے سچ جھوٹ کے ترازو پر ہوتے
ہیں۔نوازشریف کے بیانیے کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ وقت اپنے انداز میں
کردے گا۔ڈاکٹر منظر صاحب نے ا س کے بعد کوئی دوسرا سوال نہیں کیا۔ان کی
واپسی کے وقت ان کے چہرے پر اتنی افسردگی نہ تھی۔جتنی ان کی آمد پر دیکھی
گئی۔ |