بابری مسجد کا تنازعہ مسلمانان ہند کے دلوں کا ناسور ہے۔
ہندوستان کے فرقہ پرست ہی نہیں سیکولر عناصر بھی اس مسئلے پر اپنی سیاسی
روٹیاں سیکتے ہیں۔ مسلمانوں کا نمایندہ پلیٹ فارم مسلم پرسنل لابورڈ اور اس
قضیے کے متعلقین یہ بات بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم
کرلیںگے، مگر فریق مخالف کا اصرار ہے کہ ہر صورت میں رام مندر کی تعمیر کی
جائےگی۔ خود کو سیکولر کہنے والی کانگریس بھی اسی موقف کی حامل ہے۔ وہ قطعی
ہندوؤں کے جذبات کے برخلاف کسی ایسےفیصلے کے نفاذ کی تائید نہیں کرےگی، جس
سےبابری مسجد کا حق ملکیت سنی وقف بورڈ کو حاصل ہوجائے۔چہ جائے کہ فرقہ
پرست عناصر۔
اب مسلمان کیا کریں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس پر علماے دین اور دانشمندان
ملت میں اختلاف نظر آرہا ہے۔ جہاں تک عامۃ الناس کا تعلق ہے، یہ کہا جائے
تو غلط نہ ہوگا کہ اسے بابری مسجد سے قطعی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر اس کی جگہ
مندر کی تعمیر ہوجاتی ہے، اور یہ قضیہ ختم ہوجاتا ہے، تو شاید وہ سکون کی
سانس لےگی۔اب یہ رہنمایان ملت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے بقول مولانا سلمان
حسینی ندوی win win کی شکل میں حل کرلے۔
علمائے دین اور دانشوران ملت نے فقہ حنفی کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ
’’بابری مسجد ،مسجدتھی، ہے، اور قیامت تک کے لیے مسجد رہے گی۔‘‘ میں اس بات
کا اعتراف کرتے ہوئے کہ مجھے علم دین کی معمولی سمجھ ہے، علماے امت کی خدمت
میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ہندوستان کے وہ
سرکردہ علما جن کے تفقہ فی الدین پر ہمیں ناز ہے، مجتہدانہ روش اختیار کرتے
ہوئے ، اس موقف پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ میں اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوں
کہ مسلمانوں کے تمام پلیٹ فارم ملت کے خیرخواہ افراد پر مشتمل ہیں۔ اس لیے
وہ ایسا راستہ اختیار کریںگے،جس سے یہ ملت آزمایشوں سے محفوظ رہے۔ اور اس
ملک میں نہ صرف دین و ایمان کے ساتھ زندگی گزارے، بلکہ دین کی داعی بھی بن
جائے۔
اول یہ کہ مسلم پرسنل لابورڈ کا یہ موقف کسی نص صریح کی بنیاد پر نہیں ہے،
بلکہ امام ابویوسف کے فتوی کی بنیاد پر ہے۔ فتوای عالمگیری سے یہ معلوم
ہوتا ہے کہ یہ رائے مختلف فیہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
اگر کوئی مسجد خراب (مراد ویران) ہوگئی اور مسجد والے اس سے بےپرواہ ہوگئے
اور وہ مسجد خراب ہوکر ایسی ہوگئی کہ اس میں نماز نہیں پڑھی جاتی ہے ،تو
اپنے وقف کرنے والے کی ملک میں یا اُس کے وارثوں کی ملک میں عود کر جائے
گی۔ حتی کہ ان کو اختیار ہوگا کہ چاہیں اُس کو فروخت یا اس کو گھر بنادیں
اور بعض نے فرمایا کہ وہ ہمیشہ کے واسطے مسجد ہے اور یہی اصح ہے یہ خزانۃ
المفتین میں ہے۔
مترجم کہتا ہے کہ یہی صحیح ہے اور قول اول خطا ہے۔۔۔۔ دو مسجدوں میں سے ایک
قدیم اور دوسری جدید ہے ۔پھر قدیم بہ سبب پرانی ہونے کے خراب و منہدم ہونے
کو آگئی۔ پس اہل محلہ و کوچہ نے چاہا کہ اس کو فروخت کرکے اس کے دام جدید
مسجد میں صرف کریں ،تو یہ نہیں جائز ہے۔ چناںچہ امام ابو یوسف کے قول پر۔
اس وجہ سے نہیں کہ مسجد اگرچہ خراب ہوجائے اور اس کے لوگ اس سے بےپرواہ
ہوجائیں، وہ کبھی اپنے بنانے والے کی ملک میں عود نہیں کرتی ہے۔اور بنا بر
قول امام محمد کے اگرچہ بےپروائی کے بعد وہ ملک میں عود کرتی ہے، لیکن اپنے
بنانے والے یا اس کے وارثوں کے ملک میں عود کرتی ہے۔ پس مسجد و محلہ والوں
کو دونوں میں سے کسی قول پر فروخت کرنے کی ولایت حاصل نہ ہوگی ۔اور فتوی
امام ابویوسف کے قول پر ہے کہ وہ کبھی ملک میں عود نہیں کرتی ہے ۔ کذا نقل
فی المضمرات عن الحجۃ حاوی میں ہے کہ شیخ ابوبکر اسکاف سے پوچھا گیا کہ ایک
شخص نے اپنے دار کے دروازے پر اپنے لیے مسجد بنوائی اور اس کی اصلاح و
تعمیر کے لیے ایک زمین وقف کی ،پھر وہ مرگیا اور مسجد خراب ہوگئی اور اس کے
وارثوں نے اس کی بیع کا فتویٰ طلب کیا۔ پس فتویٰ دیا گیا کہ بیع جائز ہے
۔پھر کسی قوم نے اس کو مسجد بنالیا اور بعد تعمیر کے اس اراضی وقف کو طلب
کیا تو فرمایا کہ ان کو مطالبہ کا حق نہیں پہنچتا ہے ۔ یہ تاتار خانیہ میں
ہے۔(فتاوای عالمگیری، مترجم: جلد چہارم۔ ص ۱۷۷۔۱۷۸)
ردالمحتار علی الدرالمختار علامہ محمد امین ابن عابدین شامی کی نہایت عظیم
الشان تالیف ہے۔ یہ دراصل در مختار کی شرح ہے اور اسے فتاوی شامی بھی کہا
جاتا ہے۔ اس میں ہے:
لأهل المحلة تحويل باب المسجد... لهم تحويل المسجد إلی مکان آخر إن ترکوه
بحيث لايصلی فيه ولهم بيع مسجد عتيق لم يعرف بانيه وصرف ثمنه في مسجد آخر.
’’محلے دار مسجد کا دروازہ بدل سکتے ہیں۔۔۔ اہل محلہ مسجد کو بھی ایک جگہ
سے دوسری جگہ بدل سکتے ہیں۔ اگر اسے اس حال میں چھوڑ دیں کہ اس میں نماز
نہیں پڑھی جاتی۔ ان کو یہ بھی اختیار ہے پرانی مسجد بیچ دیں جس کے بانی کا
اتہ پتہ نہیں۔ اور اس کی قیمت دوسری مسجد پر خرچ کر لیں۔‘‘(ابن عابدين
شامي، رد المحتار، 4: 357، بيروت: دار الفکر للطباعة والنشر)
ویران مسجد کو فروخت کرنے کے متعلق مزید ایک فتوی نقل کیا جارہا ہے:
حوض أو مسجد خرب وتفرق الناس عنه فللقاضي أن يصرف أوقافه إلی مسجد آخر
ولو خرب أحد المسجدين في قرية واحدة فللقاضي صرف خشبة إلی عمارة المسجد
الآخر.
’’حوض یا مسجد ویران ہو جائیں اور لوگ اِدھر اُدھر بکھر جائیں تو قاضی
(عدالت) کو اجازت ہے اس کے اوقاف (زمین، جاگیر، باغات، دکانیں، مکانات اور
رقوم) کسی اور مسجد پر صرف کرے۔ اگر ایک بستی (محلہ) میں، دو مسجدوں میں سے
ایک ویران ہو جائے تو قاضی (عدالت) کو اختیار ہے کہ اس کی لکڑی (وغیرہ)
دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کرے۔‘‘(زين الدين ابن نجيم، البحر الرائق، 5:
273، بيروت: دار المعرفة)
ردالمحتار میں امام ابویوسف کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ ’’اگر مسجد ویران
ہوگئی اور آس پاس بھی ویران ہو گیا اور لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے تو امام
ابو یوسف رحمہ اﷲ کے نزدیک وقف کرنے والے کی ملکیت میں دوبارہ نہیں لوٹے
گی۔ لہٰذا قاضی کی اجازت سے اس کا ملبہ فروخت کر کے اس کی قیمت کسی اور
مسجد پر صرف کی جائے گی۔‘‘( ابن عابدين شامي، رد المحتار، 4: 359)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلم پرسنل لابورڈ سے وابستہ تمام ہی علما ان
نکات سے کماحقہ واقف ہیں۔ ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد کی منتقلی کا
معاملہ مختلف فیہ ہے۔ بالعموم احنفا ف امام ابویوسف کے حوالہ سے یہ فتوی
دیتے ہیں کہ اگر مسجد ایک مرتبہ تعمیر ہوجائے، تو وہ جگہ قیامت تک مسجد رہے
گی۔ مگر ابن عابدین شامی نے خود امام موصوف کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ ویران
مسجد کا ملبہ فروخت کرکے، کسی دوسری مسجد کی تعمیر میں خرچ کیا جاسکتا ہے۔
جب کہ امام محمداس بات کے قائل ہیں کہ مسجد وویران ہوجائے تو وقف کنندہ کی
طرف لوٹائی جائے گی۔ پھر اس کا اختیارہے، چاہے جو معاملہ کرے۔
اس صورت میں کیوں یہ بلند مرتبہ حضرات اجتہاد کا راستہ اختیار نہیں کرتے ؟
یقیناً بابری مسجد کا معاملہ ان مثالوں سے بالکل ہی مختلف ہے۔ لیکن ملک کی
موجودہ صورت حال کے پیش نظر کسی ایسے فارمولے پر مصالحت کی راہ اختیار کی
جانی چاہیے، جس سے مسئلہ حل ہوجائے۔ سیاسی روٹیاں سینکنے والوں کی بھٹی سرد
ہوجائے، اور ملک کی عوام چین کا سانس لے سکے۔ اس لیے کہ جب بھی فسادات کی
آگ سلگتی ہے، تو طرفین سے بےچاری عوام ہی پسی جاتی ہے۔ دونوں طرف کے
سرکردہ افراد چین کی بانسری بجاتے ہیں، اور عوام الناس تباہی و بربادی کی
آگ میں جھلستے ہیں۔
اس لیے تمام دانشوران ملک اور بالخصوص طرفین کے مذہبی رہنماؤں سے مودبانہ
درخواست ہے کہ اس مسئلہ کو عدلیہ کے باہر حل کرکے اس کا ایسا حل نکالاجائے
کہ ملک میں ہندو مسلم بھائی چارے کی فضا قائم و دائم رہے۔ |